"FBC" (space) message & send to 7575

کچھ مزید تحقیقاتی نوٹس

بڑے سائنسدانوں کی تحریروں اور نت نئی دریافتوں کامطالعہ کرتے ہوئے، میں دلچسپ نوٹس اپنے پاس محفوظ کرتا رہتا ہوں ۔ آج ایک بار پھر آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر۔ 
یہ عین ممکن تھا کہ ہماری زمین فقط چٹانوں ، پتھروں اور دھاتوں کا ایک بے جان مجموعہ رہتی لیکن یہاں زندگی نے وجود پایا۔ زندہ خلیے نے جنم لیا ۔یہاںذہین زندگی (Intelligent life)پیدا ہوئی ۔سٹیون ہاکنگ کہتاہے "Life is one of the strangest phenomenon known۔ "
نیچرل سائنسز کی مختلف شاخوں نے کرّہ ء ارض کی تاریخ میں وقوع پذیر ہونے والے بڑے واقعات تک ہمیں رسائی دی ۔ کرّہ ء ارض کی عمر کائنات کا ایک تہائی (One Third)ہے ۔ اس عرصے میں یہاں صرف عظیم حیاتیاتی تبدیلیاں ہی نہیں بلکہ بہت بڑی ارضیاتی واقعات بھی وقوع پذیر ہو چکے ہیں ۔ ابتدا میں زمین انتہائی گرم، آکسیجن سے محروم اور انتہائی ہنگامہ خیز تھی ۔ جب یہ نظامِ شمسی کے دوسرے اجسام سے ٹکرا رہی تھی ۔ بعد ازاں جب یہ ٹھنڈی ہوئی تو اس کی ایک ٹھوس سطح وجود میں آئی ، جس پر آج ہم رہتے ہیں ۔ اس ٹھوس سطح پر مائع پانی کے ذخائر موجود ہیں ۔ 
1687ء میں نیوٹن نے اپنی مشہور کتاب لکھی ، جس کا عنوان تھا"philosophiae naturalis princpia mathematica"۔سٹیون ہاکنگ کہتاہے کہ"Most important single work ever published in physical sciences."۔ نیوٹن نے نہ صرف یہ بتایا کہ اجسامtime and spaceمیں کیسے حرکت کرتے ہیں بلکہ اس نے ان حرکات کا تجزیہ کرنے کے لیے درکار ریاضی کے پیچیدہ اصول بھی بیان کیے ۔ نیوٹن نے بتایا کہ کائنات کا ہر جسم دوسرے کو اپنی طرف کھینچتا ہے ۔اس نے چاند کی زمین کے گرد گردش اور سیاروں کی سورج کے گرد بیضوی گردش کی وضاحت کی۔ 
ارسطو اور دوسرے یونانی مفکرین کا خیال تھا کہ کائنات اور انسانی نسل ہمیشہ سے موجود تھی اور موجود رہے گی ۔ وہ کائنات کی تخلیق کا نظریہ اس لیے پسند نہیں کرتے تھے کہ انہیں اپنی زندگی میں بہت زیادہ خدائی مداخلت(Divine intervention) ناپسند تھی۔(آج مغرب کا روّیہ ہو بہو یہی ہے )
1929ء میںایڈون ہبل نے کائنات کے بارے میں انسانی علم میں سب سے اہم اضافہ کیا۔ اس نے دیکھا کہ کہکشائیں تیزی سے ایک دوسرے سے دور بھاگ رہی ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں کائنات پھیل رہی ہے ۔ یہاں سے بگ بینگ کا نظریہ وجود میں آیا۔ قرآن میں یہ درج تھا: کیا میرا انکار کرنے والوں نے دیکھا نہیں کہ زمین اور آسمان ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے پھاڑ کر انہیں جدا کر دیا۔ اس کے باوجود مسلمان بگ بینگ تک پہنچنے اور اس کا نظریہ پیش کرنے میں ناکام رہے ۔ 
ہماری زمین 1600کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے ۔ یوں ا س کے مختلف حصوں کو سورج کی گرمی پہنچتی رہتی ہے ۔ ختم ہو چکے جانداروں (Extinct Species)کا مطالعہ کرنے کے دو طریقے ہیں ۔ پہلا ان کے فاسل کا مشاہدہ اور دوسرا جدید طریقہ 1990ء کے قریب شروع ہوا ۔ وہ ہے باقیات میں موجود خلیات کے ڈی این اے اور جینز کا مشاہدہ ۔ جینز زندہ اجسام کا وہ وراثتی مواد ہوتاہے ، جو ایک نسل سے دوسری میں منتقل ہوتاچلا جاتاہے ۔ڈی این اے او رجینز پڑھنے کی صلاحیت حاصل ہونے کے بعد ہمیں ماضی کے جانداروں کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوا ہے ۔ سات لاکھ سال پرانا گھوڑے کا جینوم موجود ہے ۔ نی اینڈرتھل انسان کا ڈی این اے اتنی ہی صحت کے ساتھ موجود ہے ، جتنا کہ آج کے کسی انسان کا۔ 
سالانہ عالمی خلائی تحقیقاتی بجٹ 42ارب ڈالر ہے ، جس میں سے تنہا امریکہ کا بجٹ 17ارب ڈالر ہے ۔ اس کے بعد روس کا بجٹ صرف 5ارب ڈالر ہے ۔ سائنسدان 200نوری سال کے اندر اندر ہر ستارے (سورج) کو انفرادی طور پر جانتے ہیں اور ان کا نام رکھ چکے ہیں ۔ہبل دوربین 1990ء میں خلا میں بھیجی گئی تھی ۔یہ زمین کے مدار میں 353میل کی اونچائی پر موجود ہے ۔2018ء میں اگلی دور بین ویب ٹیلی سکوپ خلا میں اس سے بہت دور یعنی تقریبا 9لاکھ میل دور ہوگی ۔ یہ بہت دور تک اور بہت درستگی کے ساتھ دیکھ سکے گی۔ یہ ان گیسز کا سراغ لگا سکے گی ، جو کہ زندہ چیزیں پیدا کرتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ زندگی کی تلاش میں انسان کو بے حد قریب کہا جا سکتاہے اگرزندگی کہیں اور بھی موجود ہے تو۔
جب ہم پریشانی (Anxiety)میں ہوتے ہیں تو ایک خودکار نظام کے تحت دماغ آنتوں میں خوراک کی نقل و حرکت کو محدود کردیتاہے ۔ پریشان آدمی کا معدہ اکثر متاثر ہوتاہے ۔ذہنی امراض کے شکار افراد ، حتیٰ کہ نارمل انسانوں میں سے بھی کچھ نیند میں بعض اوقات اپنے قریب کسی دوسرے شخص بلکہ بھوت کی موجودگی محسوس کرتے ہیں ۔ اکثر اوقات یہ انہیں گھو ر رہا ہوتاہے ۔ سائنسدانوں نے اب اس کی حقیقت دریافت کر لی ہے اور لیبارٹری میں اس بھوت کو پیدا بھی کیا گیا ہے ۔ یہ دماغ کے سینسری موٹر سگنلز میں خلل پڑنے سے ہوتاہے ۔ sensorimotor brain signalsہی کی مدد سے انسان خود اپنے وجود کا احساس کرپاتاہے ۔ اس نظام میں بعض اوقات خلل پڑے تو انسان اپنی جگہ کسی دوسرے شخص کی موجودگی محسوس کرنے لگتاہے ۔ 
آئن سٹائن نے کہا تھا کہ اگر آپ ایک کسی چیز کو آسانی سے بیان نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو وہ چیز ٹھیک طرح سے معلوم ہی نہیں ۔ڈاکٹر مے او جان نے 1971ء میں دماغ میں جگہ کے خلیات دریافت کیے تھے ۔ اس نے کہا تھا کہ جب ہم مختلف جگہوں پر آتے جاتے ہیں تو اس دوران دماغ ان کا نقشہ بنا لیتاہے تاکہ مستقبل میں ہمیں آسانی ہو۔ پہلے پہل تو اس کا مذاق اڑا لیکن پھر اسے بعد میں یہ بات ثابت ہونے پر نوبل انعام دیا گیا۔ 
دم دار ستارے نظامِ شمسی کی تعمیر کے بعد بچ رہنے والا مواد (material)ہے ۔ سائنسدانوں کو شبہ ہے کہ زمین پر پانی کی آمد اور زندگی کے آغاز میں ان کا ایک مبینہ کردار رہا ہے ۔ بہرحال نظامِ شمسی کی ابتدا کے بارے میں ان دم دار ستاروں سے بہت سی معلومات مل سکتی ہے کہ وہاں ساڑھے چار ارب سال میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ۔ 
بیکٹیریا جب قبر میں ہماری لاشوں کو کھاتے ہیں تو اس دوران وہ سلفیٹ کو اندر لے جا رہے ہوتے ہیں اور ہائیڈروجن سلفائیڈ کو باہر نکالتے رہتے ہیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کرّہ ارض اس وقت لاشوں سے اٹا ہوتا۔ 
53کروڑ سال پہلے کرّہ ء ارض کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ cambrian explosionرونما ہوا تھا۔ اس دوران نت نئی جاندار نسلیں اس طرح وجود میں آئی تھیں ، جیسے کہ ایک دھماکہ سا ہو گیا ہو۔ کم و بیش موجودہ تمام جاندار اسی دوران وجود میں آئے ۔ اسے ڈارون مخمصہ Darwin dilemma بھی کہا جاتاہے ۔ کیونکہ چارلس ڈارون کے بتدریج نظریہ ء ارتقا سے یہ متصادم ہے ۔ اسے evolution's big bangبھی کہا جاتاہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں