"FBC" (space) message & send to 7575

انسان اور جانور

باوجود اس کے کہ انسانوں ہی کی طرح تمام جانور جوڑوں میں پائے جاتے ہیں مگر کبھی کسی نر کو مادہ کی تعریف میں شعر کہتے نہیں سنا گیا۔ جانور شاعری نہیں کرتے ۔ شاعر حضرات اس پر بہت خوش ہوں گے لیکن شاعری اور شاعرانہ ذوق سے محرومی پر جانور بھی آزردہ تو نہیں ۔ شاعر حسّاس ہوتاہے ۔ ذاتی درد ہی نہیں ، معاشرے کا دکھ بھی وہ اپنے بدن پہ جھیلتا اور اسے حروف میں مقید کرتاہے۔ جس سوز و گداز پہ قاری سر دھنتا ہے ، حرف میں ڈھلنے سے پہلے وہ شاعر کو لہو رلاتاہے ۔ جانور اس کرب سے آزاد ہوتے ہیں ۔جانور ان اکثر دکھوں سے مبرّا ہیں ، جن سے انسان گزرتا ہے ۔وجہ اس کی وہی ہے ، جس پہ ہم انسان اتراتے رہتے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ انسان اور جانور کے دماغ میں فرق ہوتاہے ۔ 
محبوب ،وصل اور فراق پر غور کیجیے ۔ عشق پہ دیوان ہی نہیں لکھے جاتے ، جنگ و جدل ہوتی ، شہراور ریاستیں اجڑتی ہیں ۔ جب ایک انسان عشق میں مبتلا ہوتا اور پھر فراق سے گزرتاہے تو دنیا کی کوئی نعمت اس کی دل جوئی نہیں کر سکتی ۔ سردی میں ٹھٹھرنے اور جوہڑ کا آلودہ پانی پینے والے جانور کے برعکس ، یہ عاشق صاحب مضبو ط گھر میں رہتے ہیں ۔ انہیں صحت بخش اور لذیذ غذا پیش کی جاتی ہے لیکن محبوب کی جدائی کا غم ان کی بھوک مار چکا ہے ۔وہ روتا بلکتا رہتا ہے ۔ اسے یوں محسوس ہوتاہے کہ وہ ایک بند گلی میں کھڑا ہے 
اور چاروں طرف گھپ اندھیرا ہے ۔ اسے روگ لگ جاتاہے ۔ اس کا رنگ زرد اور وزن گرنے لگتاہے۔اپنی جان کی حفاظت کاجذبہ دنیا کی سب سے طاقتور خواہش ہے لیکن اس عالم میں بعض افراد خود کشی بھی کر لیتے ہیں ۔ دوسری طرف جانوروں کودیکھیے تو ان میں محبت کی داستان بہت سادہ ہے ۔رقابت تبھی شروع ہوتی ہے ، جب محبوب سامنے ہو اور کوئی دوسرا اس کی جانب پیش قدمی کرے ۔ اس پر وہ لڑائی شروع ہوتی ہے ، جس میں صرف آپ کے ذاتی دانت ، سینگ اور ناخن ہی کام آتے ہیں ۔ ان تین ہتھیاروں میں سے کوئی اگر ٹوٹ چکا ہے تو فریقِ ثانی ہر گز آپ پہ رحم نہیں کرے گا۔ جانوروں میں نر اور مادہ کے درمیان یہ محبت اتنی سی ہے کہ ایک خاص موسم میں پیدا ہونے والی ملاپ کی خواہش وہ پوری کرتے ہیں ۔ بہت مختصر وقت کے لیے ایک خاص نر اور مادہ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ اگلے ہی برس خوراک کے حصول کی خاطر وہ ایک دوسرے کو قتل کر ڈالیں ۔ وہ ایک دوسرے کے قریب ضرور آتے ہیںلیکن اس دوران دماغ میں اس طرح کے مستقل جذبے اور یادداشتیں پیدا نہیں ہوتیں کہ باقی زندگی وہ ایک دوسرے کے لیے تڑپتے رہیں ۔
گائے ساری زندگی ایک بیل کے نام پر نہیں گزارتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے دماغ کی ساخت انسانوں سے مختلف ہے ۔ اس میں مخالف جنس کے کسی ایک خاص جانور کے لیے دیر تک باقی رہنے والے جذبات جنم نہیں لیتے ۔ اس ساری رام کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد عشق میں جن صدمات سے گزرتی ہے ، جیسے وہ دنیا کے دوسرے کونے میں رہنے والے اپنے محبوب کو یاد کرتی رہتی ہے ، جانور اس سے آزاد ہیں ۔ ان غموں سے وہ محفوظ ہیں ۔ جہاں تک رقابت، محبوب کے کسی اور کے ہوجانے کا تعلق ہے تو یہ ان کے لیے آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والا معاملہ ہوتاہے ۔ 
بے روزگاری کے جس خوف میں ہم جیتے ہیں ، جانوراس سے آزاد ہیں ۔ وہ دیر پا منصوبہ بندی نہیں کر سکتے ۔وہ مستقبل کے اندیشوں کا شکار نہیں ہوتے ۔گھاس پھونس یا گوشت نظر آئے تو اس کی طرف لپک پڑتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سوچ سکتے کہ کل خوراک نصیب ہوگی یا نہیں ۔ ہم انسان صحت مند خوراک کا ذخیرہ محفوظ کر کے رکھتے ہیں لیکن اس باب میں بھی جانور خوش قسمت ہیں کہ انہیں کل بھوکے رہ جانے کا کوئی خوف ہی نہیں ۔ خوف سے آزادہ وہ نعمت ہے ، انسانوں کی ایک عظیم اکثریت جس سے محروم ہے ۔ ساری دولت اور وسائل کے باوجود ، وہ ذہنی سکون نہیں ملتا، جو جانوروں تک کو نصیب ہے ۔ 
جانور انتہائی سخت حالات میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ شدیدگرمی میں انہیں خوراک کے لیے بھاگ دوڑ کرنا ہوتی ہے اور سخت سردی میں کھلے آسمان تلے وہ زندگی گزارتے ہیں ۔ اس کے باوجود کبھی وہ خود ترحمی کا شکار نہیں ہوتے ۔ ان میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ اپنے حالات کا انسانوں کے ساتھ موازنہ کر سکیں یا زندگی میں پیش آنے والی سختیوں پر شکوہ سنج ہوں ۔ جب انہیں سختی کا احساس ہی نہیں تو کہا جا سکتاہے کہ وہ سختیوں سے محفوظ ہیں ۔ اس کے مقابلے میں انسان ہمیشہ اپنی زندگی کا دوسرے انسانوں سے موازنہ کرتا رہتاہے ۔ بادشاہ بھی دوسرے بادشاہوں کی نسبتاً زیادہ امارت سے حسد محسوس کرتے ہیں ۔ اس دوران اپنے پاس موجود دنیا کی تمام نعمتیں انہیں ہیچ محسوس ہوتی ہیں ۔ انسان اپنے بچپن کی غربت یاد کر کے امارت کے دنوں میں بھی آزردہ ہوتاہے ۔ وہ مستقبل میں ممکنہ غربت سے خوفزدہ رہتاہے ۔ یہ خوف اتنا شدید ہوتاہے کہ ذہنی بیماریوں کو جنم دیتاہے ۔ اسی خوف کی وجہ سے سیاسی اشرافیہ ہمیشہ لوٹ مار میں مصروف رہتی ہے ۔ جانوروں میں یہ سب مسائل سرے سے ہوتے ہی نہیں ۔ 
ایک لحاظ سے انسان اور جانور مختلف نہیں ۔ دونوں بوڑھے اور بیمار ہوتے ، دونوں مر جاتے ہیں ۔ بہت سی تکلیفوں کا احساس اور مستقبل کے خوف انسانوں میں پائے جاتے ہیں مگر جانوروں میں نہیں۔ ہمیں ان پر جو برتری حاصل ہے ، وہ یہ ہرگز نہیں کہ ہم ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھتے اور بہتر کھاتے پیتے ہیں۔ ہم تبھی اشرف المخلوقات ہیں ، جب ہم اپنے اس testمیں کامیاب اترتے ہیں ، جس سے ہمیں گزارا جا رہا ہے۔ عقل اور علم کے ذریعے خدا کی شناخت اور جبلتوں کے خلاف جنگ ۔علم کے ذریعے زندگی کی آزمائشوںمیں صبر۔ حسنِ اخلاق ، کھانا کھلانے اور ایثار سمیت اعلیٰ عادتوں کو اختیار کرنا۔جانور اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں ، جس نے ہمیں اس نیلی زمین پر آباد کر رکھا ہے ۔ انہیں سمجھنا ضروری ہے ورنہ ہم اپنی زندگی کو بھی سمجھ نہیں سکیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں