گزشتہ ہفتے ایک افسانہ تحریر کیا "Mama loves you"۔موت کی طرف بڑھتی ہوئی ایک ماں اپنے بیٹے کو بتدریج خود سے دور کر دیتی ہے کہ اس کی موت سے اسے شدید دھچکا نہ لگے ۔بچہ حیران ہوتا رہتا ہے کہ دوسرے بچّوں کی مائیں تو انہیں سینے سے لگا کر رکھتی ہیں ۔نصف صدی بعد اسے معلوم ہوتاہے کہ موت کو قریب دیکھ کر اس کی ماں اسے خود سے دور کر رہی تھی ۔ آنے والے حالات سے نمٹنے کے لیے اس کی تربیت کر رہی تھی ۔ ایک دوست نے پیغام بھیجا کہ اس طرح کا ایک واقعہ اشفاق احمد مرحوم نے لکھا ہے ۔ میری تحریر کا ماخذ اشفاق احمد نہیں بلکہ رئوف کلاسرہ تھے۔ مجھے معلوم ہوتا کہ اشفاق صاحب نے اس طرح کا افسانہ لکھا ہے تو میں اس موضوع پر نہ لکھتا۔ کلاسرہ صاحب کی والدہ ہسپتال میں بسترِ مرگ پر تھیں ۔اس موقعے پر وہ اس بات پہ فکر مند تھیں کہ ان کی موت کے بعد ان کا بیٹا ہسپتال میں اکیلا ہوگا؛لہٰذا وہ اسے ہدایات دے رہی تھیں کہ ان کی موت کی صورت میں اسے کیا کرنا ہوگا۔
خدا نے ہر جان میں اپنی زندگی کی شدید ترین محبت پیدا کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان سمیت ہر جاندار اپنی زندگی کی ہر قیمت پر حفاظت کرتاہے ۔ ایک جاندار ذہنی طور پر یہ بات قبول کر ہی نہیں سکتا کہ کچھ دیر میں اس نے مر جانا ہے۔ جن قیدیوں کو سزائے موت سنائی جاتی ہے ، ان میں سے اکثر خوف اور رنج کی شدت میں لٹکائے جانے سے پہلے ہی ذہنی طور پر مر جاتے ہیں ۔ بیماری سے موت کی طرف بڑھتے ہوئے لوگ پہلے ہی نیم جان ہوتے ہیں ۔ ان حالات میں آگے کی منصوبہ بندی بے حد غیر معمولی لوگ ہی کر سکتے ہیں ۔ایک عام شخص ان حالات میں جذبات کی شدت میں رونے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا۔
مریم کلاسرا کو یقین ہو چکاتھا کہ ان کا وقت رخصت آ چکا ۔ یہ بدحالی کا دور تھا۔اپنی اولاد کو خدا کے سپرد کرنے کے سوا امید کا کوئی جواز موجود نہیں تھا۔ وہ 1992ء میں فوت ہوئیں ، جب میں صرف چھ سال کا تھا۔میں نے تو انہیں دیکھا تک نہیں ۔ جس غیر معمولی بہادری کا انہوں نے مظاہرہ کیا، اس سے شک یہ ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر خدا سے ان کا تعلق تھا ۔ بہتر تو علم الاسما کے ماہرین ہی بتا سکتے ہیں؛ البتہ بندے کا خدا سے تعلق استوار ہونا غیرمعمولی بات ہے!
کلاسراصاحب سے پہلا واسطہ مجھے 2006ء میں پڑا۔ میں ماڈل ٹائون ہمک میں مقیم تھا ۔ کچھ جرائم پیشہ نے مجھے مارا اور میرا موبائل چھین لیا۔ کلاسرا صاحب کو علم ہوا تو انہوںنے یوسف رضا گیلانی سے رابطہ کیا۔ وفاقی حکومت حرکت میں آئی ۔ وہ لوگ منتیں کرتے ہوئے آئے اور موبائل واپس دے کر گئے ۔ وہ اتنے خطرناک لوگ تھے کہ کچھ عرصہ بعد ایک کشمیری نوجوان کو انہوں نے گولیاں مار دیں ۔ وہ مرتے مرتے بچا۔ ایک موقعے پر کلاسرا صاحب نے جنرل کیانی کے خلاف لکھا تو اس احسان کو پسِ پشت ڈال کر میں نے انہیں خوب برا بھلا کہا۔ یہاں تک لکھ دیا کہ جنرل ضیاء کی طرف سے بھٹو کو پھانسی دئیے جانے پر ان کی نفسیات متاثر ہوئی ہے اور ہر وردی پوش سے انہیں نفرت ہو چکی ہے ۔ وہ چاہتے تو اپنا احسان یاد کرا سکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں کیا۔
گزشتہ دنوں ان کے خلاف کردار کشی کی ایک مہم چلائی گئی ۔ وہ آزردہ ہوئے اور یہ کہا کہ دس سال بعد دوسری بار انہیں افسوس ہورہا ہے کہ لندن سے وہ پاکستان لوٹ کر آئے ۔ وہیں ملازمت کرتے رہتے ۔ان پر انگلیاں نہ اٹھائی جاتیں اور گوشہ ء عافیت میں وہ زندگی گزارتے ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ سب اگر عافیت میں زندگی گزارنے لگیں تو اس معاشرے کا کیا ہوگا۔ سرکارؐ نے ارشاد فرمایا تھا کہ برائی سے اگر روکا نہ جائے اور بھلائی کا حکم نہ دیا جائے تو بدترین لوگ تم پہ حاکم بن جائیں گے ۔ وہ تمہیں سخت ایذا دیں گے اور اس وقت تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہ ہوں گی ۔ ارسطو نے کہا تھا کہ اچھے لوگ اگر سیاست سے لا تعلق ہو جائیںتو برے لوگ ان پر حکمران ہو جائیں گے ۔ کلاسرا صاحب نے فہمیدہ مرزا پر 84کروڑ روپے قرضے کا سکینڈل لکھا تو انہوں نے فرمایا کہ کلاسرا اپنی بیٹی کی ملازمت کے لیے آیا تھا ۔ ملازمت نہیں ملی تو الزام تراشی شروع کر دی ۔ میرے خیال میں پچھلے دس سال میں اپوزیشن نے مجموعی طور پرحکمرانوں کے اتنے سکینڈل پیش نہیں کیے ہوں گے، جتنے تنہا کلاسرا صاحب نے لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر کوئی الزام نہ لگے ؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کسی کی بدعنوانی پر روشنی ڈالیں اور وہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کو دیانت دار قرار دے ۔ اگر وہ اس درجہ اخلاقی بلندی کا حامل ہوتا تو کرپشن کرتا ؟ یہ جرائم پیشہ اشرافیہ اور صحافت میں ان کے آلہ کاروں کا گٹھ جوڑ ہے ۔صحافت میں اب گنتی کے کچھ لوگ باقی رہ گئے ہیں، بہتی گنگا میں جنہوں نے ہاتھ نہیں دھوئے۔ میرے والد پر الزامات عائد ہوئے کہ انہوں نے حکومت سے پلاٹ لیے ۔ تاثر یہ دیا گیا کہ جیسے خفیہ طور پر کوئی جائیداد انہوں نے ہتھیا لی ہے ؛حالانکہ میڈیا ٹائون اسی زمین پر واقع ہے ، جہاں سب صحافیوں کو قسطوں پر رعایتی پلاٹ دئیے گئے۔
ہمیشہ سے الزامات لگتے آئے ہیں ۔ سب سے زیادہ ہدایت یافتہ ، سب سے زیادہ نیک لوگوں پر، پیغمبروں پر لوگوں نے الزامات لگائے ۔انہیں گلیوں میں گھسیٹا گیا ۔ پتھر مارے گئے ۔ بیوی بچّوں کے ذریعے انہیں اذیت پہنچانے کی کوششیں ہوئیں۔امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ پر الزام لگایا گیا تو سرکارؐ شدید اذیت کا شکار ہوئے ؛حتیٰ کہ اللہ نے ان کی بے گناہی کی آیات نازل فرمائیں ۔پیغمبروں پر لوگ الزام لگا سکتے ہیں تو اس زمانے کے ایک عام شخص پر کیوں نہیں ؟ سیاسی ملّائوں نے قائدِ اعظمؒ کو انگریز کا ایجنٹ قرار دیا ۔
کلاسرا صاحب کی خدمت میں بطور ایک نوجوان لکھنے والے کے، میری درخواست یہ ہے کہ آئندہ بھی بہت سی تکلیفوں سے انہیں گزرنا ہوگا ۔یہ آخری دفعہ نہیں کہ ان پر بدعنوانی کا الزام عائد کیا گیا۔ اس طرح کے حملوں کا انہیں جواب دینا ہوگا لیکن انہیں رنج کا اظہار نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ نہیں کہنا چاہیے کہ دس سال بعد پاکستان واپسی پر ایک بار پھر انہیں افسوس ہو رہا ہے ۔ آپ کے مخالف کو اندازہ نہیں ہونا چاہئیے کہ آپ کو رنج پہنچا ہے ۔ وہ مریم کلاسرا کے بیٹے ہیں اورغیر معمولی تکلیف دہ حالات میں مرحومہ کا طرزِ عمل ہمارے سامنے ہے ۔