"FBC" (space) message & send to 7575

یہاں بھی ‘ وہاں بھی

جب کوئی شخص گاڑی چلانے کی تربیت لیتاہے ، بالخصوص خواتین یا کم عمر لڑکا تو اسے دوسری گاڑیوں اور راہگیروں کو بچانا مشکل لگتاہے۔اسے درست فاصلہ برقرار رکھنا نہیں آتا۔ بہت سے افراد تو یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ کام ہمارے بس کا نہیں ۔تربیت دینے والا کہتاہے کہ انجن کی آواز بدل رہی ہے ، اب گیئر تبدیل کرو۔ اناڑی شخص سوچتا ہے کہ اگر میں اکیلا ہوتا تو مجھے آواز کا یہ فرق کیسے معلوم ہوتا۔ تربیت دینے والا بہت سوں کو ان چیزوں سے گزرتے دیکھتاہے۔ اس کے لیے یہ ایک معمول کی بات ہوتی ہے ۔ چند ماہ بعد وہی شخص ، جو کبھی دوسری گاڑی کو دیکھ کراپنی کار سڑک سے نیچے اتار لیتا تھا، تیز رفتاری سے اسے بھگا رہا ہوتاہے ۔ انسانی دماغ میں سیکھنے کی غیر معمولی صلاحیت موجود ہے ۔ بچّہ اپنے دماغ میں مکمل خلیات (neurons)لے کر پیدا ہوتاہے ۔ پچاس برس بعد بھی جب وہ کوئی بات سیکھتاہے تواس دماغ میں صرف اتنی تبدیلی رونما ہوتی ہے کہ خلیات زیادہ بہتر طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑ رہے ہوتے ہیں ۔ 
بچّہ جب انجکشن کو دیکھتا ہے تو وہ ہر ممکن مزاحمت کرتاہے ۔ والدین کو معلوم ہوتاہے کہ اس میں اس کا کتنا بڑا فائدہ چھپا ہے ۔ وہ بے شمار بیماریوں سے محفوظ ہو جائے گا۔ وہ اس کی چیخ و پکار نظر انداز کردیتے ہیں ۔جس نے ہمیں پیدا کیا، اسے بخوبی معلوم ہے کہ تکلیف ہماری صلاحیت میں کیسے اضافہ کرتی ہے ۔ کیسے یہ ہمیں زندگی کی سختیوں سے نمٹنے کے قابل بناتی ہے ۔ بیماری، غربت یا کسی بھی آزمائش کو دیکھ کر ہم بلبلاتے ہیں تو یہ اسی طرح ہے ، جیسے بچّہ انجکشن کو دیکھ کر شور مچاتاہے ۔ خدا کہتاہے کہ وہ ہمیں ہماری ہمت سے زیادہ نہیں آزمائے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ہماری ہمت کتنی ہے ۔ جس نے ہمیں بنایا، اسے ہماری برداشت کا بخوبی علم ہے ۔ 
جو بھی پیدا ہوا ، اسے آزمائش ، دکھ اور تکلیف سے گزرناہوتاہے۔یہ جس قسم کا جسم ہمیں ، ملاہے ، بہت ساری تکالیف اس کے ساتھ منسلک ہیں ۔ یہ تھک جاتاہے ۔ اسے بھوک لگتی ہے ۔یہ خواہشات کی آماجگاہ ہے ۔ اس کے مختلف اعضا میں خرابی پیدا ہوتی ہے ۔ کوئی جسمانی تکلیف نہ بھی ہو تو دماغ کے درمیان والے حصے میں جو جذبات موجود ہیں ، وہی تکلیف دینے کے لیے کافی ہیں ۔والدین ، بیوی بچے، مختلف رشتوں سے توقعات جڑی ہوتی ہیں ۔ جب یہ پوری نہیں ہوتیں یا جب ان میں سے کسی کو تکلیف پہنچتی ہے تو دماغ میں مختلف کیمیکلز خارج ہوتے ہیں اور رنج کاباعث بنتے ہیں۔ یہ سب کچھ خالصتاً سائنسی بنیادوں پر ہوتاہے ؛حتیٰ کہ احساسات اور جذبات کا یہ بہائو محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً برقی رو کی صورت میں بہتا ہے ۔ اگر تو گہرے مطالعے اور غور و فکر کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے کہ یہ دنیا اتفاقاً وجود میں آئی ہے تو یہ ایک الگ بات ہوتی ۔ تعصبات سے اوپر اٹھ کر جب گہرائی میں ہم غور کرتے ہیں تو خدا کا وجود جھٹلانا ناممکن ہوجاتاہے۔ نتیجہ یہ اخذ ہوتاہے کہ ہمیں ایک منصوبے کے تحت تکلیف سے گزارا جا رہا ہے ۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ یہ آزمائش کی دنیا ہے لیکن خوشخبری یہ ہے کہ یہ زندگی جو ہمیں بڑی طویل محسوس ہوتی ہے، اس کی عمر چند لمحات سے زیادہ نہیں ۔ 
کرّ ئہ ارض کی تاریخ میں پانچ ارب مخلوقات اس سیارے پر آباد رہی ہیں ۔ یہاں زندگی کی پیدائش اگر ایک اتفاق ہوتی تو انسان دوسرے جانوروں جیسا ایک جانور ہوتا۔ زندگی اگر اپنے آپ وجود میں آئی ہوتی تو پانچ ارب مخلوقات میں سے فقط ایک انسان ہی ذہین نہ ہوتا، دوسرے بھی کچھ نہ کچھ سیکھ جاتے ۔ زندگی ایک اتفاق ہوتی تو اس وقت آپ میرا یہ کالم پڑھنے کی بجائے کچّا گوشت چبا رہے ہوتے ۔ میں اس قابل نہ ہوتا کہ لیپ ٹاپ پر لکھ کر ایک سیکنڈ میں یہ مضمون دفتر کو بھیج سکتا۔ میری سمجھ بوجھ کے مطابق انسانی عقل سے بڑی خدا کی نشانی شاید اور کوئی نہیں ۔ آدمی کانپ کے رہ جاتاہے ۔ پانچ ارب مخلوقات خوراک اور افزائشِ نسل تک محدود رہیں اور ہم سورج کے مرکز میں عناصر کی تشکیل دیکھنے لگے ۔ہم خود عناصر کے ایٹموں (ہائیڈروجن، نائٹروجن، کاربن، آکسیجن، کیلشیم ، فاسفورس) کا ایک مجموعہ ہیں اور ہم خود ہی ان ایٹموں کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ۔ 
جو بھی پیدا ہوا، وہ آزمائش سے گزرے گا۔ فرض کیجیے کہ اگر آپ پر زندگی بھر کوئی تکلیف نہیں آئی تو بھی 80برس کی عمر میں آپ بستر پہ پڑ جائیں گے اور 5برس محتاج رہ کر موت کی تکلیف سے گزریں گے ۔یہاں اس نکتے پر پہنچ کر کھرب پتی اور کنگلے ایک برابر ہو جاتے ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم سب برابر ہیں۔ آج جب میں مڑ کر دیکھتا ہوں تو یوں لگتاہے کہ جیسے میری تیس سالہ زندگی ایک سیکنڈ میں گزر گئی۔ ایک دن آئے گا ، جب ہم اگلے جہاں میں اپنی اس پوری زندگی کو اسی انداز میں دیکھیں گے ۔ تب ہم دو دنیائوں کے پسِ منظر میں سوچ سکیں گے ۔ 
اگر گہرائی میں ہم غور کریں تو جس نے ہمیں پیدا کیا ہے ، اس کے منصوبے میں انسان کی چالیس پچاس ہزار سال کی زندگی شاید ایک لمحے سے بھی کم ہو۔ اس لیے کہ کائنات کی عمر 9ارب سال تھی ، جب ہمارا سورج اور ہماری زمین پیدا ہوئی۔ اس زمین کی زندگی میں بھی ساڑھے چار ارب سال بعد کہیں جا کر انسان پیدا ہوتاہے ۔ کروڑوں برس ڈائنا سار اس کرّے پر دندناتے رہے ۔ 99فیصد مخلوقات جو اس زمین پر پیدا ہوئیں ، وہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہیں ۔ جو منصوبہ ساز ہے ، آغاز بھی اس کے سامنے ہے اور اختتام بھی ۔ یہ دنیا بھی اس کے سامنے ہے اور وہ دنیا بھی ۔ ہماری استطاعت بھی اس کے سامنے ہے اور ہماری آزمائشیں بھی ۔ اس کے پاس مکمل معلومات ہیں اور وہ مکمل تجزیہ کر سکتاہے ۔ہم نے کس گھر میں پیدا ہونا ہے اور کس جگہ رہنا ہے ، یہ طے شدہ ہے؛حتیٰ کہ ہم نے گزرنا کس رستے سے ہے ، یہ بھی۔ ہر چیز تو طے شدہ ہے ۔ہماری ذہنی صلاحیت کیا ہوگی ؟ کیا ہم ذہین فطین ہوں گے یا ہونق، یہ بھی ہمارے بس میں نہیں ۔ ا س صورتِ حال میں انسان کے پلّے اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں رہ جاتا کہ زندگی میں جب بھی ہمیں دو یا زیادہ متبادل (options)میں سے ایک چننا ہوتو ہم بہتر کا انتخاب کریں ۔ ہم غو ر و فکر سے کام لیں تو اس ساری صورتِ حال کو سمجھ کر اس سے محظوظ ہو سکتے ہیں ۔ جو جان لے گا، جو اس عظیم منصوبہ ساز سے تعلق استوار کر لے گا ، وہی سُکھی رہے گا۔ یہاں بھی ، وہاں بھی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں