"FBC" (space) message & send to 7575

کائنات، ارتقا اور انسان: چند دلچسپ حقائق

دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں ہزاروں لاکھوں طلبہ ہمہ وقت تحقیق میں مصروف رہتے ہیں۔ ان ممالک میں بڑے کاروباری ادارے تحقیق کے لیے انہیں رقوم دیتے ہیں۔ ایک نئی دریافت کرنے والے کی بھرپور پذیرائی ہوتی ہے۔ انعامات کی اس پر بارش ہو جاتی ہے۔ یوں حوصلہ افزائی کے ماحول میں لاکھوں دماغ تحقیق میں مصروف رہتے ہیں۔ نت نئے عجوبے سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان بڑی یونیورسٹیوں میں ہونے والی تحقیقات کو آسان الفاظ میں اپنے پاس محفوظ کرتے جائیے تو انتہائی دلچسپ چیزیں سامنے آتی ہیں۔ آج ایک بار پھر ان تحقیقاتی نوٹس میں سے کچھ آپ کی نذر:
اپنے جسم، اپنی زمین اور آسمان میں جو کچھ بھی انسان نے آج تک دیکھا ہے، وہ 92 عناصر کا مجموعہ ہے۔ یہ 92 عناصر آپس میں جب ملتے ہیں تو نت نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں۔ ہائیڈروجن جل کر بھڑک اٹھنے والا ایندھن ہے۔ آکسیجن جلنے میں مدد دیتی ہے لیکن یہ دونوں مل کر پانی بناتی ہیں اور پانی آگ کو بجھاتا ہے۔ آج جب ہم ان عناصر کی تفصیل والا دوری جدول دیکھتے ہیں تو وہاں عناصر کی تعداد 120 کے قریب ہے۔ 92 سے اوپر والے تمام عناصر انسان نے خود لیبارٹری میں تیار کیے۔ خاص طور پر روس اور امریکہ نے ایک دوسرے کے مقابل اس میدان میں سبقت لے جانے کی کوشش کی۔ 92 سے اوپر والے زیادہ تر عناصر غیر مستحکم تھے۔ کچھ ہی دیر میں وہ اپنا وجود ختم کر دیتے ہیں۔ تحقیقاتی طور پر ایک نیا عنصر تشکیل دینا بہت ہی دلچسپ ہوتا ہے لیکن قدرتی طور پر اپنے وجود، اپنی زمین اور آسمان میں جو کچھ بھی انسان نے دیکھ رکھا ہے، وہ صرف اور صرف 92 عناصر کا مجموعہ ہے۔ مثلاً سورج ہائیڈروجن گیس کا جلتا ہوا ایک گولا ہے۔ انسان بھی انہی عناصر سے مل کر بنا ہے۔ انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ ہائیڈروجن، آکسیجن، کاربن، نائٹروجن، کیلشیم اور فاسفورس جیسے عناصر سے بننے والا انسان نہ صرف زندہ ہے بلکہ وہ کائنات پر تبصرہ کر سکتا ہے۔ سٹیون ہاکنگ یہ کہتا ہے کہ جب ہم کائنات میں زندگی کو دیکھتے ہیں (جو کہ صرف اور صرف کرّہء ارض پہ ہی دریافت ہو سکی ہے) تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کائنات کچھ بھی کر سکتی ہے۔ (ہم یہ کہیں گے کہ خدا کچھ بھی کر سکتا ہے)۔ 
ہائیڈروجن سے بورون تک پانچ ہلکے ترین عناصر بگ بینگ میں بنے تھے۔ اگرچہ ستاروں کے اندر بھی سب سے ہلکے عنصر ہائیڈروجن سے دوسرے بھاری عناصر بنتے رہتے ہیں۔ ان پانچ سے آگے سارے عناصر ستاروں میں بنے ہیں۔ انتہائی درجہء حرارت اور دبائو میں عناصر کے ایٹم ایک دوسرے کے ساتھ فیوژ ہوتے ہیں اور بھاری عناصر بنتے ہیں۔ اسے نیوکلیئر فیوژن کہتے ہیں۔ بڑے ستاروں میں مرکری بن سکتا ہے، جس کا نمبر 80 ہے۔ اس کے مرکزے میں 80 پروٹون ہوتے ہیں۔ بہت سے عناصر سپر نووا کے دوران بنتے ہیں۔ تب بنتے ہیں، جب ستارا دھماکے سے تباہ ہو جاتا ہے۔ ان میں یورینیم تک کے عناصر شامل ہیں۔ یورینیم کا نمبر 92 ہے۔ یہ وہ سب سے بھاری عنصر ہے، جو کہ قدرتی طور پر دنیا میں کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ کوئی قدرتی عمل ایسا نہیں جو کہ اس سے بھاری عنصر قدرتی طور پر بنا سکے۔ اس کے بعد حضرتِ انسان کی کارستانی دیکھیے کہ اس نے ایسی مشینیں بنائیں، جنہیں اس نے
Particle Accelerator کا نام دیا۔ 
ان میں ذرات کو انتہائی رفتار سے ٹکرایا جاتا ہے۔ ایٹموں کے مرکز میں پروٹون کی تعداد بڑھائی جاتی ہے۔ اس رفتار پر انہیں باہم ٹکرا کر۔ 1993ء میں سائنسدانوں نے 93واں عنصر Neptuneum بنایا تھا۔ اس کے بعد تعداد بڑھتی چلی گئی۔ پھر پلوٹونیم بنایا گیا۔ 94نمبر۔ یہ یورینیم پر ہائیڈروجن کے ایٹم ٹکرا کر بنایا گیا۔ پلوٹونیم سے ایٹم بم بنایا گیا اور ناگاساکی (جاپان) پر گرایا گیا۔ 
Enrico Fermi ایک بڑا سائنسدان تھا، جس کے کام کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس کے نام پر دوری جدول کے ایک عنصر کا نام بھی رکھا گیا۔ اگر اس کائنات میں 92 عناصر پائے جاتے ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ دوسری کائناتوں میں 192 ہوں اور وہ غیر مستحکم نہ ہوں بلکہ وہ اس کائنات کی تشکیل میں شامل ہوں۔ اگر ایسا ہو تو ہمارے لیے وہ جادوئی عناصر ہوں گے۔ سائنس بھی اب متوازی کائناتوں پر پوری شد و مد سے یقین رکھتی ہے۔ 
یہ جن 92 عناصر کی داستان آپ کو میں نے سنائی ہے، جن سے نظر آنے والی یہ کائنات، انسان، تمام ستارے اور کرّہء ارض‘ بنے ہیں، یہ صرف اور صرف 5 فیصد ہے۔ باقی 95 فیصد کیا ہے، یہ ہمیں ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا۔ فی الحال اسے ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر کا نام دیا گیا ہے۔ 
پرندوں میں چونچ انتہائی اہم ہوتی ہے۔ یہ سوچا جاتا ہے کہ پرندے ڈائناسار سے ارتقا پذیر ہوئے تھے‘ کیونکہ ایک ایسا فاسل ملا تھا، جس کی شکل ڈائناسار جیسی لیکن اس کے پر اور پنکھ موجود تھے۔ اسے Archaeopteryx کا نام دیا گیا تھا۔ پرندوں میں کچھ خاص جینز ہوتے ہیں جو چہرے کی ساخت سے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ جانوروں میں نہیں پائے جاتے۔ جب ان خاص جینز کو ایک مرغی کے انڈوں میں silent کیا گیا تو چوزے بنے۔ ان کی چونچ کی جگہ جبڑے تھے۔ چہرے کی ساخت ڈائناسار جیسی تھی۔ انہیں ڈائنو چک (dino chick) کہا گیا۔ یہ تجربہ اور تحقیق جرنل Evolutionمیں شامل ہوئی۔ Yale اور Harward یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا تھا کہ شروع میں انہیں خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ جبڑوں والے چوزے بنیں گے۔ اس سارے عمل میں انہوں نے کیا یہ کہ چوہے، چھپکلی، کچھوے اور دوسرے جانداروں میں، جن کی چونچ نہیں ہوتی، ان کا مرغے سے موازنہ کیا۔ وہ جینز ڈھونڈے جو مرغوں میں اور پرندوں میں چونچ بناتے ہیں اور پھر ان جینز کو کام کرنے سے روکا۔ نتیجہ یہ تھا کہ چوزوں کی چونچ جبڑے کی شکل اختیار کر گئی۔ پھر انہوں نے انڈوں کے اندر ان چوزوں کو بنتے دیکھا۔ اس سے وہ اندازہ لگا چکے ہیں کہ پرندوں میں جبڑوں کی جگہ چونچ کا ارتقا کب ہوا ہو گا۔ اندازہ یہ ہے کہ اگر جبڑے والے مرغوں اور مرغیوں کو پیدا ہونے دیا جائے تو اس بات کے کافی امکانات موجود ہیں کہ وہ زندہ رہ سکیں گے۔
یہ خواب و خیال کی باتیں نہیں۔ Evolution میں اپنی تحقیق شائع کرانے کا مطلب ہے کہ نہ صرف وہ اعلیٰ ترین معیارات پہ پوری اترتی ہے بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں بیٹھے ہوئے سائنسدان اس تحقیق کا پوسٹ مارٹم بھی کریں گے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں