"FBC" (space) message & send to 7575

کرشمے

بطور ایک قوم افواہوں اور سازشی تھیوریز پر ہم اس قدر زیادہ یقین کیوں رکھتے ہیں ؟ اس کا جواب ہے کہ تعلیم کی اور عقل کی شدید کمی ہے ۔ روایتی رٹا مار سسٹم میں جو لوگ تعلیم پاتے بھی ہیں ، ان میں سے بہت کم کبھی اپنے دماغ سے کام لیتے ہیں۔ ویسے اپنے دماغ سے کام لینے والے ہر معاشرے ہی میں گنے چنے لوگ ہوتے ہیں ۔ ایسا ایک شخص اقبال ؔ کی مانندپوری قوم کی رہنمائی کر سکتا ہے ۔ پیدائشی طور پر انسان توہم پرست واقع ہوا ہے ۔ اس کی وجہ دماغ کے اندر موجود خوف ہے۔ یہ ہر جاندار کے اندر موجود ہے ۔خوف کی وجہ سے ہی جاندار اپنی زندگی کی حفاظت کرتے ہیں ۔ انسان چونکہ اعلیٰ ذہانت سے مالا مال ہے ؛لہٰذا وہ دو واقعات کو ایک دوسرے سے جوڑ لیتاہے اور relate کر کے دیکھنے لگتا ہے ۔ اگر ایک شخص بستر پر دم توڑتا ہے اور سامنے دیوار پر الّو بیٹھا ہے تودیکھنے والے ان دونوں کو ملا کر دیکھ سکتے ہیں ۔ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ الّو منحوس پرندہ ہے ۔ ایسے واقعات دو تین بار پیش آجائیں اور کئی لوگ ان کے گواہ ہوں تو پھر الّو کی نحوست اجتماعی یادداشت کے اندر درج ہو جاتی ہے ۔ اب جب بھی کوئی مرے گا، سب لوگ درختوں میں ، ادھر ادھر کوئی الّو تلاش کریں گے ۔ جب اس شدت سے وہ اسے ڈھونڈیں گے تو الّو یا الّو نما کوئی پرندہ انہیں دکھائی دے ہی جائے گا۔ یہ واقعہ ا س لیے مجھے یاد آیا کہ ایک روز شام کو میں اپنے ڈیرے سے واپس جا رہا تھا کہ ایک پرندہ اڑتا ہوا آیا اور گاڑی سے ٹکرا کر گر گیا۔ میں نے اتر کر دیکھا تو الّو کی طرح کا کوئی پرندہ تھا۔ میں اسے لے کر اپنے دوست اور ملازم شوکت کے پاس گیا۔ اس نے بتایا کہ یہ تو اتنا منحوس پرندہ ہے کہ جب بھی اپنا دیدار کرائے، ایک بندہ لے کر ہی جاتا ہے ۔ تھوڑی دیر میں وہ ''منحوس ‘‘ جو ہر دفعہ ایک بندے کو لے کر ہی جاتا تھا، خود مر چکا تھا ۔ 
ہمارے معاشرے میں ایک عام یقین (Belief)یہ ہے کہ معدے کی بیماری سب بیماریوں کی جڑا ہے۔ کچھ کا کہنا یہ ہے کہ قبض بیماریوں کی ماں ہے ۔ ایک دفعہ میرے ایک دوست نے بتایا کہ پتّے میں پتھری قبض کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پہلے قبض سے معدہ خراب ہوتا ہے ، اس کے بعد پتے میں پتھری بن جاتی ہے ۔ اس نے ایک سفوف (پھکی )بھی تیار کر رکھا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جو بھی یہ سفوف لے گا، وہ پتے کی پتھری سے محفوظ ہو جائے گا ۔ برسبیلِ تذکرہ ، وہ میٹرک فیل تھا ۔یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ معدے کا الگ سے کوئی سپیشلسٹ نہیں ہوتا۔ پڑھے لکھے افرادماہرِ نظامِ انہضام کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ، جس میں خوراک کی نالی سے لے کر آنتیں تک شامل ہیں ۔ معدہ اس پورے نظام کا ایک حصہ ہوتا ہے ، جس کا کام خوراک کو پیس کر چھوٹی آنت میں منتقل کرنا ہے۔ معدہ خراب ہو جائے تو جسم کا سارا نظام متاثر ہوتا ہے۔ ڈپریشن بڑھنے لگتا ہے جو معدے کو مزید خراب کردیتا ہے‘ رہی سہی کسر ہماری روز مرہ کی خوراک نکال دیتی ہے۔ لائف سٹائل ہم تبدیل نہیں کرتے اور یوں اس گھن چکر سے نکل نہیں پاتے۔
بچپن سے ہم چائے کے نقصانات سنتے آرہے ہیں ۔ چائے پیتے ہوئے ہمیشہ ایک احساسِ جرم ہمارے ساتھ ہوتا ہے ۔ ایک دفعہ میں نے اپنے ایک مہربان سے پوچھا کہ چائے کے خلاف جو ایسی مہم چلتی رہتی ہے ، آخر اس کا نقصان ہے کیا؟ اس نے کہا، جس طرح چائے خود گاڑھی گاڑھی سی ہوتی ہے ، اسی طرح وہ خون کو بھی گاڑھا کر دیتی ہے ۔ افسوس کہ اس وقت کوئی پتھر پاس نہیں تھا ورنہ میڈیکل سائنس کے اس قتلِ عام کا بدلہ میں ضرور لیتا۔ ہاں ، یہ بات ضرور ہے کہ زیادہ کڑھی ہوئی چائے اگر بندہ روزانہ دس بارہ کپ پیتا رہے تو معدے میں تیزابیت اور مثانے و گردے وغیرہ میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ۔ دو تین پیالیوں سے کچھ نہیں ہوتا؛البتہ چینی زیادہ نقصان دہ ہے۔ یہ موٹاپے کا باعث بنتی ہے اور موٹاپا بیماریوں کی اصل ماں ہے ۔افسوسناک صورتِ حال یہ ہے کہ زیادہ کھانے کو اور موٹاپے کو ملک میں اور بالخصوص پنجاب میں صحت مندی کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ 
جہاں بھی سپلائی زیادہ ہوگی، مال کی قیمت گر جائے گی ۔پاکستان میں آبادی (اور غربت )یعنی مریضوں کی سپلائی اس قدر زیادہ ہے کہ انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں رہی ۔حکیم حضرات کو انسانی جان سے کھیلنے کی مکمل آزادی ہے ۔ ٹی وی پر ڈاکٹر کہتا ہے کہ آپ کے دل کی تین شریانیں بند ہیں اور آپ کو آپریشن کرانا پڑے گا۔ مریض کہتا ہے کہ اس کے پاس تو آپریشن کرانے کے لیے سرمایہ موجود نہیں ۔ ڈاکٹر کہتا ہے کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ، ''اسلامی نسخۂ قلب‘‘ استعمال کیجیے ۔ اس کے علاوہ مارکیٹ میں دستیاب ہے ''اسلامی شہد ‘‘، جو غالباً صالح مکھیاں کشید کرتی ہیں ۔ وہ حکما والی بات بیچ میں ہی رہ گئی ۔ طبِ یونانی کے اشتہار ہر طرف آویزاں ہیں بلکہ پرنٹ کرا کے بسوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں ۔ '' اگر آپ کا قد چھوٹا ہے ، یا گنج پن کا شکار ہیں یا بچپن کی غلط کاریوں کی وجہ سے آپ کے گال پچکے ہوئے اور وزن کم ہے تو آئیے طبِ یونانی کے ایک کورس سے جملہ بیماریوں سے نجات پائیں‘‘ ۔ یا پھر سنڈے میگزینز میں زندگی کے تمام مسائل کا حل بنگال کے جنگلات میں پچاس سال تک چلہ کاٹنے والے بنگالی باباجی سے لے لیں۔ برسبیلِ تذکرہ،بچپن کی غلط کاریوں کا کوئی بھی تعلق پچکے ہوئے گالوں اور کمزور جسم سے نہیں ہوتا۔ تقریباً سبھی لوگ جب جنسی بلوغت پاتے ہیں (اور بالخصوص جنہیں اس سلسلے میں رہنمائی نہیں ملتی ) تو وہ اس دور کے تجربات سے گزرتے ہیں ۔ اندر دھنسے ہوئے گالوں کی زیادہ تر وجہ یہ ہوتی ہے کہ26, 27سال کی عمر تک، جب تک بڑھنے کی عمر ہوتی ہے تو انسان سُکّا سڑا ہی ہوتا ہے ۔ تیس کے عشرے میں آکر اس کا وزن بڑھنا شروع ہوتا ہے ۔ اس کے بعد اسے یہ تو معلوم نہیں ہوتا کہ اب خوراک کو مکمل طور پر بدل دینا چاہیے؛ لہٰذا باقی عمر اسے موٹاپے کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ صرف پانچ فیصد لوگ ہیں، جو موٹاپے کی وجوہ کو سمجھتے اور اس سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ باقی سمارٹ ہونے کے لئے ایسے ایسے ردی قسم کے نسخے استعمال کر بیٹھتے ہیں کہ ان کا وزن کم ہونے کی بجائے بڑھنے لگ جاتا ہے۔
میرے سسرال مصریال میں ایک سکھ حکیم کا ڈنکا ایک پورا سال بجتا رہا۔ روزانہ کے حساب سے اس کی کوئی نئی کرامت سننے میں آتی۔ کسی کے موٹاپے میں تیزی سے کمی ہو رہی تھی ، کسی کی نیند ٹھیک ہو رہی تھی۔ آخر ایک روز میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر وہ حکیم اُڑنا بھی شروع کر دے ، تب بھی اس سے کسی صورت علاج نہیں کرانا۔ بنیادی اعتراضات دو تھے۔ اوّل یہ کہ کبھی ایک شخص تمام اعضا کا ماہر نہیں ہو سکتا ۔کینسر اور گنج پن دو بالکل مختلف چیزیں ہیں ۔ ان دونوں کا ماہر ایک شخص نہیں ہو سکتا۔ دوسرا یہ کہ حکیم اگر تیزی سے چمتکار دکھا رہا ہے تو پھر وہ steroidsاستعمال کر رہا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہو تو آپ یہ بتائیں کہ دنیا کی سب سے جدید ، تحقیق یافتہ میڈیکل سائنس ایلو پیتھی کو کیا پڑی ہے کہ وہ تیزی سے آپ کے موٹاپے میں کمی نہ لائے۔ بغیر آپریشن صرف دوا سے گردے کی پتھری نہ نکالے۔ کچھ عرصے بعد ایک مریضہ محفوظ بی بی حکیم صاحب کے ہاتھوں مرتے مرتے بچیں ۔ اس کے بعد سے حکیم صاحب کے معجزے سننے میں نہیں آرہے ۔

اگر ایک شخص بستر پر دم توڑتا ہے اور سامنے دیوار پر الّو بیٹھا ہے تودیکھنے والے ان دونوں کو ملا کر دیکھ سکتے ہیں۔ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ الّو منحوس پرندہ ہے ۔ ایسے واقعات دو تین بار پیش آجائیں اور کئی لوگ ان کے گواہ ہوں تو پھر الّو کی نحوست اجتماعی یادداشت کے اندر درج ہو جاتی ہے ۔ اب جب بھی کوئی مرے گا، سب لوگ درختوں میں ، ادھر ادھر کوئی الّو تلاش کریں گے ۔ جب اس شدت سے وہ اسے ڈھونڈیں گے تو الّو یا الّو نما کوئی پرندہ انہیں دکھائی دے ہی جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں