میں پانچویں جماعت میں تھا، محمد علی مرزا سے پہلی بار جب واسطہ پڑا۔ ایک ہم جماعت کی کاپی سے وہ ریاضی کا کام نقل کر رہا تھا۔ ریاضی کے استاد سخت بہت تھے ۔وقت کم تھا۔ مجھے کوئی اپنی کاپی دینے کو تیار نہیں تھا ۔میں روہانسا کھڑا تھا،محمد علی مرزا نے جب مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ اس کے بعد وہ کسی کی کاپی سے لکھتا رہا اور میں اس کی کاپی سے ۔ اس کے بعد سکول کی پانچ جماعتیں ، کالج کے چار اور پھر یونیورسٹی کے دو سال میں نے اسی کی رہنمائی میں گزارے ۔ میں ڈھیلا ڈھالا تھا ۔ وہ بھی بہت کم پڑھا کرتا لیکن وہ جانتا تھا کہ کس وقت کم از کم کتنا کام لازمی ہے ۔ یونیورسٹی کے پراجیکٹس وہی تیار کرتا رہا۔ہر سمیسٹر میں مضامین کا انتخاب وہی کرتا۔ یہ وہ حالات تھے، جن میں کم از کم نمبر لے کر ہم پاس ہوتے چلے گئے ۔ ڈگری مل گئی لیکن ناقابلِ بیان حد تک کم نمبروں کے ساتھ ۔
پھر اسی نے مجھے یہ راہ دکھائی۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ ملک کے معاشی حالات خراب ہیں ۔ بے روزگاروں کی فوج ظفر موج ہر کہیں نوکری ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ میرٹ پر کہیں بھی ہم پورے نہ اترتے اور سفارش ہمارے پاس تھی نہیں۔ دونوں کنگلے تھے ؛لہٰذا کاروبار کا خواب بھی دیکھ نہ سکتے تھے ۔ اس نے کہا ، کیوں نہ ہم صوفی بن جائیں ۔ حیران پریشان ، میں نے کہا : ہم تو جوان جہان ہیں اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ۔ہمیں کون روحانی ہستی تسلیم کرے گا۔ اس نے بتایا کہ اب لوگوں کے ذہنوں میں تبدیلی آرہی ہے ۔ سوٹڈ بوٹڈ نوجوانوں کو شہر کے لوگ تصوف کے میدان میں نہ صرف قبول کریں گے بلکہ اپنے جیسے پسِ منظر کی بنا پر بھرپور پذیرائی دیں گے ۔ اس نے بتایا کہ اکثر لوگوں کو صرف ذہنی سہارا درکار ہوتاہے ۔ وہ ذہنی سہارا ہم بنیں گے ۔ تکلیف کا شکار لوگوں کی تحلیلِ نفسی ہوگی اور ہماری جیب بھر جائے گی ۔
وہ روز تصوف ،روحانیت اور دعائوں سے متعلق کتابیں پڑھتا رہتا ۔ہر روز کسی موضوع پر نپی تلی تقریر کرتا ۔ میں وڈیو بناتا اور اسے سوشل میڈیا پرلگا دیتا۔ سب سے پہلے ایک پڑھی لکھی شادی شدہ عورت وقت لے کر ہمارے پاس پہنچی ۔ اس نے بتایا کہ شادی کو چھ برس بیت چکے ۔ دو بیٹیاں ہو کر فوت ہو گئیں ۔ شوہر کو بیٹے کی خواہش ہے ۔ روزبروز اس کا روّیہ سخت ہوتا جا رہا ہے ۔ اٹھتے بیٹھتے وہ مجھے دوسری شادی کی دھمکی دیتاہے ۔ میرے پیچھے ماں باپ ہیں اور نہ بہن بھائی۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگی ۔محمد علی مرزا نے اس سے کہا کہ ابھی اسی وقت اپنے شوہر کے نام وہ ایک خط لکھے : ایک بیوی کی حیثیت سے میں اس
بات پر قادر نہیں کہ اپنی مرضی سے تمہیں ایک بیٹا دے سکوں ۔ اس کا اختیار تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے ۔ اگر تم دوسری شادی کرنا چاہو تو تمہاری مرضی لیکن ایک شوہر کی حیثیت سے ایسا سلوک تمہیں نہیں کرنا چاہیے کہ قیامت کے روز تمہارے خلاف میں ایک گواہ بن جائوں ۔اس نے خط لکھا اور پھر بلکتے ہوئے پوچھا: اگر اس نے واقعی دوسری شادی کر لی تو کیا ہوگا ۔
محمد علی مرزا نے اسے کہا کہ اس کا بھی حل ہے ۔آنکھیں بند کر کے وہ یہ تصور کرے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے وہ بیٹھی ہے اور اس کے حضور اب وہ ایک درخواست کرے۔ مرزا کے پیچھے پیچھے وہ بولتی رہی ۔ اس نے کہا '' اے ربِ کریم، تو نے مجھے اس زمین پر پیدا کیا، جسے تو نے آزمائش کی جگہ بنایا ہے ۔ اپنے پیدا ہونے پر میں قادرنہیں تھی اور جو حالات مجھے پیش آرہے ہیں ، ان میں بھی میری مرضی شامل نہیں۔ تو نے جو میرے لیے بہتر سمجھا ، وہی میرے ساتھ ہو رہا ہے ۔ میں اکیلی ہوں اور ایک شخص کے رحم و کرم پر ، مجھ پر جو برہم رہتاہے ۔ میں تھک گئی ہوں ، میرا ہاتھ تھام لے۔ ان آزمائشوں سے مجھے سلامت لے جا ۔ستر مائوں کی محبت والے رب ، مجھے اپنی آغوش میں بھر لے ‘‘ یہاں پہنچ کر وہ اتنا روئی کہ بلکنے لگی ۔ مرزا نے اس سے کہا کہ اب اپنے آپ کو اس نے رحمتِ پروردگارِ عالم کے سپرد کر دیا ہے ۔ اس لیے اب گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔
اگلے روز وہ پھر آئی ۔ اس نے بتایا کہ جب اس کے شوہر نے خط پڑھا تو وہ ایک گہری سوچ میں ڈوب گیا ۔ ا س کے بعد سے وہ خاموش ہے ۔ اس نے کہا کہ خود کو رحمتِ پروردگارِ عالم کے سپرد کرنے کے بعد اس کا دل مضبوط ہو گیا ہے ۔ایسا لگتاہے کہ قدرت نے اس کا ہاتھ تھام لیا ہے اور اب وہ اس کی پناہ میں ہے ۔ اب وہ واقعی ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے ۔وہ بالکل پرسکون نظر آرہی تھی ۔محمد علی مرزا نے کہا ، جب بھی پریشانی ہو، دوبارہ اللہ سے رابطہ کرنا اور خود کو اس کے سپرد کر دینا ۔ اللہ کو یاد کرتے رہنا ۔
اس نے اپنی سونے کی چوڑیاں اتارکے محمد علی مرزا کے سامنے رکھ دیں اور کہنے لگی کہ انہیں قبول فرمائیے ۔ بالآخر وہ لمحہ آگیا تھا، جس کے لیے اتنی ٹھوکریں ہم نے کھائی تھیں ۔ محمد علی مرزا چوڑیوں کو اٹھا کر دیکھنے لگا ۔دو اڑھائی لاکھ روپے سے کیا کم ہوں گی ۔ میں سخت ضرورت مند تھا اور مجھ سے بڑھ کر وہ خود۔ کچھ دیر وہ آنکھیں بند کرے بیٹھا رہا ، پھر اس نے کہا '' سونا لے جابی بی، ہم نے بھی خود کو رحمتِ پروردگارِ عالم کے سپرد کر دیا ہے ‘‘۔ وہ سونا لے کر چلی گئی۔
میں بھونچکا بیٹھا تھا۔ کیا یہ اس کی کوئی نئی چال تھی ۔ اس کی چالیں اتنی آسانی سے سمجھ میں نہ آتی تھیں ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اب کیا کرنا ہے ۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں بھی آنکھیں بند کر کے اس کے پیچھے پیچھے بولتا جائوں اور خود کو رحمتِ پروردگارِ عالم کے سپرد کر دوں ۔ یہ کہنے کے بعد اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ میں نے کہا مذاق نہ کر میرے یار۔ اس نے کہا وہ مذاق نہیں کر رہا۔ میں اس پر چیخا چلایا ، میں نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے ۔ وہ روتا رہا ۔ میں نے اس سے کہا ، ہماری ضرورتیں کیسے پوری ہوں گی ۔ اس نے کہا ، ضرورت تو ہر جاندار کی پوری ہو جاتی ہے ۔پھر وہ ''کشف المحجوب ‘‘کے اوراق پلٹنے لگا۔
اس بات کو کئی سال گزر چکے ۔ اب احساس ہوتاہے کہ ضرورت تو سب کی پوری ہو جاتی ہے لیکن رحمتِ پروردگارِ عالم کے سپرد ہونے کے بعد انسان کتنا ہلکا پھلکا سا ہو جاتاہے ۔