"FBC" (space) message & send to 7575

بڑا کام

میں فائنل سمیسٹر میں تھا ، جب ایک دوست کے توسط سے مبارک علی میرے پاس آیا۔ میں بے حد غیر معمولی طالبِ علم تھا اور کئی اعزازات اپنے نام کر چکا تھا۔ مبارک علی بمشکل تمام پاس ہونے والے طالبِ علموں میں سے ایک تھا۔ مجھے اس پر ترس آیا۔ وہ بے حد معمولی دماغ رکھتا تھا لیکن کوئی بڑا کام کر کے وہ غیر معمولی لوگوں میں شامل ہونے کی خواہش رکھتا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ سب لوگ غیر معمولی ہو جاتے تو اس دنیا کا نظام کیسے چلتا۔ اینٹیں کون بناتا ، بال کون کاٹتا اور نالیاں کون صاف کرتا ۔ اس نے کہا کہ اسے کسی کام میں کوئی شرم نہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ بڑے کام بھی کرنا چاہتا ہے ۔ میں نے صاف صاف اسے بتا دیا کہ بڑے کام کرنے والا دماغ اس کے پاس ہے ہی نہیں ۔ وہ چپ کر کے وہاں سے چلا گیا۔ بعد میں ، میں نے اس کی خبر رکھی ۔وہ مشکل مضامین منتخب کرتا اور فیل ہوتا رہتا ۔بار بار کوئی نیا کام شروع کرتا اور ناکام ہوتا۔ میری تعلیم مکمل ہو گئی ۔ ایک اچھی نوکری مل گئی۔ میں نے شادی کر لی اور یوں عملی زندگی کا آغاز ہوا۔ پھر ایک دن ایک کتاب کی تقریبِ رونمائی میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ سرِ ورق پہ اس کا چہرہ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ کتاب کھولی تو ایسا لگا کہ علم و حکمت کاایک خزانہ مصنف کے دماغ میں محفوظ ہے۔میں اس سے ملنے گیا اور مجھ پر جیسے حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔ مبارک علی کا جسم وہی تھا، آواز وہی تھی لیکن اس کا دماغ بدل چکا تھا۔ یہ ایک غیر معمولی دماغ تھا۔ یہ آسمان سے زمین اور زندگی کو دیکھ رہا تھا ۔حیرت کی شدت میں ، میں اسے دیکھتا رہ گیا۔ 
مبارک علی نے مجھے اپنی داستان سنائی ۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک عام سا بچہ تھا۔ اس نے ہوش سنبھالا تو دیکھا کہ گھر میں ماں نہیں ہے ، صرف باپ ہے ۔ یہ باپ اسے نہلاتا ، کھلاتا ، سکول کے لیے تیار کرتا اور سلا دیتا ۔ اس کے باپ کے دل میں کوئی بڑا زخم تھا ۔چپ چاپ وہ اپنے بیٹے کی دیکھ بھال میں لگا رہتا ۔ مبارک علی نے اسے کبھی مسکراتے نہ دیکھا۔ اسے سنبھالنے کے علاوہ اس کا باپ منہ لپیٹ کر بستر پہ پڑا رہتا ۔ ایک زندہ لاش ، جسے انتظار تھا کہ مبارک علی اپنے پائوں پر کھڑا ہو تو وہ قبر میں جا لیٹے ۔ مبارک علی کو شروع ہی سے کوئی بڑا کام کر نے کا شوق تھا لیکن اسے ہمیشہ ناکامی ہی ملتی۔
جیسے ہی مبارک علی کی تعلیم مکمل ہوئی ، اس کا باپ بسترِ مرگ پر لیٹ گیا ۔ جب اس کا آخری وقت آیا تو مبارک علی نے اس سے پوچھا کہ اس کی ماں اچھی عورت تھی یا بری ۔ اس نے کہا ،وہ تواچھی تھی لیکن تقدیر سے کون لڑ سکتا ہے ۔اس کے علاوہ اس نے ایک لفظ نہ کہا ۔ اپنے ہونٹ اس نے سی رکھے تھے ۔ کچھ ہی دیر میں وہ مر گیا ۔ مبارک علی اسے دفنا کر آیا ۔ اب اس کی کل جائیداد یہ گھر تھا، جس کا نچلا حصہ کرائے داروں کے پاس تھا۔ باپ کے بینک اکائونٹ میں آٹھ لاکھ روپے پڑے تھے ۔ اس پہ کسی قسم کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ دو تین گھرانے اسے اپنی بیٹی کارشتہ دینے کو تیار تھے۔ وہ چاہتا تو شادی کرتا اوراپنی عائلی زندگی میں مصروف ہو جاتا۔ مبارک علی یہ سب کرنا چاہتا تھا لیکن وہ بڑا کام ؟ 
ایک بڑا کام کر نے کی خواہش دوسری سب خواہشات پہ غالب آگئی ۔ اس نے ایک ایسا شخص ڈھونڈا جو اللہ کے نور سے دیکھتا تھا۔ مبارک علی نے اسے کہا کہ وہ کوئی بڑا کام کرنا چاہتا ہے لیکن ہمیشہ اسے ناکامی ملتی ہے ۔ اس نے کہا ، اللہ سے مدد مانگ ۔ مبارک علی نے پوچھا ، اللہ سے مدد کیسے مانگنی ہے ؟ اس نے کہا : ایسے جیسے بچّہ تکلیف میں ماں کو بلاتا ہے ۔ 
تقدیر نے جیسے ایک زناٹے دار تھپڑ مبارک علی کے منہ پر رسید کیا تھا۔ اس بیچارے کی ماں ہی نہیں تھی ۔ اسے اس بات کا کوئی علم نہیں تھا کہ بچّہ تکلیف میں ماں کو کیسے بلاتا ہے ۔منہ چھپا کر وہ وہاں سے چلا آیا۔ 
پھر اسے یاد آیا کہ اس کے گھر میں کرائے داروں کے چار چھوٹے بڑے بچّے ہیں۔ ان میں سے ایک ذہنی اور جسمانی طور پر معذور تھا۔ ماں روزانہ اسے گھر کے سامنے ایک چھوٹی سی پالکی میں بٹھا دیا کرتی اور تھوڑی تھوڑہی بعد اس کے پاس چکر لگاتی رہتی ۔ وہ وہاں گیا اور چھپ کر اسے دیکھنے لگا ۔ اس نے دیکھا کہ بچّے کو جب کوئی ضرورت ، کوئی تکلیف ہوتی اور ماں اگر پاس نہ ہوتی تو منہ سے وہ ایک آواز نکالتا ۔ وہ زور سے ''آئو‘‘ کہتا ۔ ماں جہاں کہیں ہوتی ، بھاگتی ہوئی اس کے پاس پہنچتی ۔ اگر وہ دوسرے بچوں کے ساتھ مصروف ہوتی تو بھی انہیں چھوڑ کر اس کے پاس آتی ۔ اسے یہ بچّہ دوسرے بچّوں سے زیادہ عزیز تھا ۔اس لیے کہ اس بچّے کو ماں کی زیادہ ضرورت تھی ۔ مبارک علی کو لگا کہ وہ بھی ایک معذور بچّہ ہے ، جو ذہنی طور پر دوسروں سے پیچھے رہ گیا ہے ۔ ہمیشہ ناکامی جس کا مقدر ہوتی ہے ۔ 
وہ اپنے کمرے میں گیا ۔ آنکھیں بند کر کے اس نے آواز لگائی '' آئو ‘‘۔ 30سالہ ناکامیوں کے صدمے تلے دبے ہوئے مبارک علی کی آواز چیخ میں بدل گئی ۔ وہ آواز لگا تا رہا۔ دفعتاً معذور بچّے کی ماں بھاگتی ہوئی آئی۔وہ یہ دیکھنے آئی تھی کہ اس کے بچّے کی نقل کون اتار رہا ہے ۔ وہ رو رہی تھی کہ شاید اس کے بچّے کا مذاق اڑایاجا رہا ہے لیکن پھر اس نے مبارک علی کو روتے ہوئے دیکھا تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ کسی تکلیف میں ہے ۔ اس نے پوچھا: تیری ماں کہاں ہے ۔ مبارک علی نے کہا ، میری ماں تیس سال پہلے گم گئی تھی ۔ مبارک علی اور اس عورت کی عمر میں زیادہ فرق نہیں تھا لیکن اس دن سے اس نے مبارک علی کو اپنے ذہنی معذور بچّے کی سی اہمیت دینا شروع کر دی ۔ مبارک علی کو محسوس ہوا کہ زندگی میں پہلی بار ماں کا سایہ اس پہ پڑا ہے ۔ 
اگر وہ مطمئن ہو جاتا تو شاید یہ کہانی یہیں ختم ہو جاتی لیکن اسے یاد آیا کہ اسے ایک بڑا کام کرنا ہے ۔ مبارک علی نے اس عورت کو کہا کہ اب اگر وہ آواز دے بھی تو وہ اس کے پاس نہ آئے۔ وہ تو خدا کو پکار رہا ہے ۔ اس نے پھر آواز لگانی شروع کی ۔''آئو، آئو، آئو‘‘ وہ اسے پکارتا رہا ؛ حتیٰ کہ اس کی پکار قبول ہوئی۔ آہستہ آہستہ اس کا ذہن بڑھنے لگا ۔ پھر یہ ذہن غیر معمولی ہو گیا ۔
میں نے مبارک علی سے پوچھا ۔ کیا اس نے کوئی وظائف پڑھے؟ اس نے کہا ، ْصرف علم میں اضافے کی وہ دعائیں ، جو سب کو معلوم ہیں ۔میں وہاں سے چلا آیا لیکن اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ مجھے ایسا لگا کہ اصل بڑا کام کتاب لکھنا نہیں ، بلکہ وہ آواز لگانا تھا ، جو مبارک علی نے لگائی ۔ اسی لیے ناکامیوں اور صدمات سے اسے گزارا جا رہا تھا ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں