"FBC" (space) message & send to 7575

قسمت

جس روز مبارک علی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا، وہ اتنا رویا کہ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ 
اپنے لختِ جگر کو گلے سے لگانے پہ وہ تیار تھا لیکن تقدیر نے آج ایک عجیب دوراہے پر اسے لا کھڑا کیا تھا۔ مایوسی اور غم کی شدّت میں اپنی زندگی پہ اس نے ایک نظر ڈالی۔ نرم ترین الفاظ میں بھی، اسے وہ ایک جہنم زدہ زندگی ہی کہہ سکتا تھا۔ اس کا بچپن یتیمی میں گزرا تھا۔ بمشکل تین چار سال وہ سکول جا سکا۔ لڑکپن مختلف زمینداروں کے ہاں محنت مزدوری میں گزرا، جہاں سال بھر میں چھ سات تھیلے غلہ وہ کما لیتا۔ جھڑکیاں اور مار کھاتے ہوئے وہ کب جوان ہوا، پتہ ہی نہ چلا۔ یہ وہ حالات تھے، جن میں شادی کرنے، اپنا گھر بسانے کا خواب کبھی اس نے نہ دیکھا۔
انہی دنوں مبارک علی کے باپ کا چچا زاد دور دیس سے واپس آیا۔ وہاں سے بہت سی دولت وہ کما کر لایا تھا اور پورے علاقے میں اس کا چرچا تھا۔ اب وہ اپنی آبائی زمینیں آباد کرنا چاہتا تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ سخت بیمار ہے۔ اپنے وسیع و عریض فارم کے وسط میں چارپائی پہ وہ پڑا رہتا اور نوکروں کو احکامات جاری کرتا رہتا۔ مبارک علی بھی کام کی تلاش میں اس کے پاس گیا۔ باپ کے چچا زاد نے جب اسے دیکھا تو اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ کچھ کہے سنے بغیر ہی جیسے مبارک علی کو اس نے پہچان لیا تھا۔ ایسے جیسے ایک نیک روح دوسری کو پہچانتی ہے۔ پھر آزمائش کے لیے اس نے کچھ کام مبارک کے ذمے کیے، جو اس نے چند دنوں میں نمٹا دیے۔ اس نے مزید کام اسے سونپا۔ چند دن کے بعد وہ دوبارہ اس کی چارپائی کے سامنے سر جھکائے بیٹھا تھا۔ اس نے پوچھا، کتنی تنخواہ لو گے۔ مبارک علی نے بتایا کہ اس نے کبھی کسی سے مطالبہ نہیں کیا، جو کچھ اسے دے دیا جاتا ہے، اسے وہ قبول کر لیتا ہے۔ مبارک علی نے دیکھا، چچا کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اندر ہی اندر کوئی غم اسے کھائے جا رہا تھا۔ یوں بھی وہ سخت بیمار تھا۔ 
اس روز سے اس نے مبارک علی کو حویلی کے اندر ٹھہرا لیا۔ اسے اپنا معتمدِ خاص بنایا۔ مبارک علی کو اس نے یہ بتایا کہ بیماری اسے کھا گئی ہے اور اس کے پاس صرف چند ماہ کی مہلت باقی ہے۔ اس نے کہا کہ پسماندگان میں وہ صرف ایک نوجوان بیٹی چھوڑ جائے گا۔ ایک نوجوان، دولت مند لڑکی اکیلے کس قدر غیر محفوظ ہو گی۔ جائیداد پہ وہ لوگ قبضہ کر لیں گے، جو اس کے مرنے کے منتظر ہیں اور اس کی عزت وہ پامال کر دیں گے۔ مبارک سے اس نے کہا کہ وہ اس کی بیٹی امینہ سے شادی کر لے۔ کچھ دیر کے لیے تو اس پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔ وہ مشکل سے قبول صورت تھا، رنگ بھی اس کا گہرا تھا۔ امینہ حسین و جمیل۔ وہ کنگلا تھا اور امینہ بے حد امیر۔ بہرحال زمانے کے جبر نے باپ بیٹی کو ایک سمجھوتے پر مجبور کر دیا تھا۔ 
یہ وہ حالات تھے، جن میں یہ شادی ہوئی۔ پہلے دن ہی یہ بات مبارک علی پہ کھل گئی تھی کہ امینہ اس سے نفرت کرتی ہے۔ اس کی کمتر شکل سے، گہرے رنگ اور غربت سے بھی۔ باپ کا فیصلہ مجبوری میں اس نے قبول ضرور کیا لیکن دل سے نہیں۔ باپ کی زندگی میں تو یہ نفرت خاموشی کی چادر تلے چھپی رہی۔ اس کے مرتے ہی وہ اعلانیہ شکل اختیار کر گئی۔ اٹھتے بیٹھتے، آتے جاتے، لوگوں کے سامنے اور تنہائی میں اسے وہ بے عزت کیا کرتی۔ اسے ''بد صورت کنگلا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتی۔ اپنی قسمت کو کوستی۔ باپ کے مرنے کے چند روز بعد ہی اس نے اپنا بستر الگ کر لیا۔
مبارک علی پہلے تو اس کا منہ دیکھتا رہ گیا۔ دولت اور خوبصورت لڑکی سے شادی کو وہ ایک خواب سمجھا تھا۔ اب معلوم ہوا کہ وہ تو ایک بھیانک سپنا تھا۔ غربت اسے راس تھی کہ اپنی مرضی سے وہ اٹھتا بیٹھا اور اسے بے عزت کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر یہاں سے وہ چل دے گا۔ اسی وقت امینہ قے کرتی ہوئی آئی اور بیٹھ کر رونے لگی۔ وہ حاملہ ہو چکی تھی۔ 
یہاں سے مبارک علی کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔ امینہ روتی رہتی تھی اور بار بار یہ کہتی کہ ایسے بدصورت کنگلے کا بچّہ پیدا کرنے سے پہلے اسے موت کیوں نہ آ گئی۔ علی الاعلان اس کا کہنا یہ تھا کہ بچہ اگر بدصورت ہوا تو اپنے ہاتھ سے اس کا گلا گھونٹ کر وہ اسے مار دے گی۔ مبارک علی جانتا تھا کہ یہ ایک دھمکی نہ تھی بلکہ بدصورتی سے امینہ کو ایسی شدید نفرت تھی کہ یقینا وہ ایسا کر گزرتی۔ ان حالات میں انتظار کرنے کے سوا اور وہ کیا کر سکتا تھا۔ اس نے سوچ رکھا تھا کہ بچّہ بدصورت ہوا تو فوراً ہی اسے لے کر وہاں سے چل دے گا۔ وہ تو خود ہی کو بدنصیب سمجھتا تھا، آنے والا بچّہ اس سے بھی زیادہ بد نصیب ہوتا۔ 
پھر فیصلہ کن گھڑی آئی۔ امینہ کے چیخوں کی جگہ ایک نوزائیدہ بچّے کی آواز نے لے لی۔ دروازہ کھول کر مبارک علی اندر گیا اوراس کا دل دھک سے رہ گیا۔ بچّہ باپ سے بھی زیادہ بد صورت تھا۔ وہ بلک رہا تھا اور نرس اسے اس کی ماں کے ساتھ لگا رہی تھی۔ امینہ اس وقت نیم بے ہوشی کی حالت میں تھی۔ 
مبارک علی تیزی سے باہر نکلا۔ اپنے کچھ کپڑے اور ضروری چیزیں پہلے سے اس نے باندھ رکھی تھیں۔ وہ اس نے کمرے کے باہر رکھ دیں۔ اب اسے امینہ کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنا تھا۔ اسے الوداع کہنا تھا اور اپنے لختِ جگر کے ہمراہ ایک نامعلوم منزل پہ روانہ ہونا تھا۔ وہ نوزائیدہ بچّے کو امینہ کے پاس چھوڑنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ 
جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ امینہ تو پہلے سے ہوش میں ہے۔ ''امینہ میں جا رہا ہوں‘‘ مبارک علی نے کہا۔ '' آہستہ‘‘ امینہ نے سرگوشی میں کہا ''ننھے شہزادے کو سونے دو‘‘۔
مبارک علی نے چونک کر دیکھا۔ امینہ کے منہ پہ ممتا کا نور تھا۔ 
مبارک علی تیزی سے باہر نکلا۔ اپنے کچھ کپڑے اور ضروری چیزیں پہلے سے اس نے باندھ رکھی تھیں۔ وہ اس نے کمرے کے باہر رکھ دیں۔ اب اسے امینہ کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنا تھا۔ اسے الوداع کہنا تھا اور اپنے لختِ جگر کے ہمراہ ایک نامعلوم منزل پہ روانہ ہونا تھا۔ وہ نوزائیدہ بچّے کو امینہ کے پاس چھوڑنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں