ایغور پاشا بہت بڑا کیمیا دان تھا ۔ 92عناصر ، ان کے باہمی روابط و تعامل سے وہ بخوبی واقف تھا ۔ ان عناصر سے جیسے چاہے وہ کھیل سکتا تھا۔ بطور کیمیا دان ، اپنے پچاس سالہ کیرئیر میں ، اس نے ہر قسم کے معرکے سر کیے تھے لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ فیصلہ کن معرکہ ابھی باقی ہے ۔ اسے تو سبکدوش ہوئے بھی دس برس ہونے کو آئے تھے۔ اس کی بینائی کمزور ہو چکی تھی ، کمر خمیدہ ، زیادہ تر بال جھڑ چکے تھے اور بچے کھچے دودھ کی طرح سفید ۔عافیت میں زندگی بسر کرنے والا ایک سبکدوش شخص، وقت گزارنے کے لیے جس کے پاس خوشگواریادوں سے بھرپور ماضی موجود تھا۔ اب بھی لوگ اس کی عزت کرتے تھے۔ خصوصی طور پر وہ اس سے ملنے آتے۔ اسے تحائف پیش کرتے ۔ یوں قبر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھا یہ عظیم کیمیا دان اپنی موت کے لیے بالکل تیار تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ تاریخ کا بدترین سازشی کردار اسے عافیت کے سائے سے نکالنے آرہا ہے ۔
یہ جمعرات کی شام تھی ، جب اس نحوست کا نزول ہوا۔ اطلاعی گھنٹی بجی۔ اس سے پہلے کہ ایغور پاشا اٹھنے کی کوشش کرتا،سیاہ لباس میں ملبوس وہ شخص خود ہی دروازہ کھول کر اندر چلا آیا۔ ملگجی سی روشنی میں وہ ایک ہیولا سا دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے کہا '' پاشا ، تمہیںاٹھنے اور دروازہ کھولنے میں 41سیکنڈ لگتے ۔ خود اندر آکر میں نے تمہارا وقت بچا دیا ۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ ہنسا ۔ پھر اس نے کہا'' یقینا تم حیران ہوگے کہ دروازے کا قفل کیسے کھل گیا۔ ‘‘ اس کے بعد وہ پہلے سے زیادہ کھل کر ہنسا اور یہ کہا '' میں تم سے بڑا کیمیا دان ہوں اور کیمیا دان ہر عنصر سے کھیلنا جانتا ہے ،حتیٰ کہ لوہے سے بھی ۔‘‘
ایغور پاشا دہل کر رہ گیا ۔ اس لیے نہیں کہ اس نے 41سیکنڈ کا وقت کیسے شمار کیا بلکہ اس لیے کہ اس کے ذہن میں یہی سوال پیدا ہوا تھا کہ لوہے کا قفل کھل کیسے گیا ۔ ایغور پاشا غیر معمولی طور پر ذہین تھا ۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ اجنبی اس کا ذہن پڑھ رہا ہے ۔
اجنبی بولتا چلا گیا۔ اس نے کہا'' میں دوسرا بڑا کیمیا دان ہوں ۔ تم لوگ تیسرے نمبر پر آتے ہو ‘‘۔ پاشا حیرت سے سوچنے لگا کہ پہلے نمبر پرکون ہے اور ''تم لوگوں ‘‘ سے اس کی کیا مراد ہے۔پھر اس نے کہا'' کیا میں تمہیں سونا بنانا سکھائوں ۔ میں دوسرا بڑا کیمیا دان ہوں۔ مجھے سونا بنانا آتا ہے ۔ بدلے میں مجھے کیا دو گے ؟ ‘‘ پاشا سے زیادہ کون جانتا تھا کہ ہزاروں سالہ انسانی تاریخ میں کیمیا دان کمتر دھاتوں کو سونے میں بدلنے کی کوشش کرتے رہے ۔ آخری زمانے سے تعلق رکھنے والا ایغور پاشا بخوبی جانتا تھا کہ سونا نہ لوہا، زمین میں کچھ نہیں بنتا۔ سب کچھ کروڑوں ڈگری درجہ ء حرارت پر ستاروں میں بنتا ہے اور انسانی ضرورت کے مطابق سب کچھ زمین پر نازل کیا گیا۔ اجنبی ہنسا اور اس نے کہا '' ستاروں ہی سے میں خام مال لے کر آیا ہوں ‘‘۔ اس نے دھات سے بنا ہوا ایک ڈبہ کھولا۔ اندر سنہرا، سرخ اور زرد رنگ بدلتا ہوا ایک سیال مادہ موجود تھا ۔اس طرح کا مادہ پاشا نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہ دیکھا تھا؛حالانکہ اس کا کام ہی ہر قسم کے آمیزے تیار کرنا تھا ۔ اجنبی نے کہا : اس پر پیتل لگائو، سونا بن جائے گا۔
ایغور پاشا نے ایک بار پھر اس اجنبی کو غور سے دیکھا ۔ اس کا سیاہ ہیولا ، عجیب روّیہ ، سونا بنانے کا مافوق الفطرت دعویٰ ۔ اس نے آنکھیں سکیڑ کر غور سے دیکھا اور پھر وہ اپنی جگہ ساکت بیٹھا رہ گیا ۔ ایک بڑا ماہرِ کیمیا ہونے کے سبب وہ جان چکا تھا کہ سیاہ ہیولائی وجود رکھنے کے باوجود اجنبی کا وجود آگ سے بنا ہوا تھا۔ آگ والا وجود انسان نہیں ہو سکتا ۔ وہ جن تھا اور کوئی عام جن نہیں ، وہ شیطانِ مردود تھا۔ اس انتہائی بڑھاپے میں ، وہ اسے اغوا کرنے آیا تھا ۔خود کو وہ دوسرا بڑا کیمیا دان کہہ رہا تھا ۔ انسانوں کو تیسرے نمبر پر رکھ رہا تھا ۔ اصلی کیمیا دان تو خدا ہی تھا، جس نے سب عناصر پیدا کیے ۔ شیطان کے سامنے ہی سب کچھ تخلیق ہوا تھا۔ وہ پیتل کو سونا بنا سکتا تھا۔ ایغور پاشا نے خدا کو یاد کیا اور مقابلے کے لیے تیار ہو گیا۔ یہ جسمانی قوت نہیں ، عقل کا مقابلہ تھا۔ اس مقابلے میں وہ تب ہی جیت سکتا تھا ، اگر اس کی عقل خدا سے ہدایت یافتہ ہوتی ۔
ایغور پاشا نے کہا: میں ساری رات سونا بنانا چاہتا ہوں ۔ وہ ہنسا ''کیوں نہیں میرے دوست ۔ پھر اس کے بعد تمہیں اپنی سب سے قیمتی چیز میرے حوالے کرنا ہوگی ۔ ‘‘ پاشا کا جسم تو اپنی موت کے قریب پہنچ چکا تھا اور سب سے قیمتی چیز اس کے پاس اپنی روح ہی تھی ۔ شیطان اسے سونے کے لالچ میں مبتلا کرکے مزید کمزور کرنا اور پھر اسے اچک لے جانا چاہتا تھا ۔ پاشا نے کہا ''آج رات جتنا سونا میں بنائوں گا ، وہ میں اپنی مرضی سے خرچ کروں گا ۔ اس کے بعد تم میری سب سے قیمتی چیز لے سکتے ہو۔ ‘‘
ساری رات وہ سونا بناتا رہا ۔ اس کا ندیدہ پن دیکھ کر شیطان ہنس رہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا۔ جلد از جلد وہ اس کی روح چکھنا چاہتا تھا ۔ وہ خوش تھا کہ ہوس کا مارا بوڑھا کیمیا دان ایک آسان شکار ثابت ہوا ۔
سورج نکلنے والا تھا ، جب مقابلے کاآخری مرحلہ شروع ہوا۔ شیطان نے کہا ، بس بہت سونا بنا لیا تونے آدم زاد! اب وہ تو تڑاخ پہ اتر آیا تھا۔ اس کا مصنوعی اخلاق ختم ہو چکا تھا ۔ اس کی آواز میں غرّاہٹ تھی اور وہ بے حد بھوکا معلوم ہورہا تھا ۔
ایغور پاشا نے کہا '' میرے ''معزز‘‘ مہمان ۔ سونا میری مرضی سے خرچ ہوگا ۔ ‘‘ شیطان سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ایغور پاشا نے کہا'' میں ایک ہزار کنویں کھدوانا چاہتا ہوں ، جہاں لوگ مفت پانی پی سکیں ‘‘
شیطان ہکّا بکّا رہ گیا ۔ اس کے منہ پہ برستی پھٹکار میں مزید اضافہ ہو گیا۔ لیکن پھر یکا یک اس نے رنگ بدلا اور یہ کہا'' تیرے جیسا نیک شخص میں نے پوری زندگی نہیں دیکھا‘‘ '' نہیں میرے دوست‘‘ ایغور پاشا نے کہا '' یہ میری نیکی نہیں بلکہ خدا کی رحمت ہے کہ اس نے سونا بنانے والا تیرے جیسا مہمان مجھے عطا کیا ‘‘
یوں شیطان کا آخری وار بھی خالی گیا ۔ پھر ایغور پاشا نے آواز دے کر اسے کہا '' یاد رکھنا ، انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے پینے کا بھی انتظام کرنا ہے ‘‘ وہ جان بوجھ کر یہ بات کر رہا تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ انسانوں کی طرف سے جانوروں پر رحم خدا کے ہاں کتنا پسندیدہ اور شیطان کے لیے کس قدر تکلیف کا باعث ہوگا ۔
شیطان نے کہا، یہ سب لین دین میں منسوخ کرتا ہوں ۔ اس نے اپنا سونا اٹھایا اور چلتا بنا۔ صبح جب بستی والے آئے تو ایغور پاشا اپنے رب کے پاس لوٹ چکا تھا۔ اس کا بستر طلائی ذرات سے اٹا ہوا تھا۔ وہ یہ سمجھتے رہے کہ پاشا نے سونا بنانا سیکھ لیا تھا اور اس کا بوڑھا دل یہ خوشی برداشت نہ کر سکا۔ انہیں کیا معلوم کہ پاشا کی آخری رات کس قدر خوفناک تھی ۔