"FBC" (space) message & send to 7575

سولہ خوفناک برسوں کی روداد

بعض اوقات زندگی میں ایسا وقت آتا ہے کہ انسان اپنی تمام تر کوشش کے باوجود خود کو درپیش مسئلے کو جڑ سے ختم نہیں کر سکتا۔ مثلاً آپ موٹاپے کا شکار ہیں ۔ خوراک میں کمی، تبدیلی اور ورزش سے بتدریج آپ اضافی وزن سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ جتنی زیادہ محنت ، اتنا بہتر نتیجہ لیکن ہر مسئلہ ایسا نہیں ہوتا، جس میں آپ محنت کر کے اسے جلد حل کر لیں ۔ بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ قبر تک آپ کے ساتھ جاتے ہیں۔ مثلاً خدانخواستہ اگر آپ کے ہاں ایک ایب نارمل بچّہ پیدا ہوتا ہے تو آپ اپنی محنت سے اسے ٹھیک نہیں کر سکتے۔ ہاں سالہا سال کی محنت سے آپ اپنے آپ کو ، اپنی بیوی اور دوسرے رشتے داروں کے روّیے میں اتنی تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں کہ وہ اس بچّے کو صحت مند زندگی گزارنے کے قابل بنا سکیں۔ ایسی زندگی ، جس میں وہ دوسروں پر کم سے کم منحصر ہو تا چلا جائے ۔ یہ ساری زندگی جاری رہنے والی ایک کشمکش ہے ۔ زندگی میں بعض رشتے داروں کے روّیے سے آپ کو تکلیف پہنچتی ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ ان کے دل میں آپ کے لیے حسد اور نفرت ہے ۔ اس کے باوجود رشتے داری کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ آپ کھل کر یہ بات کہہ نہیں سکتے۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ آپ کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ آپ جانتے ہوتے ہیں کہ اندر ہی اندر آپ کے خلاف کوئی نہ کوئی چال وہ چلتے رہتے ہیں لیکن آپ کھل کر یہ بات کہہ بھی نہیں سکتے۔ بعض اوقات ریاست کو بھی ایسے ہی حالات سے گزرنا پڑتا ہے، جن میں حسد کے مارے پڑوسی اور عالمی کھلاڑی اسے تباہ کرنے کے لیے چال چلتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں اپنے بچائو کی کوشش کی وہ کرتی رہتی ہے لیکن کھل کر کچھ کہہ نہیں سکتی ۔ پاکستان ایسے ہی حالات سے دوچار ہے۔
بھارت نے ہمیشہ پاکستان کی تباہی کا خواب دیکھا۔ پاکستان کے ساتھ اس نے جنگیں لڑی ہیں۔ بنگلہ دیش کے قیام میں ایک بڑا کردار ادا کیا ۔ اگر کوئی بھارت کو ایسے مواقع دیتا ہے کہ پاکستان کو وہ غیر مستحکم کر سکے تو اس کا مطلب کیا ہے ؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ پاکستان کی تباہی ان دونوں کی مشترکہ خواہش ہے ۔ اگر یہ بات غلط ہے تو بتائیے کہ افغانستان میں بھارت کی موجودگی کاکیا جواز آپ پیش کر سکتے ہیں؟ سوائے اس کے کہ پاکستان کو وہ زیادہ سے زیادہ تنگ بلکہ زچ کرتا رہے۔ جون 2014ء میں جب پاکستان نے شمالی وزیرستان آپریشن شروع کیا تو بھارت نے مشرقی سرحد پرشدید گولہ باری شروع کردی تھی۔ اس قدر شدید کہ اسے محدود پیمانے کی ایک جنگ کہا جا سکتا تھا۔ امریکہ یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے بھارت کو منع نہیں کیا۔ اسے یہ تک نہیں کہا کہ پاکستانی فوج ہماری مدد کے لیے پاک افغان قبائلی علاقے سے جنگجوئوں کا خاتمہ کر رہی ہے۔شمالی وزیرستان آپریشن امریکہ کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ اسے کہنا چاہیے تھا کہ ایسے نازک موقعے پر بھارت پاکستان کو تنگ نہ کرے ۔ وہ خاموش رہا ۔آخر کیوں ؟ 
افغان جنگ کے سولہ برسوں میں بھی پاکستان کو اپنی نصف فوج ہمیشہ مشرقی سرحد پر تعینات رکھنا پڑی۔ امریکہ نے بھارت سے کہہ کر مشرقی سرحد پر فوجی دبائو کم نہیں کرایا۔ گجرات فسادات کے نتیجے میں ایک عشرے تک جس نریندر مودی کے امریکہ داخلے پر پابندی عائد تھی، اس کے وزیرِ اعظم بننے پر امریکہ نے کسی منفی ردّعمل کا اظہار نہیں کیا۔ کشمیر میں اس دوران سینکڑوں نوجوانوں کو پیلٹ گن سے اندھا کر دیا گیا۔ امریکہ نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ آخر کیوں ؟ 
اس لیے کہ خطے میں امریکی اہداف حاصل کرنے کے لیے بھارت امریکہ کا اصل اتحادی ہے۔ کئی ہفتوں تک ڈوکلام میں چینی اور بھارتی فوج آمنے سامنے کھڑی رہیں اور بمشکل اب کشیدگی میں کچھ کمی آئی ہے ۔ اگر آپ یہ سوال کرتے ہیں کہ پاکستان کو تباہ کر کے امریکہ کو کیا حاصل ہوگا تو میرا سوال یہ ہے کہ لیبیا کو تباہ کر کے امریکہ کو کیا حاصل ہوا‘جس کے پاس کوئی ایٹمی و میزائل پروگرام نہیں تھا۔ صرف کسی حد تک جنگجو ایک فوج ہی تھی۔ جیسے ہی امریکہ نے لیبیا میں مظاہرے ہوتے دیکھتے، حالات اسے سازگار نظر آئے، امریکی سربراہی میں سفاک نیٹو بھیڑیوں کا غول قذافی حکومت پر ٹوٹ پڑا۔ انہوںنے قذافی کو عبرت ناک موت سے دوچار کی۔ آخر کیوں؟
عراق میں کیا ہوا؟ بڑے امریکی جنرل بھی آج یہ کہتے ہیں کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں تھے۔ پھر امریکہ نے عراق میں صدام حسین کی حکومت کو ختم کیوں کیا۔ ان حالات کو جنم کیوں دیا، جن میں داعش پیدا ہوئی۔ پھر کیا یہ ایک اتفاق ہے کہ اسی داعش نے ترکی کے خلاف محاذ کھولا۔ ترک فوجیوں کو زندہ جلایا۔ ترکی میں خودکش دھماکے شروع ہوئے، جس طرح پاکستان میں ہوئے تھے۔ اس بات میں کیا راز ہے کہ ہر وہ مسلمان ملک ، جو مضبوط فوج رکھتاہے ، ایک ایک کر کے اسے تباہ کیا جا رہا ہے۔ پھر ہم کیسے یہ مان لیں کہ افغانستا ن میں امریکہ کی طرف سے بھارت کو ایک بڑا کردار دینا پاکستان کی تباہی کا منصوبہ نہیں ہے؟ جنرل راحیل شریف نے یہ کہا تھا کہ بھارت دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ہماری توجہ بٹا رہا ہے۔ جو بات وہ کہہ نہ سکتے تھے، وہ یہ کہ یہ سب امریکی آشیرباد سے ہو رہا ہے ۔ 
حالات کے جبر میں، سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہمیں لا علمی ظاہر کرنا پڑی۔ہماری قیادت کھل کر کبھی نہ کہہ سکی کہ امریکہ پاکستان کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ حالات کے جبر نے اسے مجبور کیا کہ امریکی چھتری تلے نشو ونما پانے والے گروہوں سے برسرِ پیکار رہنے کے باوجود اپنے لبوں پہ شکایت کا ایک حرف نہ آنے دے ۔ وہ لوگ، جنہوں نے پاک فوج کو امریکی غلام قرار دیا، جنہوں نے یہ فتوے دئیے کہ دہشت گردوں سے لڑنے والے پاکستانی فوجی شہید نہیں، انہوں نے اس کے زخموں پر نمک چھڑکا ۔ وہ اپنے بیوی بچوں کو حالات کے سپرد کر کے محاذ پر لڑتے رہے۔ شہیداور معذور ہوتے رہے۔ آج ایک بیٹی کا باپ ہونے کے ناتے، اگر مجھے کوئی ہیرے جواہرات کے ڈھیردے ، تب بھی میں محاذ پر لڑنے نہ جائوں۔ میں مشیہ کو اپنے سائے سے محروم نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے بچوں کو کیسے چھوڑ دیتے ہیں ؟ یہ بڑا دل گردے کا کام ہے۔ 
آج پلٹ کر اگر ان سولہ خوں ریز برسوں پر ایک نظر دوڑائیں ، پاک فوج جن سے گزری ہے اور پاکستانی ریاست جن سے گزری ہے تو کلیجہ حلق میں آجاتا ہے ۔ 2009ء میں سوات، جنوبی وزیرستان ، شمالی وزیرستان ، قبائلی علاقے، کراچی ، بلوچستان سمیت ملک بھر میں یا تو دہشت گردوں کی متوازی حکومتیں وجود میں آچکی تھیں یا پھر ''را‘‘ سے امداد لینے والی الطاف حسین کی ایم کیو ایم جیسے گروہ حکومت میں تھے ۔ مشرقی سرحد پر بھارت کو اس کی حدود میں رکھنا، مغربی سرحد پر بھارت ، افغان، امریکہ اور نیٹو فوجیوں کو یہ یقین دلانا کہ پاکستانی فوج بھرپور چوکس ہے ۔ کراچی میں رینجرز آپریشن کرنا اور بتدریج قوم کو یہ یقین دلانا کہ الطاف حسین کی سرپرستی ایم آئی سکس اور ''را‘‘ کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ وہ کیسے کر گزری ۔ یہ ایسے محیر العقل کارنامے ہیں کہ امریکہ ، بھارت اور عالمی برادری تو ایک طرف، میرے جیسے ایک پاکستانی شہری کو بھی جس کی سمجھ نہیں آرہی ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں