کچھ کرم فرما بضد ہیں کہ سائنس اور مذہب کو الگ الگ رکھناچاہئیے ۔ اب اس مطالبے میں شدّت آتی جا رہی ہے ۔ دوسری طرف آپ خدا کا کلام کھولیے تو اس میں کاسمالوجی سمیت مختلف سائنسز پر بہت بڑی statements نظر آتی ہیں ۔ مثلاً یہ کہ ابتدا میں سارے آسمان اور ساری زمینیں جڑی ہوئی تھیں ، پھر انہیں پھاڑ کر جدا کر دیا گیا۔ فلکیات میں اس سے بڑا دعویٰ کبھی نہیں کیا گیا۔ ''اور وہ غور کرتے ہیں ، آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق پر (اور غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں )اے ہمارے رب تو نے یہ سب باطل پیدا نہیں کیا ۔۔۔ آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق پر غور کون کرے گا؟ جسے فلکیات اور ارضی سائنسز کا کم از کم علم حاصل ہو۔جس نے فلکیات او رزمین کی تاریخ میں بڑے واقعات کا مطالعہ کیا ہو ۔ بار بار خدا کہتاہے کہ زمین و آسمان میں میری نشانیاں دیکھو، ان پر غور کرو۔ وہ یہ کہتاہے کہ ''زمانے میں ایک طویل وقت ایسا گزرا، جب انسان کو ئی قابلِ ذکر شے نہ تھا‘‘الدھر ، 1۔ اگر آپ ابتدائی انسان کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو کیسے کریں گے ؟ کیاباقیات (Fossils)کا علم پڑھے بغیرہی ؟ چلیے آپ کو نی اینڈرتھل اور دوسری انسانی انواع کا انکار ہی کرنا ہے تو کیا آپ فاسلز کو پڑھے بغیر انکار کریں گے اور اگر کریں گے تو اسے مانے گا کون ؟
مزید یہ کہ اگر نی اینڈرتھل کا انکار کرنا ہے تو ڈائنا سار کو کیونکر تسلیم کیاجائے ؟ اسے بھی تو ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔
آج کی ہماری زندگی مکمل طور پر آکسیجن کی محتاج ہے ۔ صرف تین سیکنڈ دماغ کو آکسیجن نہ ملے تو فالج، کوما یا موت ہو سکتی ہے ۔ خدا نے ہمیں عقل دی ہے اور وہ ہم سے زمین و آسمان کی تخلیق میں غور کا مطالبہ کرتا ہے ۔ ایسے میں کیا ہمیں سوا دو ارب سال پہلے رونما ہونے والے آکسیجن کے انقلاب کا مشاہدہ نہیں کرنا ہوگا، آج زندگی کی تمام تر اقسام جس کی مرہونِ منت ہیں ؟ اس زمین پر انسان نے ہمیشہ نہیں رہنا۔ ظاہرہے کہ ایک دن اس کے وسائل ختم ہو جائیں گے ۔ آپ قرآن مجید دیکھیے تو اس اختتام کی پوری منظر کشی کی گئی ہے ۔ سورج اور چاند مل جائیں گے '' جمع الشمس و القمر‘‘۔ سورج گہنا جائے گا۔ ستارے جھڑ جائیں گے ۔ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑیں گے ۔ زمین اپنے اندر کے بوجھ باہر نکال پھینکے گی ۔ ''اور جب سمندر سلگ اٹھیں گے ‘‘التکویر 6۔ ایسے واقعات رونما ہوں گے ، اور ایسی توانائی میسر ہوگی ، جو پانی کو آکسیجن اور ہائیڈروجن میں تبدیل کر کے جلا دے گی ۔پھر خدا یہ کہتاہے کہ اس نے لوہا (زمین پر )نازل کیا۔ آج تو ہم بخوبی یہ جانتے ہیں کہ لوہا زمین میں بننے والی چیز نہیں ۔ لوہے اور سونے سمیت ہر چیز سورجوں میں بنی ، دھماکوں سے خلائوں میں بکھری اور زمین کی پیدائش کے دور میں اس پر نازل ہوئی ۔ اس وقت ، جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں ، اس زمانے کے اعتبار سے ایک بڑا دعویٰ ہے کہ لوہا، جو زیرِ زمین دفن ہے ، آسمان سے نازل ہوا تھا۔ یہ سب وہ statementsہیں ، جو کہ ارضی سائنسز (Earth Sciences)کے زمرے میں آتی ہیں ۔
سادہ ترین الفاظ میں مذہب کی تعریف (Definition)کیا ہے ۔ بنیادی طور پر مذہب وہ طرزِ زندگی ہے ، خدا جس کا اپنے بندوں سے مطالبہ کرتاہے ۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ میں اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزاروں ۔ سائنس کیا ہے ؟ سائنس وہ طریقِ کار ہے ، جس میں یہ کائنات وجود میں آئی اور جس طریقِ کار کے مطابق یہ چل رہی ہے ۔ خدا نے مجھے عقل دی اور بار بار کہا کہ کائنات میں اس کی نشانیوں کا میں مشاہدہ کروں ۔ اب کچھ لوگ ہیں ، جو یہ نعرے بلند کر رہے ہیں کہ مذہب اور سائنس کو الگ رکھنا چاہئیے ۔ چلیے ان کی مان لیتے ہیں لیکن یہ جو خدا نے کہا کہ پہلے زمین و آسمان جڑے ہوئے تھے اور انہیں پھاڑ کر جدا کر دیا گیا ، کیا اس آیت کوفلکیات کی سائنس کے بغیر ہی پڑھ لیا جائے ؟ '' کیا وہ دیکھتے نہیں کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے جا رہے ہیں ؟‘‘ آپ اس آیت کو ارضی سائنسز کے بغیر کیسے پڑھیں گے ؟ آپ زمین کو ماپ کر دیکھ لیں ، پانی بڑھتا چلا جارہا ہے ، خشکی گھٹتی جا رہی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ بہت سی قابلِ رہائش جگہیں پانی میں غرق ہو تی جا رہی ہیں ۔
اگر خدا مجھ سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ میں اس پر ایمان لائوں ، اس کے بتائے ہوئے طریقِ کار کے مطابق زندگی گزاروں تو کیا یہ میرا حق نہیں ہے کہ میں ایک نظر دیکھ لوں کہ خدائی کا دعویٰ کرنے والا اصل خدا ہے بھی یا نہیں ؟ اگر مجھے آنکھیں او ردماغ بند کرکے خدا پر ایمان لانا ہے تو پھر ہندواور دوسرے مذاہب والوں کا کیا قصور ہے ؟ وہ بھی تو آنکھیں بند کر کے نسل در نسل اسی طرح اپنے بتوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ فرض کیجیے کہ اگر آج مغرب ہمیں کہے کہ لوہا تو آسمان سے نازل نہیں ہوتا بلکہ یہ زمین کے اندر بنتا ہے تو ہم نے ستاروں کے اندر وقوع پذیر ہونے والی طبیعات پڑھی ہوگی تو ہم انہیں غلط ثابت کریں گے ۔ ہم انہیں یہ بتا سکیں گے کہ ہائیڈروجن، ہیلیم اور اکّا دکّا عناصر کے علاوہ تمام 92عناصر ستاروں میں بنے ہیں ۔ لوہاان میں شامل ہے ۔ زمین کوئی ایسی شے نہیں ، جس کے اندر عناصر پیدا ہوں بلکہ وہ صرف اور صرف ستاروں میں پیدا ہونے والے عناصر کا ایک مجموعہ ہے ۔
انتہا پسندی کی ایک قسم تو یہ ہے کہ ہم ہر نئی دریافت کو زبردستی یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ قرآن میں اس کا ذکر پہلے سے گزر چکا ہے ، خواہ دراصل اس کا ذکر وہاں موجود نہ ہو۔ انتہاپسندی کی دوسری قسم یہ ہے کہ فلکیات ، انسانی ابتدا اور دوسری سائنسز پر ، خدا جو statement دیتاہے ، ہم ا نہیں اس وجہ سے پڑھنا چھوڑ دیں کہ ان میں سائنسز involveہیں ۔ خدا اگر ہم سے اندھا ، بہرا اور گونگا اعتقاد چاہتا تھاتو اس نے ہمیں عقل دی ہی کیوں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عقل دینے والا خدا اس کے استعمال کا مخالف نہیں بلکہ انسانوں میں سے کچھ اس کے متحمل نہیں ۔