"FBC" (space) message & send to 7575

اُمتیں

چالیس پچاس ہزار سال پہلے جب انسان نے شعور کی آنکھ کھولی ، تب اس کے پاس وقت بہت کم تھا۔ وہ طلوعِ آفتاب سے لے کر غروبِ آفتاب تک ہی کام کر سکتا تھا کہ بجلی تھی اور نہ اس سے کام کرنے والے آلات۔ اکثر بیماریاں لا علاج تھیں ۔ ظہیر الدین بابر اور سکندرِ اعظم جیسے فاتح جوانی میں فوت ہوئے ۔ کسی کی نظر کمزور ہوتی تو وہ شدید خطرات سے دوچار ہو جاتا کہ خطرے کا اسے دیر سے ادراک ہوتا۔ ہزاروں سالوں تک جسمانی قوت اور جتھے بازی ہی سب سے فیصلہ کن عوامل تھے ۔ ظہیر الدین بابر کی خودنوشت بھی پڑھیں جو کہ کوئی اتنی پرانی بات نہیں تو ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومتیں کہیں تھیں ہی نہیں۔مقامی سطح پر طاقتور سردار کسی کے ساتھ جو کرنا چاہتا کر گزرتا ۔ موبائل فون تھے اور نہ انٹرنیٹ ۔ کابل میں پیش آنے والے واقعے کی خبر ہفتوں بعد دہلی تک پہنچتی ۔
شروع ہی سے انسان جانوروں سے فائدہ اٹھاتا آیا ہے ۔ وہ ان پر سواری کرتا، ان کا دودھ پیتا اور ذبح کر کے گوشت کھا جاتا ۔ ان جانوروں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ہر سال عید پر دنیا بھر میں لاکھوں جانوروں کی قربانی کے باوجود ان کی نسل اسی طرح قائم و دائم ہے ۔ شروع شروع میں جب انسان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا ، تب اس کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ جانوروں کی زندگی پر تحقیق کر سکتا۔ وہ تو بس انہیں اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ آخر جب وہ ساری سہولتوں سے اپنا دامن بھر چکا تو پھر آدمی نے سوچا ، ذرا ان جانوروں کی زندگی پر بھی ایک نظر ڈالوں ۔ کس طرح یہ اپنی ضرورتیں پوری کرتے ہیں ۔ گروہوں کے اندر کس طرح زندگی 
گزارتے ہیں ۔ نیشنل جیو گرافک، بی بی سی اور دوسرے اداروں نے جانوروں پر تحقیق کے لیے ادارے قائم کیے ۔ان تحقیقات کے نتائج حیران کن تھے ۔ یہ جانور ، جو آج تک انسان کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتے آئے ، جو بجلی یا دوسری کوئی ایک بھی مفید ایجاد نہ کر سکے ، ایک مکمل ضابطہ ء حیات کے تحت زندگی گزار رہے تھے۔ اس قدر سختی اور عقلمندی کے ساتھ وہ کچھ اصولوں کی پابندی کر رہے تھے ، جو کہ سمجھ میں نہ آنے والی بات تھی ۔ ان مغربی اداروں میں ایک خامی یہ تھی کہ وہ جانداروں اور کائنات کی ہر شے کا باریک بینی سے جائزہ ضرور لیتے ہیں لیکن وہ صرف اور صرف '' کیا ‘‘ تک محدود رہتے ہیں ۔ ''کیوں ‘‘ کی بات ان سے کبھی نہیںسنی ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ''کیوں ‘‘ پھر مذہب ہی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہر شے پھراسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایک عظیم منصوبہ ساز اور عالیشان خالق ہر چیز ایک مکمل منصوبے کے تحت پیدا کر رہا ہے ۔ مذہب سے وہ اس لیے بیزار ہیں کہ ایک طویل عرصے تک چرچ نے مغرب پر ایک ظالمانہ حکومت کی تھی ۔ اس لیے لاشعوری طور پر وہ ''کیوں ‘‘ کی طرف جاتے ہی نہیں ۔ 
مغربی تحقیقاتی اداروں نے ان جانوروں کے اوپر تفصیل سے تحقیق کی۔ گروہ میں ہر بھیڑیے کو ایک الگ نام دیا۔ ان پر نشانیاں لگائیں ۔ ہر طرف سے ان پر کیمرے نصب کر دئیے ؛حتیٰ کہ نشہ آور انجکشن ایک بندوق کے ذریعے فائر کر کے بھیڑیے کو بے ہوش کیا۔ اس کی گردن میں کیمرا نصب کیا ۔ یوں انہیں تفصیلی معلوما ت حاصل ہوئیں ۔ معلوم ہوا کہ بھیڑیوں کے ہر غول میں ایک غالب نر اور ایک غالب مادہ ہیں ۔ انہیں '' الفا میل ‘‘اور ''الفا فی میل ‘‘کا نام دیا گیا۔ صرف انہی دونوں کو نسل آگے بڑھانے کا حق حاصل ہے ۔ ( یہ دونوں جسمانی طور پر طاقتور ہیں اور ان کی اولاد بھی صحت مند پیدا ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں )۔ دوسرے بھیڑیے اس گروہ میں کارکن کے طور پر کام کرتے ہیں ۔ وہ مل کر شکار کرتے ہیں ۔ الفا میل اور فی میل کے سامنے وہ اپنی کمتری کا اظہار سر جھکا کر اور زمین پر لیٹ کر کرتے ہیں ۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا لیکن سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اگر کہیں دور سے وہ شکار کر کے ، گوشت کھا کر آتے ہیں تو پھر الفا میل اور فی میل کے بچوں کے لیے وہ اپنے معدے میں سے خوراک منہ کے راستے واپس نکالتے ہیں اور بچّے یہ خوراک بغیر کسی کراہت کے کھا جاتے ہیں ۔ 
ایک لمحے کو ذرا سوچیے تو دماغ سکتے میں آجاتا ہے ۔ ایک خونخوار بھیڑیا، دوسرے بھیڑیے کی اولاد کو اپنی نگلی ہوئی خوراک اگل کر دے رہا ہے ۔ ایک درندہ اپنی نسل آگے بڑھانے کے حق سے دستبردار ہو رہا ہے ۔اگر غلطی سے غالب نر اور غالب مادہ کی جگہ کوئی اور نر اور مادہ بچّے پیدا بھی لیں تو گروہ اسے قبول نہیں کرتا۔موت ہی ان بچوں کا مستقبل ہوتی ہے ۔بھیڑیوں کے علاوہ جنگلی کتے بھی کم و بیش انہی اصولوں کے تحت زندگی گزارتے ہیں ۔ 
شتر مرغ بھی حیران کن کام کرتے ہیں ۔ علاقے میں جو سب سے طاقتور نر اور سب سے طاقتور مادہ ہوتے ہیں ، صرف انہیں گھونسلا بنانے کا حق ہے ۔ وہ اپنے گھونسلے میں انڈے دیتے ہیں اور علاقے کی دوسری مادہ شتر مرغ بھی انہی کے گھونسلے میں انڈے دیتی ہیں ۔ انڈہ دینے کے بعد ان کا مستقبل میں اس سے نکلنے والے بچّے سے کوئی تعلق نہیں ہوگا بلکہ انڈے رکھنے کے بعد اب وہ ایک اجنبی ہیں ۔ یہ دونوں طاقتور نر اور مادہ ہی اپنے اور دوسرے کے آٹھ دس بچّوں کی کفالت کرتے ہیں ۔ سب سے زیادہ طاقتور ماں باپ ہونے کی وجہ سے بچوں کے محفوظ رہنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے ۔
یہاں ایک لمحے کے لیے غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اپنے دائر ئہ کار میں وہ سب انتہائی سختی سے ان طے شدہ اصولوں کے تحت زندگی گزار رہے ہیں ، جن میں ان کی بقا کا راز چھپا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ان جنگلی جانوروں کو، جو آج تک انسان کو اپنا استحصال کرنے سے روک نہ سکے ، انہیں یہ پیچیدہ اصول کس نے سکھائے ۔ چیونٹیوں سے لے کر ہاتھی تک ، سبھی جاندار ان اصولوں کی پابندی کر رہے ہیں۔ شیروں میں نر بچّے جب ایک خاص حد تک بڑے ہوجاتے ہیں تو انہیں اپنے گروہ سے نکال دیا جاتا ہے ۔ ایسے نر بچے پھر مل کر شکار کرتے ہیں ۔ اپنی قوت تک پہنچنے کے بعد وہ شیروں کے کسی ایسے گروہ پر حملہ کردیتے ہیں ، جن میں محافظ نر شیر کمزور یا زخمی ہوں ۔ انہیں وہ مار بھگاتے ہیں ۔ اس کے بعد چن چن کر ان نر شیروں کے بچّوں کو قتل کرتے ہیں ۔ شیرنیاں کچھ دن غصے میں رہتی ہیں ، پھر انہیں اپنے جیون ساتھی کے طور پر قبول کر لیتی ہیں اور ان کے بچّوں کو جنم دیتی ہیں ۔
گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی میں یہ ساری معلومات انسان کی دسترس میں آئی ہے ۔ پرندوں پر غور کریں تو اسی طرح ایک مکمل ضابطہ ء حیات کے تحت وہ بھی اپنی زندگی گزار رہے ہیں ۔ بالآخر انسان اسی نتیجے پر پہنچتا ہے '' اور نہیں کوئی زمین میں چلنے والا جانور اور نہ کوئی پرندہ جو اپنے پروں پر اڑتا ہے مگر وہ سب تمہارے جیسے گروہ /جماعتیں ہیں ۔ ہم نے کتاب میں کسی چیز (کے لکھنے) میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ پھر سب اپنے پروردگار کی طرف جمع کیے جائیں گے ۔سورۃ الانعام :38۔
سبحان تیری قدرت، سبحان تیری قدرت!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں