شہر کا سب سے بڑا رئیس شہر کی سب سے خوبصورت طوائف پہ فریفتہ ہوا تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہ تھی ۔ حسن اور دولت کی تجارت تو ازل سے جاری ہے ۔ ہاں ،البتہ جب ڈھول باجوں کے ساتھ وہ اسے بیاہ لایا تو وہ اس کی عقل کا ماتم کرتے رہ گئے ۔انہوں نے یہ کہا: پاشا! طوائف دل لبھانے کی چیز ہے ، عزت دینے کی نہیں ۔ جہاں تک ایغور پاشا کا تعلق تھا ،ایک سرشاری سی اس پہ طاری تھی اور اپنے ہونٹ اس نے سی لیے تھے ۔
وہ بے پناہ حسین تھی ۔ اتنی حسین کہ بڑے بڑوں کا چراغ اس کے سامنے بجھ جایا کرتا۔ ایغور پاشاخوبصورت نہیں ، دولت مند تھا۔ یہ دولت کتنی تھی ؟ ٹھیک سے خود پاشا کو بھی معلوم نہ تھا۔ یہ سب اسے ورثے میں ملا تھا۔پاشا ایک مذہبی خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔ ایک وقت تھاکہ جب وہ خود بھی مذہبی تھا لیکن اب وہ جائز اور ناجائز ، حرام اورحلال کی تفریق کا قائل نہ تھا۔ ایک سسٹم کے تحت یہ تمام کاروبار جیسے خود کار طور پہ چلتے جاتے تھے،ہوائی جہاز جیسے آٹو پائلٹ پہ۔ فرصت ہی فرصت اور دولت ہی دولت ۔ بازارِ حسن کا ہر دروازہ ایغور پاشا کامنتظر رہا کرتا۔ ہر دروازے پہ و ہ نہیں جاتا تھا۔ خاص بلکہ بہت ہی خاص جگہوں پر اور وہ بھی صرف سات دن ۔ آٹھویں روز وہ رستہ بدل لیتا۔ انتونیا کی بار اپنا یہ اصول اس نے توڑ دیا تھا ۔
ان سات دنوں میں پاشا نے دیکھا کہ اس کا ہر حکم انتونیا ایک خاص سپردگی سے بجا لاتی۔ اپنے قبیل کی دوسری عورتوں کے
برعکس اس میں بناوٹ نہیں تھی۔ان سات دنوں میں ہر روز پاشا اتنی غیر معمولی ادائیگی کرتا جو ایسی عورتوں کی سالانہ آمدن سے زیادہ ہوتی ۔ یہی وجہ تھی کہ ساتویں روز ہر ایک نے اسے اپنی ادائوں میں پھانسنے کی بھرپور کوشش کی ۔ ہر ایک نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس کے عشق میں مبتلا ہے ۔ ایغور پاشا ان سب چالوں سے بخوبی واقف تھا۔ہاں ، البتہ انتونیا نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی اور یہ بے حد حیرت انگیز تھا۔ ہاں ، البتہ اس نے بے اعتنائی بھی نہیں برتی ۔
آٹھویں روز پاشا کو بخار نے آلیا۔اگلے تین دن وہ بستر پہ پڑا رہا۔ یہ گیارہواں دن تھا، جب اس نے ایک نئی منزل کا قصد کیا لیکن نہ جانے کیوں وہ انتونیا کی طرف پلٹ گیا۔ شایداس لیے کہ اس کے رکھ رکھائونے اسے متاثر کیا تھا۔ جب وہ اندر داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ انتونیا سفید لباس پہنے عبادت کر رہی ہے ۔ ایک طوائف اور عبادت؟ پاشا کے وہ زخم تازہ ہو گئے ، جنہوں نے اسے مذہب سے باغی کیا تھا۔ اسے اپنی بیوی ، اپنی محبت یاد آئی۔ کینسر میں تڑپتے ہوئے، تین برس قبل اس نے پاشا کی کی بانہو ں میں دم توڑا تھا۔ تبھی تو پاشا باغی ہوا تھا۔
اس نے انتونیا کو یہ کہا کہ طوائف کو عبادت زیب نہیں دیتی ۔ ہر طرح کی دل دکھا دینے والی بات اس نے کی ۔ خاموشی سے وہ اس کی بات سنتی رہی ۔ چیخ چیخ کرجب پاشا کا گلا بیٹھ گیا تو اس نے یہ کہا''پاشا نسل در نسل میرے خاندان کی سب عورتیں طوائف ہوا کرتی ہیں ۔ واحد میں ہوں ، جس نے عزت کی آرزو کی۔دو بار میں نے یہاں سے بھاگنے کی کوشش کی۔ایک بار تو کامیاب بھی رہی لیکن بالاخر وہ مجھے پکڑ لائے ۔ ان کے کارندے سارے شہر میں موجود ہیں اور پھر میرا یہ غیر معمولی حسن چیخ چیخ کر میرا پتہ بتاتا ہے۔ اس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فی الحال میرا یہیں رہنا خدا کو منظور ہے ۔ ہاں ، جب شباب ڈھل جائے ، جب ان کے لیے میں ناکارہ ہوجائوں تو پھر یہ مجھے جانے دیں گے ۔ تب میں آزاد ہو جائوں گی ۔ پھر دیکھنا ، کیسے میں اپنے خدا کو یاد کروں گی ۔ وہ بتاتی رہی کہ اپنا بڑھاپا وہ کیسے گزارے گی ۔ پاشا نے دیکھا کہ اس کی آنکھوںمیں بہت سے خواب تھے۔
پاشا نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ ایسے خدا کی عبادت کرتی ہے ، جو اسے پاکیزگی کی زندگی بھی بسر کرنے نہیں دیتا۔ انتونیا نے یہ کہا: اس دنیا میں ، اس مادی جسم کے ساتھ ہم میں سے ہر ایک تکلیف میں ہے ۔ ہم آزمائش کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ۔ حسین و جمیل طوائف کو عزت نہیں ملتی ۔ کھرب پتی بیمار کو صحت نہیں ملتی ۔ خوش باش میاں بیوی کو اولاد نہیں ملتی ۔ جس کو سب ملتاہے ، اس کی محبوب بیوی کو کینسر سے شفا نہیں ملتی ۔ یہ جسم عارضی ہے ۔ اس کی تکلیف عارضی ہے ۔ خدا کی مصلحتوں کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔
پاشا واپس پلٹا۔ ہنگامی بنیادوں پر اس نے انتظامات کیے ۔ دولت کے صندق لیے اور انتونیا کو بیاہنے آپہنچا۔اسے معلوم تھا کہ سب سرگوشیوںمیں اس پر ہنس رہے ہیں لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ شہر میں انتونیاسے زیادہ پاک دامن اور کوئی نہیں ۔ لوگ اس پہ ہنس رہے تھے اور دل ہی دل میں وہ ان پر ہنس رہا تھا۔
یہ کالم قندیل بلوچ کے نام ہے ۔ میرا تاثر اس کے متعلق بہت ہی منفی تھا؛حتیٰ کہ اس کی موت پر میں نے یہ کہا: مرنے سے پہلے قندیل بلوچ مفتی عبد القوی کو لے ڈوبی۔بعد میں مجھے اپنی اس بات پر افسوس اور شرمندگی ہوئی ۔شوبز میں بہت سی لڑکیوں کا استحصال ہوتا ہے ، یہ بات اس کے بھائیوں کو پہلے دن سوچنا چاہیے تھی ۔اس کے بھائیوں نے یہ نہ کہا کہ وہ محنت مزدوری کر کے گزارا کر لیں گے اور اسے گھر سے جانے کی ضرورت نہیں ۔ بعد میں وہ اس سے پیسے لیتے رہے ۔اس نے اپنی زندگی نہیں بسائی بلکہ ان کی کفالت کرتی رہی ۔ بھائیوں کی اس نے مدد کی ۔ کسی کو بیرونِ ملک بھجوایا ، کسی کو دکان کھولنے کے پیسے دئیے ۔ گھر کا کرایا وہ ادا کرتی رہی ۔ اس سے قبل وینا ملک کو اس پیشے سے باعزت واپسی کا راستہ دیا گیا تو اس کی کایا ہی پلٹ گئی۔ اپنے شوہر اور بچے میں وہ اس طرح مگن ہوئی کہ جیسے کوئی بھی گھریلو مشرقی خاتون ہو ا کرتی ہے۔دو ماہ قبل مفتی عبد القوی صاحب نے اپنا ایک متنازعہ پیغام خود ہی ریکارڈ کرا کے سوشل میڈیا کے حوالے کیا تھا۔ اس میں انہوںنے نوجوان لڑکوں او رلڑکیوں کو خفیہ نکاح کرنے کی ترغیب دی؛حالانکہ خفیہ نکاح اور شادیوں کی وجہ سے معاشرے میں جتنا خون خرابہ ہوتاہے ، اتنا کسی اورچیز سے نہیں ہوتا۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ متعدد خفیہ نکاحوں کی ترغیب دینے والے مفتی عبد القوی بھی قندیل بلوچ سے نکاح نہ کر سکے۔ چلیے ، قندیل بلوچ تو نوجوان تھی ، مفتی عبد القوی تو عمر رسیدہ گھاگ آدمی ہیں ۔ان کی عقل کو کیا ہوا تھا؟ انہوں نے سکینڈلز کا حصہ بننے کی بجائے قندیل بلوچ کو تنازعات سے دور رہنے کی نصیحت کیوں نہ کی؟ جہاں تک گناہوں کا تعلق ہے تو کسی کے گناہ اگر آسمان تک بھی بلند ہوں ، خدا پلک جھپکنے میں انہیں مٹا دیتاہے ، بندہ اگر سچے دل سے اس کی طرف پلٹ جائے ۔قاتل کو کس نے بتایا تھا کہ وہ نہیں پلٹے گی؟