کرئہ ارض پر چار کام ایسے ہو رہے ہیں ، جو کہ اسے بنجر سیارے میں تبدیل کرنے کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں ۔ انسانوں کی یہ چار سرگرمیاں درج ذیل ہیں ۔1۔ جنگلات کا ختم ہونا ۔2فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بڑھنا۔ 3۔ فاسفورس ، نائٹروجن اور دوسری کیمیائی کھادوں کا استعمال ، جو کہ بالآخر سمندر میں جاتی اور سمندری حیات کے لیے مضر ثابت ہوتی ہیں ۔ 4۔ جاندار انواع (Species)کا ختم ہونا(انسان کے ہاتھوں)۔ انسانی سرگرمیاں عالمی آب و ہوا میں تبدیلی کا باعث بن رہی ہیں ۔ آنے والی دہائیاں نہیں تو صدیوں میں زمین انسانوں کے لیے پہلے جیسی محفوظ پناہ گاہ نہیں رہے گی ۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ 350حصے فی ملین کی بجائے 400پر چلی گئی ہے۔ اضافہ جاری رہا تو 450یونٹ سے بڑھ جائے گی ۔ سات ارب انسان زمین پر زراعت کر رہے ہیں ، جنگلات کاٹ رہے ہیں ۔ سپیشیز ختم کر رہے ہیں ۔ پٹرول، گیس، کوئلہ جلا رہے ہیں ۔ گرین ہائوس گیسز ہوا میں شامل کر رہے ہیں ۔ اس دور کو human age یا anthropoceneکہتے ہیں ۔ پہلے بھی زمین پر ایسے دور آتے رہے ہیں ۔ سینکڑوں ملین سال پہلے زمین برف کا گولہ snow) (ballبن گئی تھی ۔ 6.6کروڑ سال پہلے ڈائنا سار کے خاتمے کا مبینہ طور پر باعث بننے والا عظیم چک ژولب والا دم دار ستارا،جس سے زمین کے 70فیصد جاندار مر گئے تھے ۔ فرق یہ ہے کہ پہلے ہمیشہ قدرت کے ہاتھوں قدرتی طور پر ہوا یہ سب اور اس دفعہ ایک جاندار کے ہاتھوں ، انسان کے ہاتھوں ہو رہا ہے ۔
1800ء میں صنعتی انقلاب کے بعد بالخصوص extinctionتیز ہوئی ہے ۔سمندروں کا پانی گرم اور اس کی تیزابیت بڑھ رہی ہے ۔ اس سے سمندری حیات بڑے پیمانے پر مر سکتی ہے ۔ کچھ مچھلیاں گرم پانی سے ٹھنڈے کا رخ کر رہی ہیں ۔ مغربی انٹارکٹک آئس شیٹ پگھل رہی ہے ۔ سمندروں میں 12سے 16فٹ اضافے کا خدشہ ہے ۔ اسے روکا نہیں جا سکتا۔ انسان نے جو deforestrationکی ہے ، اس سے جانوروں کے مسکن ختم ہو گئے ، ان کے گھر، ان کی خوراک ختم ہو گئی ۔ ایک جانور مٹا تو اس پر پلنے والا بھی مٹ گیا۔ اس طرح چین متاثر ہوئی ۔
1600کلومیٹر فی گھنٹا سے زیادہ کی رفتار سے زمین اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے ۔ ایک لاکھ سال میں وہ دو سیکنڈ کے برابر رفتار کم ہو جاتی ہے ۔ اور اس رفتار سے گھومنا ضروری ہے زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ۔ حرارت کی مساوی تقسیم اسی سے ہوتی ہے ۔ اندازہ اس سے لگائیے کہ گاڑی میں ہم ڈیڑھ سو کلومیٹر فی گھنٹا پر حواس باختہ ہو جاتے ہیں ۔
ختم ہو چکے جانداروں کا مطالعہ کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو ان کے فاسل کا مشاہدہ۔ دوسرا جدید طریقہ چند دہائیوں پہلے استعمال ہونا شروع ہوا۔ وہ ہے باقیات میں موجود خلیات کے ڈی این اے اور جینز کا مشاہدہ ۔ جینز genetic materialہوتاہے جو کہ ایک نسل سے دوسری میں منتقل ہوتاچلا جاتاہے ۔ ڈی این اے بہت دیر تک surviveکرتاہے ؟ڈی این اے او رجینز پڑھنے کی صلاحیت حاصل ہونے کے بعد جن فیلڈز کو فائدہ ہوا ، ان میں palaeontology، evolutionary biology، archealogyاور forensic scienceشامل ہیں ۔ سات لاکھ سال پرانا گھوڑے کا جینوم موجود ہے ۔ پہلے انسان کا قدیم ترین ڈی این اے 2لاکھ سال پرانا تھا لیکن حال ہی میں 3لاکھ سال پرانا انسان سامنے آیا ہے ۔ نی اینڈرتھل کا ڈی این اے اتنی ہی صحت کے ساتھ موجود ہے ، جتنا کہ آج کے کسی انسان کا۔
آج ہم جانتے ہیں کہ صرف ہماری کہکشاں میں ستاروں کی طرح کم از کم 100بلین سیارے بھی ہیں اور یہ پانچ سال پہلے ہم نہیں جانتے تھے ۔جب ہم پریشان ہوتے ہیں تو nerve impulsesآنتوں میں خوراک کی حرکت آہستہ کر دیتی ہیں ۔ اس سے قبض ہوتی ہے ۔ سالانہ عالمی خلائی بجٹ 42ارب ڈالر ہے۔ امریکہ 17، روس 5، یورپی یونین 5،فرانس اڑھائی ارب ڈالر، جاپان ڈھائی ارب ڈالر، جرمنی 2۔ اٹلی 1.80۔ چین 1.30۔ بھارت 1.10 ارب ڈالر، پاکستان 8کروڑ ڈالر۔
آئن سٹائن نے کہا تھا کہ اگر آپ ایک کسی چیز کو آسانی سے بیان نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو وہ چیز ٹھیک طرح سے معلوم ہی نہیں ہے ۔ if you can't explain it simply, you dont understand it well enough۔
میری کیوری ایک سائنسدان تھی ، جسے دو دفعہ نوبل انعام ملا۔
ذیابیطس کے علاج میں ایک زبردست پیش رفت ہوئی ہے ۔ لبلبے کے اندر موجود بیٹا سیلز کا کام یہ ہوتاہے کہ خون میں شکر کی مقدار کو کنٹرول کریں ۔ذیابیطس ٹائپ ون میں ہوتایہ ہے کہ غلطی سے جسم کا دفاعی نظام ان بیٹا سیلز کے خلاف ایکٹو ہو کر انہیں تباہ کر دیتاہے ۔ اب سٹیم سیلز سے بنائے گئے ہیں بیٹا سیلز ۔ تجربہ کامیاب رہا ہے ۔ ویسے زیادہ تر جو ذیابیطس عام ہے ، وہ ٹائپ ٹو ہے اور اس کا سبب ہے غیر صحت مندانہ طرزِ زندگی ۔ کھاتے جانا اور بیٹھے رہنا۔
دم دار ستاروں کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ سورج اور نظامِ شمسی کی تعمیر کے بعد بچ رہنے والے میٹریل میں سے ہیں ۔ ان کا ایک مبینہ کردار رہا ہے زمین پر پانی کے نقطہ ء آغاز، اور یہاں تک کہ اس پر زندگی کے آغاز کے بارے میں ایک مبینہ کردار۔ اور نظامِ شمسی کی ابتدا کے بارے میں وہاں سے کچھ معلومات مل سکتی ہیں ۔ یہ دمدار سیارے نظامِ شمسی کے وجود میں آنے کے وقت کے اجزا پر مشتمل ہیں ۔ اور ان سے ماہرین 4.6ارب سال پہلے کے اجزا کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں ۔
روایتی ایندھن کوئلہ، تیل اور گیس جو ہے وہ کاربن کی مقدار زیادہ کرتا ہے اورگرین ہائوس گیسز کا سبب ہے ۔ اسے نامیاتی ایندھن کہتے ہیں ، جو کہ جانداروں اور درختوں وغیرہ کے زمین میں دب جانے سے بنا تھا؟ اقوامِ متحدہ کے حمایت یافتہ انٹر گورنمنٹل پینل فار کلامیٹ چینج یعنی ذہنی امراض کے شکار افراد ، حتیٰ کہ نارمل انسانوں میں سے بھی بعض نیند میں بعض اوقات اپنے قریب کسی دوسرے شخص بلکہ بھوت کی موجودگی محسوس کرتے ہیں ۔ اکثر اوقات یہ انہیں گھو ر رہا ہوتاہے ۔ سائنسدانوں نے اب اس کی حقیقت دریافت کر لی ہے اور لیبارٹری میں اس بھوت کو پیدا بھی کیا گیا ہے ۔ اور یہ ہوتاہے سینسری موٹر سگنلز میں خلل پڑنے سے ۔ واضح رہے کہ sensorimotor brain signalsہی کی مدد سے انسان اپنے وجود کا احساس کرپاتاہے ۔ اس نظام میں بعض اوقات خلل پڑے تو انسان اپنی جگہ کسی دوسرے شخص کی موجودگی کو محسوس کرنے لگتاہے ، جو کہ درحقیقت وہاں موجود نہیں ہوتا۔