"FBC" (space) message & send to 7575

خوش قسمتی؟

ڈسکوری (Discovery) کی دستاویزی فلم ، Into the universe with Stephen Hawking اور Story of Everything میں بہت دلچسپ معلومات موجود ہیں۔ دور دراز کے ستاروں کو سمجھنے میں ہماری رہنمائی صرف روشنی کرتی ہے۔ کم و بیش ہر کہکشاں کے مرکز میں ایک انتہائی بڑا بلیک ہول موجود ہے۔ انہیں supermassive blackholes کہتے ہیں۔ یہ بلیک ہول کہکشاں کے لیے ایک مرکزی نقطہء گردش مہیا کرتے ہیں۔ سینکڑوں ارب سورجوں پہ مشتمل پوری کی پوری کہکشاں اس مرکزی دیو قامت بلیک ہول کے گرد ہی آہستہ آہستہ گھوم رہی ہوتی ہے۔ یہ کہکشائوں کو ان کی شکل حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ انہیں stablizer کہا جا سکتا ہے۔ ایک دیو قامت بلیک ہول ہمارے سورج جیسے چالیس لاکھ سورجوں جتنی قوت کا حامل ہو سکتا ہے۔ 
سٹیون ہاکنگ کہتا ہے After 8 billions years after the big bang, after a long and remarkable run of good luck, we have stars and we have glaxies, slowly rotating aroung jaint blackholes. اب آغاز ہوتا ہے ہمارے نظامِ شمسی کا۔ نظامِ شمسی ملکی وے کے مرکز سے 26 ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ یہ بہت اچھی ڈاکومینٹریز ہیں لیکن یہاں سے ہم صرف حقائق لے سکتے ہیں، تجزیہ نہیں۔ یہاں ہر چیز قسمت پر چھوڑ دی گئی ہے۔ مثلاً بگ بینگ کیسے اور کیونکر ہوا؟ جواب، اچھی قسمت۔ میٹر اور اینٹی میٹر کے ذرات جب ٹکرا کر فنا ہو رہے تھے تو میٹر کے ذرات نسبتاً زیادہ کیوں تھے‘ جن سے ہماری یہ کائنات بنی ہے؟ اچھی قسمت! بگ بینگ کے بعد جب ہائیڈروجن ہر طرف پھیل گئی تو ''خوش قسمتی‘‘ سے وہ غیر متوازن تھے۔ اس وجہ سے کششِ ثقل کو کام کرنے کا موقع ملا اور ہائیڈروجن کے بادل اکٹھے کرنے کا موقعہ ملا‘ ورنہ اگر ہر طرف ہائیڈروجن کے ایٹم ایک جتنے پھیلے ہوتے تو وہ ایک دوسرے پر ایک جیسی قوت لگاتے۔ اس صورت میں ہائیڈروجن کے بادل اکٹھے یعنی condense نہ ہو پاتے۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ سورج نہ بنتے اور نہ ہی ان کے گرد گھومنے والی زمینیں بنتیں۔ 
اس کے بعد luckily کیا کچھ ہوا؟ کیسے ہم luckily ایک خاص فاصلے پر آئے اپنے سورج سے۔ اس کے بعد luckily زمین پر وہ سب کچھ موجود تھا، جس سے زندہ خلیات بن سکتے۔ luckily ان خلیات کو توانائی کے لیے آکسیجن موجود تھی‘ جو کہ ایک خاص بیکٹریا نے great oxydation event میں بنائی۔ luckily زمین کا مدار سورج کے گرد مستحکم تھا اور درجہء حرارت مناسب رہا۔ اس کے بعد luckily زندہ خلیات کو آپس میں درست طور پر جڑنا آ گیا اور luckily، complex جاندار بنے۔ اس کے بعد وہ سب تو ایک ہی جگہ رک گئے۔ سب کی عقل رک گئی اور luckily انسان اس قدر عقلمند ہو گیا کہ وہ کائنات کو دیکھ کر اس پر تبصرہ کرنے لگا۔ luckily اس زمین پر مقناطیسی میدان پیدا ہوا۔ luckily اوزون آ گئی۔ luckily لوہا، کوئلہ، تیل، گیس اور دوسری مفید دھاتیں اتنی تھیں کہ انسانیت survive کر سکتی۔ اپنی ضروریات پوری کر سکتی۔ انسان کے جسم کو بنانے والے عناصر سورجوں کے اندر بنے تھے ہائیڈروجن سے۔ وہ سب اس طرح آپس میں جڑے کہ زندہ خلیات وجود میں آئے۔ luckily یہاں زمین پر درست کششِ ثقل تھی جو کہ ہمیں آسانی سے روزمرہ کے امور نمٹانے میں مدد دیتی ہے۔ luckily جانداروں کے اندر دماغ میں ان کے لمبک سسٹم کے اندر اولاد کی محبت پیدا ہوئی ورنہ جانور بھوک میں اپنی ہی اولاد کو کھا جاتے۔ 
گیس پہ مشتمل سیارے، جیسا کہ مشتری وغیرہ نظامِ شمسی کی بیرونی طرف ہیں۔ ٹھوس (Rocky) سیارے یعنی زمین وغیرہ اندر کی طرف۔ 
Story of everything میں سٹیون ہاکنگ کہتا ہے کہ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اگر سورج سے مناسب فاصلے پر مناسب conditions میں زندگی کرّہء ارض پر وجود میں آ گئی تو اس کے بعد یہ کیسے ممکن ہوا کہ وہ خود ہی کائنات کی تخلیق پر غور کرنے لگی۔ یہ وہ سوال ہے، جس کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان ایک خاص مخلوق ہے۔ اسے بے تحاشا عقل ایک خاص مقصد کے لیے دی گئی ہے۔ یہ مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ کائنات میں خدا کی نشانیاں دیکھ کر اس پہ ایمان لے آئے۔ آپ قرآن کھول کر دیکھیں۔ وہاں بار بار حکم دیا گیا ہے کہ غور کرو۔ ''اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘۔ ''وہ جو زمین و آسمان کی تخلیق پہ غور کرتے ہیں‘‘۔ ''زمین و آسمان کی تخلیق میں اور دن اور رات کے بدلنے میں... عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘۔ مسئلہ سارا یہ ہے کہ یہ ساری عقل صرف روزگار کے حصول میں صرف ہو جاتی ہے۔ جب 80، 85 سال کی عمر میں دنیا اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیتی ہے تو پھر مصلّا اٹھا کر انسان مسجد کا رخ کرتا ہے اور وہ بھی موت کے خوف میں۔ مقناطیسی میدان جو ہوتا ہے، وہ چارجڈ پارٹیکلز کی movement سے جنم لیتا ہے۔ زمین کے اندر molten iron core میں لوہے کے ذرات سے یہ پیدا ہوتا ہے۔ سورج کا سائز چھوٹا تھا۔ اگر زیادہ بڑا ہوتا تو اسے جلدی ختم ہونا تھا۔ سورج کا سائز اتنا تھا کہ زندگی کو بہت وقت ملا زمین پر۔ ان دس بارہ ارب سالوں میں سے ایک ارب سال میں ہم آرام سے زندگی گزار کے چلے جائیں گے۔ 
کچھ سوالا ت: تجسس کیا ہے؟ تجسس انسانی عقل کا حصہ ہے؟ یہ کیوں رکھا گیا ہے؟ یہ خدا تک رسائی دیتا ہے؟ اسی لیے عقل کی بات انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے؟ جب بھی بڑے تناظر میں بات کی جاتی ہے تو عقل ششدر کیوں رہ جاتی ہے؟ انسان کا ذہن بھک سے کیوں اڑ جاتا ہے، جب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ جس کیفیت سے گزر رہا ہے، اسے حبِ جاہ کہتے ہیں۔ جب جبلت حملہ آور ہوتی ہے، جیسے کہ میرا دوست ایک نئی کار خریدتا ہے تو حسد کا حملہ ہوتا ہے تو پھر کچھ دیر میں یہ حسد، یہ جبلت ختم کیوں ہو جاتا ہے؟ نیچرل سائنسز کون کون سی ہیں؟ زمین کی عمر کائنات کا ایک تہائی ہے اور اس عرصے میں biological تبدیلیوں کے علاوہ بہت بڑی geological changes بھی ہو چکی ہیں۔ ابتدا میں زمین انتہائی گرم، آکسیجن سے محروم، انتہائی ہنگامہ خیز تھی۔ یہ وہ وقت تھا، جبکہ یہ دوسرے اجسام سے ٹکرا رہی تھی یعنی مریخ وغیرہ سے۔ بعد میں یہ ٹھنڈی ہوئی۔ ٹھنڈا ہونے سے solid crust (براعظم) بنے اور مائع پانی اس کی سطح پر exist کرنے لگا۔ یہ زندگی کا آغاز تھا۔

 

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں