"FBC" (space) message & send to 7575

انسانی دماغ کے عجائب

آئیے منفرد کتاب 'انسانی دماغ کی شان و شوکت اور اسرار‘ (The marvels and mysteries of the human mind) میں سے کچھ دلچسپ نوٹس سے لطف اندوز ہوں۔ کتاب مختلف حصوں میں منقسم ہے۔ دوسرے حصے کا عنوان ہے : Geography of the brain۔ ذیلی عنوان: ہماری برتری کی وجہ (دماغ کا حصہ) سیریبرل کارٹیکس (Our great advantage :the cerebral cortex)۔ یہ ایک سلیٹی رنگ کا چھلکا ہے۔ دماغ کے اوپر یہ تہہ در تہہ پھیلا ہوا ہے۔ کسی اور جانور کے پاس یہ چیز اس معیار کی موجود نہیں۔ اسی نے انسان کو تمام جانوروں پر برتری بخشی ہے۔ اگر جسم کے حجم اور سیریبرل کارٹیکس کے تناسب کو ملحوظ رکھیں تو انسان میں تمام جانوروں کی نسبت یہ حصہ بڑا اور اعلیٰ ہے۔ only in human beings is the cerebral cortex so large in relation to body size. 
مختلف جانوروں میں کوئی خاص صلاحیت انسانوں سے بہت بڑھ کر ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی دور تک دیکھ سکے گا، کوئی دور تک سونگھ سکے گا۔ ان میں سے ہر صلاحیت کے پیچھے دماغ کے کسی مخصوص حصے کا بڑا یا ایسی ساخت کا ہونا ہے کہ وہ اس صلاحیت کو ممکن بناتا ہے۔ بیشتر سائنسدان متفق ہیں کہ انسان میں دماغ کی برتر صلاحیتیں سیریبرل کارٹیکس سے منسلک ہیں۔ بولنے اور لکھنے کی صلاحیت، سوچنا، مشاہدہ کرنا، تجزیہ، مسئلہ حل کرنا، منصوبہ بندی اور تخیل وغیرہ وغیرہ۔ 
نیورو سائنسدان پال میکلینز انسانی دماغ کو تین دماغوں کا مجموعہ کہتا ہے۔ اس میں برین سٹیم شامل ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جو ریڑھ کی ہڈی کے سب سے اوپر واقع ہے۔ یہ بنیادی زندگی کے افعال انجام دیتا ہے۔ پال اسے ریپٹیلین کہتا ہے کہ ریپٹائلز مثلاً سانپ کا کل دماغ اتنا ہی ہے۔ یہ لائف سپورٹ کے افعال کنٹرول کرتا ہے۔ مثلاً سانس لینے کے نظام کو کنٹرول کرنا، دل دھڑکنے کے نظام کو، مسل موومنٹ اور بنیادی خواہشات جیسا کہ کھانا، جنسِ مخالف کی کشش اور اپنی جان کی حفاظت۔ میملز میں یہ سب کچھ ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی۔ مثلاً ان کے روّیے میں پیچیدہ جذبات کارفرما ہوتے ہیں۔ یعنی سانپوں میں جذبات نہیں نظر آئیں گے۔ میملز غرّاتے ہیں، دم ہلاتے ہیں، محبت دکھاتے ہیں۔ انعام کے لیے کرتب دکھاتے ہیں۔ اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں۔ اور اگر وہ کچھ غلط کرتے ہوئے پائے جائیں تو حتیٰ کہ شرمسار بھی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ دماغ کے اس حصے کی بنا پر ہوتا ہے، جو کہ ریپٹائلز میں کچھ خاص ڈویلپ نہیں ہو سکا۔ اسے limbic system کہتے ہیں۔
میکلینز کے نزدیک ہمارا تیسرا دماغ سیریبرم کے بیرونی حصے اور ان پر چڑھی ہوئی سیریبرل کارٹیکس ہے۔ یہ reasoning brain ہے۔ یہ عقل والا دماغ ہے۔ یہی انسان کو بتاتا ہے کہ کسی کی چیز چوری نہیں کرنی۔ جو انسان ہدایت پر ہوتے ہیں، ان میں یہ تیسرا حصہ باقی دو حصوں، بالخصوص دوسرے جذبات والے حصے پر غالب رہتا ہے۔ پیدائش کے وقت انسانی بچے کا دماغ کل جسم کا ایک چوتھائی ہوتا ہے۔ لیکن جب انسان جوان ہوتا ہے یعنی مکمل نشوونما تک پہنچ جاتا ہے تو جسم اور دماغ کا تناسب ساڑھے سات اور ایک کا ہوتا ہے۔ انسانی بچے کے سر کا حجم دوسرے تمام جانوروں کے سروں کی نسبت بڑا ہوتا ہے۔ اسی لیے پیدائش میں جتنی تکلیف انسانی مادہ کو ہوتی ہے، اتنی دوسرے جانوروں کو نہیں ہوتی۔ دماغ پہلے دو سال انتہائی تیزی سے بڑھتا ہے۔ اور یہ ان دو سالوں میں اپنے کل حجم کے 75-80 فیصد تک ہو جاتا ہے۔ پیدائش کے وقت انسانی بچے کے دماغ میں نیورونز بہت فاصلے پر ہوتے ہیں لیکن فوراً ہی یہ آپس میں کنکشن بنانے لگتے ہیں۔ انہی کنکشنز میں ساری learning ہوتی ہے۔ انہی کنکشنز کی وجہ سے بچہ پہلا لفظ بولتا ہے۔ 
جسم کے باقی خلیات مرتے اور نئے پیدا ہوتے ہیں لیکن نیورونز مرتے تو ہیں، نئے پیدا نہیں ہوتے۔ پیدائش کے وقت وہ کل سو ارب ہوتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ آپس میں کنکشن بنانے لگتے ہیں اور نئے نئے پیٹرن بناتے ہیں، جب انسان سیکھ رہا ہوتا ہے؛ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان کا دماغ مسلسل تبدیل ہو رہا ہوتا ہے۔ اور جب انسان کچھ سیکھتا ہے تو جسم تو وہی رہتا ہے۔ دماغ میں تبدیلی آتی ہے۔ 
جسم کے باقی اعضا کی طرح، دماغ بھی ایک فرٹیلائزڈ انڈے سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک سنگل خلیہ ہوتا ہے۔ اسے آلات کے بغیر آنکھ سے بمشکل دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بارآوری کے تیس گھنٹے کے بعد دو خلیات میں بدلتا ہے۔ اور یہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ دو سے چار، چا ر سے آٹھ۔ بار آوری کے آٹھویں دن، خلیات کا یہ ڈھیر خود کو بچہ دانی کی دیوار سے جوڑ لیتا ہے۔ اب سیل differentiation شروع ہوتی ہے۔ اب مختلف قسم کے خلیات بنیں گے۔ کسی نے بازو بنانا ہے، کسی نے ناخن اور کسی نے دماغ۔ لیکن ہر خلیے کو نہ صرف یہ کہ پتہ ہے‘ کس عضو میں ڈھلنا ہے بلکہ اس خاص عضو کی کس جگہ پر اسے فٹ ہونا ہے، یہ بھی طے ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ایک ننھا سا سینٹرل نروس سسٹم بنتا ہے، جسے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں بدلنا ہوتا ہے۔ اور اس کے گرد پھر باقی جسم بنتا ہے۔
نیورونز وہ ورکنگ یونٹ ہیں جو کہ نروس سسٹم ان سگنلز کو بھیجنے، وصول کرنے اور سٹور کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ اس کے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہی چیز زندہ چیزوں کو غیر جاندار چیزوں سے جدا کرتی ہے۔ اس کا سب سے شاندار مظاہرہ انسانی دماغ میں ہوتا ہے۔ نیورونز کی ورکنگ سمجھانے کے لیے سائنسدان انہیں سوئچ بورڈ یا کمپیوٹرز سے مشابہت دیتے رہے ہیں لیکن یہ مشابہت misleading ہو سکتی ہے کیونکہ نیورونز بجلی اور کیمسٹری کا ایک یونیک بلینڈ استعمال کرتے ہیں۔ 
نیورونز (دماغ کے خلیات) آپس میں رابطہ کرنے کے لیے کچھ کیمیکلز کو استعمال کرتے ہیں۔ انہیں نیوروٹرانسمٹرز کہا جاتا ہے۔ اگر ان کیمیکلز کا تناسب مستقل طور پر بگڑ جائے تو انسان بائی پولر کا مریض بن سکتا ہے یا یونی پولر کا بھی۔ ایسے شخص کا دماغ مستقل طور پر تکلیف میں ہی رہتا ہے۔ 
نیورونز کا بنیادی کام کمیونیکیشن ہے۔ یعنی معلومات کا بھیجنا اور موصول کرنا۔ ہر نیورون کے دوسرے نیورانز سے سینکڑوں سے ہزاروں تک کنکشن ہوتے ہیں۔ سیری برم میں کچھ نیورانز اس سے بھی انتہائی زیادہ لنکس رکھتے ہیں۔ دماغ کے سو بلین سے زیادہ خلیات اکٹھے کام کرتے ہیں، ان کے ریلیشن شپ مسلسل تبدیل ہو رہے ہوتے ہیں۔ اسی سے وہ مشین بنتی ہے، جس نے ہمیں اس سیارے پر اس قدر کامیاب بنا ڈالا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں