"FBC" (space) message & send to 7575

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

ہمارے گرد و پیش میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ دنیا اور اس کے تمام معاملات کن بنیادوں پر چل رہے ہیں۔ ایک بڑی تصویر دیکھنا بہت مشکل ہے۔ انسان کے لیے ہر عمر میں کامیابی کے معیار مختلف ہیں۔ آٹھ دس ماہ کے بچّے کے لیے کامیابی یہ سمجھی جاتی ہے کہ وہ پہلا قدم اٹھائے اور پہلا لفظ بولنے کی کوشش کرے۔ پھر سکول میں اچھے نمبروں سے پاس ہونے والا کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ فرسٹ آنے والا کامیاب ترین۔ بیس سے پچیس سال کی عمر میں تعلیم مکمل کرنے والا کامیاب ہے۔ پھر جلدی کمانے والا کامیاب ترین سمجھا جاتا ہے، بے شک سکول میں وہ مشکل ہی سے پاس ہوتا ہو اور وہاں وہ ایک ناکام شخص سمجھا جاتا ہو۔ جتنا زیادہ وہ کماتا ہے، وہ اتنا ہی زیادہ کامیاب ہے۔ یہ عمر گزر جاتی ہے۔ شادی اور بال بچوں کی ذمہ داریاں اٹھانا ہوتی ہیں۔ جب ہم پچاس سال کی عمر سے گزر جاتے ہیں تو پھر جسمانی طور پر فٹ رہنا، بلڈ پریشر اور شوگر وغیرہ سے محفوظ رہنا کامیابی ہے۔ موٹا نہ ہونا کامیابی ہے۔ 70سے 80سال کی عمر میں کامیابی یہ ہے کہ انسان آہستہ آہستہ چلتا ہوا، اپنے سارے کام خود کر سکے۔ 100سال کی عمر میں کامیابی پر غور کریں تو انسان ہکا بکا رہ جاتا ہے۔ ایک بار میں ایک 90، 95 سالہ ایک خاتون سے ملا۔ لوگ اس کا ذکر یوں کر رہے تھے‘ جیسے وہ غیر معمولی طور پر کامیاب ہو اور یہ کامیابی کیا تھی؟ وہ اپنا کھانا خود بناتی تھی اور کسی کی مدد کے بغیر رفع حاجت خود کر لیتی تھی۔ آہستہ آہستہ چلنے کے قابل تھی۔ یہ ہے ایک صدی دیکھنے والے بوڑھو ںکی غیر معمولی کامیابی جو کہ پندرہ بیس سال کی عمر والے سب افراد کو میسر ہے۔
کامیاب شخص کے ساتھ لوگوں کا روّیہ بدل جاتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ احترام سے پیش آتے ہیں۔ وہ شخص جو اپنی عمر کے حساب سے ناکام ہے، بتدریج لوگوں کی ملامت، طنز اور مذاق کا نشانہ بن جاتا ہے۔ یہاں میں ایک حقیقت (fact) پر تبصرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انسان آج دنیا میں جو کچھ بھی کر رہا ہے‘ خواہ اینٹیں بنانے سے لے کر سونے کے زیورات بنانے تک اور خواہ لوہے کا انجن بنانے سے تیل کی توانائی استعمال کرنے تک، وہ سب کیا ہے؟ آپ زمین سے مٹی اٹھا کر اس کی اینٹیں بنا لیتے ہیں۔ زمین سے پتھر اٹھا کر، ان کو پیس کر ان کا سیمنٹ بنا لیتے ہیں۔ آپ زمین کھود کر کر تیل نکال کر اسے جلا کر توانائی حاصل کر لیتے ہیں۔ آپ زمین کھود کر لوہا نکال کر اس کا انجن بنا لیتے ہیں۔ آپ زمین پر کپاس اگا کر‘ اس کا لباس بنا لیتے ہیں۔ آپ زمین کے اوپر چلنے پھرنے والے جانوروں کو ذبح کر کے ان کا گوشت کھا لیتے ہیں۔ ان کی کھال سے جوتے بنا لیتے ہیں۔ اس سب میں انسان کا کمال کیا ہے؟ وہ سب چیزیں جو زمین کے اوپر اور اس کی سطح سے نیچے رکھ دی گئی تھیں، انسان ان سے فائدہ ہی تو اٹھا رہا ہے۔ کوئی ایسا شعبہ بتا دیں، جس میں انسان زمین پر پہلے سے موجود وسائل استعمال نہ کرتا ہو بلکہ خود سے وسائل ایجاد کر رہا ہو۔
رہی services کی بات تو دو دماغ ہیں۔ ایک چمڑے کے کاروبار میں چلاجاتا ہے، ایک دانتوں کے بارے میں پڑھتا ہے۔ پہلا دوسرے کو چمڑے کے جوتے بنا کر دے دیتا ہے۔ دوسرا پہلے کے دانت میں درد کو ٹھیک کر دیتا ہے۔ اس میں کون سی غیر معمولی بات ہے۔ غیر معمولی اگر کوئی چیز ہے تو وہ انسانی ذہانت ہے اور یہ ذہانت اس نے خود ایجاد نہیں کی بلکہ پیدائشی طور پر اس میں رکھی گئی ہے۔ میں نے اس بات پر بہت غور کیا کہ روز ہم اتنی محنت کر کے کچھ کما کے آتے ہیں۔ پھر وہ ذاتِ قدیم یہ کہتی ہے کہ یہ رزق تو میں نے تمہیں دیا۔ اس میں سے نیکی کے کاموں میں خرچ کرو۔ میں سکول گیا، کالج گیا، یونیورسٹی سے ڈگری لی، ملازمت ڈھونڈی اور پھر مجھے پیسے ملے تو وہ کیسے کہہ دیتا ہے کہ یہ سب کچھ تو میں نے تمہیں دیا ہے۔ ایک روز میں باہر نکلا۔ سردی کا موسم تھا۔ ایک کتیا اپنے تین بچوں کو دودھ پلا رہی تھی۔ جب ان پلوں نے دودھ پی لیا تو پھر وہ سب جُڑ کر بیٹھ گئے کہ سردی سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ میں سوچتا رہ گیا کہ کروڑوں سالوں میں اس کتیا کی کتنی نسلوں نے اس زمین پر اپنی زندگی گزاری ہوگی۔ کون ہے جو موت سے قبل اس کی تمام تر ضروریات پوری کر رہا ہے۔ ہر بھینس اور ہر کوّے کی۔ ہر بچھو اور ہر بیکٹیریا کی۔ ایک بھینس سے اگر انسان کا مکالمہ ہو تو ہم کیسے اسے یقین دلا سکتے ہیں کہ ہم اس سے بہتر ہیں۔ وہ کہے گی کہ کھانا میں بھی کھاتی ہوں، کھانا تم بھی کھاتے ہو۔ بچّے میں بھی پیداکرتی اور پالتی ہوں اور بچے تم بھی پیدا کرتے اور پالتے ہو۔ بوڑھی میں بھی ہوتی ہوں، بوڑھے تم بھی ہوتے ہو۔ پھر آخر میں مَر میں بھی جاتی ہوں، مر تم بھی جاتے ہو۔
انسان کہہ سکتا ہے کہ تم کیچڑ میں بیٹھتی ہو، میں صاف کرسی پر بیٹھتا ہوں۔ وہ کہے گی کہ ٹھنڈے کیچڑ میں بیٹھنا اسے اچھا لگتاہے اور وہ اس میں اس سے زیادہ سہولت کے ساتھ بیٹھی ہوتی ہے ، جتنی سہولت کے ساتھ انسان کرسی پر بیٹھتے ہیں۔ ایک کچے کمرے اور چارے سے بھری ہوئی کھرلی میں اسے تمام تر اطمینان نصیب ہو جاتا ہے۔ اسے کوئی بھی حسرت نہیں ہے۔ اسے کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ وہ دوسرے لوگوں کو دیکھ کر حسد میں مبتلا نہیں ہوتی۔ تم نے مجھے اور میرے کٹے کو باندھ کر رکھا ہوا ہے ۔ اسے اسی وقت کھولتے ہو، جب میرا دودھ دوہنا مقصود ہو۔ اس کے باوجود میں اس طرح سے depressed نہیں ہوتی، جیسے تم ہوتے ہو۔
انسان کے پاس صرف ایک راستہ رہ جاتا ہے کہ ہار ماننے والا تو وہ ہے نہیں۔ وہ یہ کہے گا کہ میں سب سے خاص الخاص مخلوق ہوں۔ میں عقل کی مدد سے خدا کو ڈھونڈتا ہوں۔ میں اس پر ایمان لاتا ہوں۔ میں اس کی عبادت کرتا ہوں۔ میں ایثار کرتا ہوں۔ میں اپنے کمائے ہوئے میں سے کمزوروں پر خرچ کرتا ہوں۔ میں اپنا اکٹھا کیا ہوا کھانا لوگوں میں تقسیم کر دیتا ہوں۔ اگر تو ہم بھینس کو یہ کہہ سکیں تو پھر تو ٹھیک ہے لیکن اگر یہ الفاظ ہمارے گلے پھنس گئے۔ اگر بھینس نے جواب میں یہ کہا کہ میاں‘ مجھے اچھی طرح معلوم ہے، تم ان سب کاموں میں سے کوئی کام بھی نہیں کرتے۔ اس لیے تم بھی میرے جیسے ایک جانور ہو بلکہ تم تو مجھ سے بدتر ہو۔ وہ ایسے کہ مجھے عقل نہیں دی گئی اور میں جبلتوں پر زندگی گزارتی ہو ں۔ تمہیں عقل اور جبلت دونوں دی گئی ہیں۔ تم عقل پر زندگی نہیں گزارتے، جبلت پر گزارتے ہو ۔ اگر اس نے یہ کہہ دیا تو پھر ؎
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں