فیس بک کے ایک دوست عظیم الرحمٰن عثمانی نے کیا خوب کہا '' نفس کے شر سے ڈرو، اسی نے سب سے پہلے شیطان کو گمراہ کیا تھا‘‘ ۔ پہلے میں یہ سمجھا کہ کسی بڑے صوفی بزرگ کا قول انہوں نے نقل کیا ہے لیکن پھر انہوں نے بتایاکہ ان کا اپنا ہے ۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ شیطان اور آدمؑ کا قصہ ہر دوسری چیز سے بڑھ کر انسانی ذہن کو اپنی طرف متوجہ کرتاہے ۔ مغرب نے کائنات پر جس قدر شاندار تحقیق کی ہے ، انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ کائنات اور ہماری اس زمین کے بارے میں ہر شے کو دستاویزی شکل دینے کی انہوں نے کوشش کی ہے ۔ اس کے باوجود محتاط اندازوں کے مطابق زمین پر پائی جانے والی 86فیصد مخلوقات کے نام سے بھی ہم آگاہ نہیں ۔ صرف چودہ فیصد کا ڈیٹا ہمارے پاس موجود ہے ۔ زمین سے باہر کی دنیا کے بارے میں بھی ہمارا علم بہت محدود سا ہے ۔ اس کے باوجود ہم کہہ سکتے ہیں کہ کم از کم ایک نگاہ بھر کے انسان کائنات کو دیکھنے میں کامیاب رہا ہے ۔ اس کے برعکس انسان اب تک نظر بھر کے اپنے اندر کی دنیا دیکھنے میں ناکام رہا ہے ۔ سوائے ان اساتذہ کے ، جنہیں اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے کچھ عطا ہوا ہو، نامی گرامی سائنسدان ، حتیٰ کہ بظاہر بڑے مذہبی رہنما بھی نفس کے معاملے میں مکمل طور پر لا علم رہے ہیں۔ یہ زندگی کا اہم ترین موضوع ہے مگر یہ انسانی تاریخ کا سب سے نظر انداز کیا جانے والا موضوع بھی ہے ۔
میں نفس کے بارے میں کچھ بالکل بنیادی سی باتیں ہی جان سکا ہوں ۔ بظاہر دو انسانوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ دماغ کا حجم، اس کے اندر بھیجے کاوزن ایک ہی جتنا ہوتاہے لیکن اللہ جسے علم دینا چاہتاہے ، اس کے دماغ کو یکسو کردیتاہے ۔ ایسا لگتاہے کہ انسانی ذہن پر کچھ پردے سے حائل ہو جاتے ہیں ۔ذہانت وہیں دماغ میں موجود ہوتی ہے لیکن اس کے کام کرنے کی Dimensionبدل جاتی ہے ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ گائوں کے ان پڑھ لوگ بظاہر تعلیم یافتہ لوگوں کی نسبت زندگی کو سمجھ نہیں پاتے لیکن اگر شہری لوگوں کو گائوں جا کر جانوروں اور زمینوں کے معاملات سے گزرنا پڑے تو دیہاتی انہیں ایسے ایسے چکمے دیتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ وجہ یہ ہے کہ اگر وہ تعلیم حاصل نہیں کر پائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کم ذہین ہیں بلکہ اب ذہانت کی Dimensionبدل گئی ہے ۔اسی طرح جو لوگ خدا کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، ان کا سارا علم ، ساری قابلیت دنیا تک محدودرہ جاتی ہے ۔ وہ ایک بڑی تصویر دیکھ ہی نہیں سکتے ۔
کرّہ ء ارض پہ جاندار مخلوقات (species)کی تعداد کے مختلف تخمینے قائم کیے گئے ہیں ۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ اس وقت پچاس لاکھ سے لے کر ڈیڑھ کروڑ مخلوقات یہاں آباد ہیں ۔ انسان اپنی تمام تر کوشش کے باوجود ان میں سے 12لاکھ کا نام رکھ پایا ہے ؛حالانکہ نام رکھنے میں انسان بہت ماہر ہے ۔پہلے آدم سے یہ صلاحیت آخری انسان تک جائے گی کہ وہ ہرچیز کو ایک نام دیتاہے ۔ ڈیٹا کی مدد سے جدید انسان اس نتیجے تک پہنچا ہے کہ وہ 99فیصد یعنی کہ 5ارب مخلوقات جو کبھی اس زمین پر آباد تھیں ، وہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہیں ۔ ان پانچ ارب مخلوقات میں سے صرف ایک ہے ، جس نے لباس زیبِ تن کیا اور جس نے یہ سوال اٹھایا کہ کائنات کا کوئی خدا ہے یا نہیں ۔ آپ صرف اس بات پر غور کر لیجیے کہ صرف ایک مخلوق کیوں خدا کو کھوجتی پھر رہی ہے اور باقی پانچ ارب کیوں نہیں ، آپ خود ہی ساری کہانی سمجھ جائیں گے کہ ہمارے ساتھ اس وقت کیا پیش آرہا ہے ۔
نفس وہ نام ہے ، جو انسانی خواہشات یا جبلتوں کے مجموعے کو دیا گیا ہے ۔ یہ کوئی فرضی چیز نہیں بلکہ آپ ہر کہیں اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔ کسی محفل میں لوگ اگر ایک شخص کی جملے بازی پر ہنس رہے ہوں تو دوسرے بھی جملے بازی کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی بات پر بھی ہنسا جائے ۔ جس کی بات کو زیادہ پذیرائی ملتی ہے ، اس پر ایک نشہ سا طاری ہوجاتاہے ۔ اسے لذت محسوس ہوتی ہے ۔ یہ اس لیے ہوتاہے کہ نفس کو خوراک مل رہی ہوتی ہے ۔ نفس میں صرف اپنی تسکین کی خواہش ہوتی ہے ۔ یہ ہر شے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ۔ یہ کارنامے کرنا چاہتا ہے اور دوسروں کی داد وصول کرنا چاہتاہے۔ اس میں ہر بری عادت موجود ہوتی ہے ۔ یہ ہمیشہ اپنے ارد گرد موجود لوگوں پر غلبہ پانا چاہتاہے ۔اس پر جملہ کسا جائے تو یہ رنجیدہ ہوتاہے ۔اسے اپنی تذلیل گوارا نہیں۔ یہ پلٹ کر حملہ کرتاہے ۔
اپنے نفس کو عقل کے ساتھ ساتھ عاجزی کی خوراک دیتے رہئیے ۔ اگر لوگ آپ سے کہیں کہ آپ تو ایک بہت بڑے دانشور ہیں توآپ کہیے کہ میں تو اللہ لوک ہوں ۔ اگر کوئی آپ سے کہے کہ آپ جیسی ڈرائیونگ کوئی نہیں کر سکتا تو آپ کہیے : اجی کیا کہتے ہیں ۔ مجھے تو دوسری گاڑیوں والے ہی راستہ دے کر بچاتے ہیں ۔ اگر کوئی کہے کہ آپ اس گھر، محلے یا درسگاہ کے بڑے ہیں تو آپ کہیے کہ میں اس گھر کا سب سے چھوٹا ہوں ۔اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ اگر آپ کو کوئی تھپڑ مارے تو آپ پلٹ کر کیسا جواب دیں گے تو آپ کہیں کہ میں فوراً وہاں سے بھاگ جائوں گا۔ اگر آپ نے یہ کہہ دیا کہ میں اس شخص کی ٹانگیں توڑ دوں گا تو پھر ایسی کسی صورتِ حال میں آپ کو اپنی بات کی لاج رکھنے کے لیے واقعی ٹانگیں توڑنے کی کوشش کرنی پڑے گی اور اس کوشش میں آپ کی اپنی ٹانگیں ٹوٹ جانے کے امکانات روشن ہیں ۔ اپنے دوستوں ، رشتے داروں اور دوست احباب سے میں یہ کہتا رہتا ہوں کہ زندگی میں انسان کا اصل مقابلہ حالات کے ساتھ ہوتاہے ۔ ان حالات کے ساتھ اسے اپنی موت تک لڑنا ہوتاہے ۔ان میں معاشی مسائل، بیماریاں اور اہل و عیال کے مسائل اہم ترین ہیں ۔ اس بات کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے کہ آپ دھوپی پٹخا دے کر کسی کو نیچے گرا سکتے ہیں یا نہیں ۔ اس بات کی بھی کوئی اہمیت نہیں کہ آپ گاڑی دو پہیوں پر چلا سکتے ہیں یا نہیں ۔ باکسر محمد علی جیسا فاتح تین دہائیوں تک اکھاڑے سے باہر نکل کر بیماری سے لڑتارہتاہے ۔ یوں بھی انسانی برتری عقل کے استعمال سے منسلک ہے ۔