سوال یہ ہے کہ ایک لاکھ سات ہزار کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے اپنے سورج کا طواف کرتی ہوئی اس زمین پر جب ایک انسان پیدا ہوتاہے تو کس قدر وہ آزاد ہوتاہے اور کتنا مجبور ۔ پیدائش کے پہلے چند برسوں میں ، مکمل طور پر وہ ماں باپ کے رحم و کرم پر ہوتاہے ۔ یہ ماں باپ اس کی آئندہ پوری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ بچّہ مجبور اور بے بس ہوتاہے ۔ اپنی مرضی اور اپنی پسند کے والدین منتخب کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک صوفی کے گھر پیداہو اور ممکن ہے کہ وہ کسی طوائف کے ہاں جنم لے ۔ ایک طوائف کے ہاں پیدا ہونے والے بچّے کو آپ کیا الزام دے سکتے ہیں ؟ ہو سکتاہے کہ آپ معزز خاندان میں پیدا ہونے کی بجائے بھکاریوں میں پیدا ہوتے ۔ پہلے دن سے ہی آپ کو بھیک مانگنے کی تربیت دی جاتی ۔ بچپن ہی سے آپ کو ہاتھ پھیلانے اور التجائیہ صدا لگانی سکھائی جاتی ۔ آپ کو سکول نہ بھیجا جاتا ۔ آپ کو سچ بولنے، ایثار کرنے اور دیگر اعلیٰ انسانی جذبوں کی بجائے جذباتی استحصال کے طریقے سکھائے جاتے ۔اگر آپ معزز خاندان میں پیدا ہوتے ہیںتو بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ آپ کے ماں باپ کے درمیان ذہنی ہم آہنگی موجود ہو۔ ہو سکتاہے کہ باہم وہ جھگڑتے رہتے ہوں ۔ابتدا ہی سے ان میں انا کا تصادم موجود ہو ۔ ایک دوسرے سے بالاخر وہ علیحدگی اختیار کرلیں۔ ایک نوزائیدہ بچّہ ان حالات میں کیا کر سکتاہے ؟ اس کی پوری زندگی اس صورتِ حال میں متاثر ہوتی ہے ۔
اگر آپ ہوش سنبھالنے کے بعد یہ دیکھتے ہیں کہ آپ کے والدین شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں ۔اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے انہیں ایڑیاں رگڑنا پڑتی ہیں۔ معاشی مسائل کی وجہ سے گھر میں اکثر لڑائی جھگڑا رہتاہے تو یہ حالات بھی لازماً بچّے کے ذہن پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔اس کی نفسیات مستقل طور پر مجروح ہوتی ہیں۔وہ ان کے حل کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا۔
بچّہ اپنی ذہنی صلاحیت منتخب کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ذہین (sharp minded)ہو ۔ ہو سکتاہے کہ وہ احمق ہو ، پنجابی زبان میں جسے ''جھلّا‘‘ کہا جاتا ہے۔بعض بچوّں کی حسیں اتنی تیز ہوتی ہیں کہ کتاب کا ایک صفحہ پلٹنے کی آواز پر بھی وہ ردّعمل دیتے ہیں ۔ بعض بہت سست ہوتے ہیں ۔ ان سب چیزوں پربھی بچّے کا ذرّہ برابر اختیار نہیں ہوتا۔ وہ اپنے بہن بھائیوں کے انتخاب میں آزاد نہیں ہوتا۔ یہ بہن بھائی اس کے سوچنے کے انداز اور نفسیات پرمستقل اثرات کا سبب بنتے ہیں ۔ بہن بھائیوں کے علاوہ اپنے رشتہ دار بھی وہ خود منتخب نہیں کرتا۔ان سب لوگوں کے ساتھ زندگی میں اس کا پالا پڑتا ہے ۔اس کی زندگی پر وہ اثر انداز ہوتے ہیں ۔
بچّہ اپنا ماحول منتخب کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اس کے ماں باپ کا سماجی مرتبہ اور مالی حیثیت ہی اس بات کافیصلہ کرتی ہے کہ وہ کس جگہ قیام پذیر ہوگا ۔ کس سکول میں پڑھے گا ۔ سکول میں کون سے طلبہ اس کے ہم جماعت ہوں گے ، اس کا انتخاب بھی اس کے ہاتھ میں نہیں ہوتا ۔ یہ ساتھی طلبہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے اس کے مددگار ہوں گے یا اس کے لیے مشکلات کا باعث ہوں گے ۔ وہ بیچارہ اس ضمن میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔
انسان بہت سی بیماریاں اپنے والدین سے وراثت میں لیتا ہے ۔ اکثر بیماریاں جینز کی شکل میں آگے منتقل ہوتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ کسی بیماری کی وجہ سے ہسپتال کا رخ کرتے ہیں تومعالج دریافت کرتاہے کہ خاندان میں یہ بیماری او ر لوگوں میں بھی پائی جاتی ہے ؟ یہ بیماری بال جھڑنے ، جلد کے مسائل سے لے کر موٹاپے اوربڑی خوفناک بیماریوں تک کچھ بھی ہو سکتی ہے ۔ ماں اور باپ دونوں کو اگر انیمیا مائنر (خون کی کمی ) کا مرض ہو تو اولاد میں انیمیا میجر ہو سکتی ہے ۔ہو سکتاہے کہ بچّے کے خاندان میں شوگر اوربلند فشارِ خون کی بیماریاں عام ہوں ۔ اگر ایسا ہے تو ان میں مبتلا ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے ۔مسلسل کئی نسلوں تک خاندان کے اندر زیادہ شادیاں کرنے کے نتیجے میں کچھ بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ ایک نامی گرامی سرکاری افسر نے ایک بار بتایا کہ کزن میرج کی وجہ سے میری بیٹی ذہنی طور پر معذور پیدا ہوئی۔ میں نے دنیا بھر میں اس کا علاج کرانے کی کوشش کی لیکن اس کا کوئی علاج ہے ہی نہیں ۔ چوہدری شجاعت حسین کو پارکنسن کی بیماری ہے ، جس کی وجہ سے انہیں صحیح طور پر بات کرنے اور حرکت کرنے میں مشکل پیش آتی ہے ۔انہوں نے بھی بالکل یہی الفاظ کہے کہ دنیا بھر سے علاج کرایا ہے لیکن اس کا کوئی علاج ہے ہی نہیں ۔ اسی سے ملتی جلتی بیماری عالمی شہرت یافتہ باکسر محمد علی کو لاحق تھی ۔ وہ شخص جس کا ایک گھونسا حریف کو زمین چٹا دیتا تھا ، اس کے لیے پانی کا گلاس پکڑنا اور بات کرنا بھی ایک مشکل کام بن گیا تھا ۔ ایسے ہر معمولی کام کے لیے اسے غیر معمولی کوشش (struggle)کرنا پڑتی۔ اب فرض کریں ، آپ کی زندگی میں سب کچھ ٹھیک ہے ۔ اچھی ملازمت، صحت ، اچھا دماغ لیکن آپ کے ہاں ایک ذہنی طور پر معذور بچّہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ اب کی آئندہ پوری زندگی پر یہ کس قدر اثر انداز ہوگا ۔
فرض کریں کہ پیدائشی طور پر آپ میں نقص ہوتا ۔ دو ٹانگوں پر سیدھے کھڑے ہونے کی بجائے ، آپ کو چار ہاتھ پائوں پر چلنا پڑتا ۔ ایسے لوگ اس دنیا میں موجود ہیں اور ہمارے درمیان ہی زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر آپ کے ساتھ ایسا ہو تا تو آپ کی زندگی کیسی ہوتی ؟
ان سب چیزوں کا جائزہ لینے کے بعد ، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انسان کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ وہ صرف اور صرف خدا کی طرف سے طے کردہ فیصلوں سے گزرتا رہتا ہے ۔ ہر طرف اللہ ہی اللہ۔ خود ہی انسان کو پیدا کیا۔ خود ہی اس کے دل میں خواہش پیدا کی ۔ خود ہی اسے خواہش کی پیروی کرنے سے منع کیا ۔ خود ہی زمین پر اتارا، خود ہی واپس جانے کی امید دلائی ۔ خود ہی آدم ؑ کے دل پر توبہ نازل کی۔
ہاں ، اگر انسان کے ہاتھ میں کوئی چیز ہے تو وہ درست انتخاب ہے ۔ انسان کو ہمیشہ دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے کی آزادی دی گئی ہے ۔ جو حالات زندگی میں انسان کو پیش آتے ہیں ، ان کا انتخاب کرنے کا حق اسے نہیں ہے لیکن اسے اپنا طرزِ عمل (behaviour)مرتب کرنے کا حق حاصل ہے ۔اسی طرزِ عمل پر خدا ہماری کارکردگی کی جانچ کرتا ہے ۔اسی طرزِ عمل کی بنیاد پر ہمارے نمبر درج ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ کوئی بھی چیز ہمارے بس میں نہیں۔ حتیٰ کہ خیالات بھی انسان خود پیدا نہیں کرتا بلکہ خدا کہتاہے ''فالھمہافجورہا و تقواھا‘‘ اور اس (نفس ) پر بدکاری اور پرہیز گاری (میں نے) الہام کی ۔ یہ اچھے اور برے رجحانات ، برائی کی طرف کشش ، یہ بھی خدا کی طرف سے ہماری آزمائش کے لیے باقاعدہ نازل کیے جاتے ہیں ۔ ہمیں ان دومیں سے ایک کا انتخاب کرنے کی آزادی ہے ۔ انسان کے بس میں بس یہی ہے ۔