"FBC" (space) message & send to 7575

خوف اور امن

خوف وہ سب سے بڑا اور بنیادی جذبہ ہے، جس کی بنیاد پر اس سر زمین پر تمام جاندار اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ خوف نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ زندگی میں دو‘ تین بار مشاہدہ ہوا کہ اگر کو ئی‘ دشمن یا جان کے خوف میں مبتلا ہو تو اس کا وزن تیزی سے گرتا ہے؛ حالانکہ وزن کم کرنا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ یہ خوف ہر ایک جاندار میں پایا جاتا ہے۔ خواہ وہ ایک مزدور ہے یا بہت بڑا تاجر، وہ سیاستدان ہے یا جنرل، وہ بچّہ ہے یا جوان، وہ مرد ہے یا عورت۔ اگر وہ صاحبِ جائیداد ہے تو جائیداد چھن جانے کا خوف۔ اگر وہ تنگ دست ہے تو بھوکا مر جانے کا خوف۔ اگر وہ خوشحال ہے تو بھی دوسروں سے (اپنے سے زیادہ مالدار لوگوں سے) پیچھے رہ جانے کا خوف۔ اگر اس کے پاس نعمتیں ہیں تو ان کے چھن جانے کا خوف۔ اگر نعمتیں نہیں ہیں تو ساری زندگی غریبی میں گزر جانے کا خوف۔
سب سے بڑا اور بنیادی خوف اپنی جان کا خوف ہوتا ہے۔ آپ ایک بلی یا کتے کو اٹھا کر چھت سے نیچے کا منظر دکھائیں۔ فوراً ہی گرنے کے خوف سے اس کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ یہ خوف پیدائشی طور پر سب میں موجود ہوتا ہے۔ اسی خوف کی وجہ سے جاندار زندگی کی حفاظت کرتے ہیں۔ اگر یہ خوف نہ ہوتا تو لوگ بے دریغ اپنی زندگیاں ختم کرتے۔ اب بھی بعض لوگ ایسا کرتے ہیں لیکن صرف ایک یا دو فیصد۔ چھ‘ سات سال پہلے کی بات ہے، میں اپنی چند ماہ کی بھتیجی عائلہ کو اٹھا کر شام کے وقت گھر سے نکلا۔ راستے میں ایک کتیا نے بچّے دے رکھے تھے اور وہ غرّا رہی تھی۔ اس کی غرّاہٹ سن کر عائلہ کا رواں رواں خوف سے کانپ اٹھا۔ اس نے رونا شروع کیا اور مجھے واپس جانا پڑا؛ حالانکہ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ چھ سات ماہ کی بچّی کو کتّوں اور ان کی آوازوں کا علم ہی نہیں ہوگا، کجا یہ کہ وہ ان سے خوفزدہ ہو۔ اس روز پتا چلا کہ جبلی اور پیدائشی طور پر خوف انسان میں رکھ دیا گیا ہے بلکہ دوسرے جانداروں میں بھی۔
انسانوں میں خوف دوسرے جانداروں سے زیادہ ہے۔ یہ مستقل طور پر دماغ میں ٹھکانا بنا لیتا ہے اور اسے ڈپریشن کا مریض بنا دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے جانور مستقبل کے بارے میں نہیں سوچ سکتے۔ وہ جبلتوں کے تحت زندگی اس طرح گزار تے ہیں کہ صورتِ حال کے مطابق اپنا بھرپور وحشیانہ ردّعمل ضرور دیتے ہیں لیکن ان میں اتنی عقل نہیں کہ مستقبل کے اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہوں۔ جان کے خوف کے بعد سب سے بڑا خوف، جس سے ہم مردوں کو زیادہ واسطہ پڑتا ہے، وہ روزگار کا خوف ہے۔ کمانے کی ذمہ داری مرد کو کھا جاتی ہے۔ کل کیا ہوگا۔ یہ ادارہ ڈوب تو نہیں جائے گا، جس سے میں منسلک ہوں۔ اگر مجھے فارغ کر دیا گیا تو کیا دوسری جگہ کام مل جائے گا؟ اگر ہمیں کوئی اتنا مال بھی دے دے کہ ساری زندگی ہم بیٹھ کر کھاتے رہیں، تب بھی نفس آنے والی نسلوں کی پریشانی پال لیتا ہے۔ جو کچھ اس کو مل جاتا ہے، اس پہ وہ کبھی بھی مطمئن نہیں ہوتا بلکہ مزید سے مزید کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اسے سونے کی وادی بھی مل جائے تو مزید وادیوں کی آرزو وہ پال لے گا۔
خوف کے دو بنیادی محرکات جرم/گناہ اور کم علمی ہیں۔ جیسے جیسے علم آتا ہے، خوف کم ہوتا جاتا ہے۔ اس لیے کہ انسان کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ سارے معاملات خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ سب چیزیں ایک منصوبے کے تحت چل رہی ہیں۔ جب یہ یقین ہو جائے تو پھر خوف کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ میں جہانگیر صاحب کی اکثر مثال دیتا ہوں۔ ان کی ایک بیٹی فوت ہو گئی تھی۔ تین بیٹے دماغی طور پر اس قابل نہیں کہ اپنا آپ سنبھال سکیں۔ ایک کو مرگی کے دورے بھی پڑتے ہیں لیکن جہانگیر صاحب جیسا مطمئن بندہ شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ ان سے زیادہ آزمائش کسی کی نہیں دیکھی لیکن اس اطمینان کا راز یہ ہے کہ جب انسان خدا کی رضا پہ راضی ہو جاتا ہے تو پھر یہ باتیں اس کے لیے معمولی ہو جاتی ہیں۔ ویسے خد ا ہر شخص کو اس قدر نہیں آزماتا بلکہ ہر ایک کو اس نے ایک استطاعت دی ہے، اس وسعت کے مطابق ہر کوئی آزمایا جاتا ہے۔ جب انسان کو یقینی طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا نے اس کے رزق کا بندوبست کیا ہوا ہے تو پھر اس کے دل سے ڈر نکلنے لگتا ہے۔ البتہ اپنا روزگار کمانے اور اپنی مالی حیثیت بہتر کرنے کے لیے ہر جائز کوشش کرنا، اپنی غلطیوں سے سیکھنا اور آگے بڑھنا، یہ ہم پہ لازم ہے۔ ہم روزانہ کی بنیاد پر خدا سے دعا کر سکتے ہیں کہ وہ ہمارے علم میں اضافہ فرمائے۔ اس سے ہماری آخرت ہی نہیں، دنیا بھی سنور سکتی ہے۔ 
خوف اگر زیادہ بڑھ جائے تو پھر وہ Obsession بن جاتا ہے ۔ obsession کئی قسم کی ہو سکتی ہے۔ کوئی پاکیزہ رہنے کی obsession کا شکار ہو سکتا ہے۔ جب یہ خوف obsession بن جاتا ہے تو پھر اس سے نکلنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ انسان کی ساری زندگی ایک نکتے پر مرتکز ہو جاتی ہے۔ وہ روز مرّہ کے کام انجام دینے کے قابل نہیں رہتا۔ اس سے نکلنے کے لیے پھر کسی اچھے ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات دماغ کو ایسا نقصان پہنچ جاتا ہے، جس کے لیے دوا لینا لازم ہو جاتی ہے۔ ویسے اگر کسی چیز کو obsession جڑ سے ختم کرتے ہوئے دیکھا ہے تو وہ یہ ہے کہ آپ تین چار سیپارے حفظ کر لیں اور روزانہ آدھا گھنٹا اس کی تلاوت کریں۔ obsession اس طرح ختم ہوتی ہے، جیسے سرف میل کو ختم کرتا ہے۔
اگر انسان ایسی حالت میں ہو، جس میں کوئی چیز بھی اس کے بس میں نہ ہو۔ وہ روزگار سمیت ہر قسم کے مسائل سے دوچار ہو یا ذہنی بیماریوں سے‘ تو اس وقت بہترین حکمتِ عملی یہ ہوتی ہے کہ آپ مسائل کے حل اور بیماری کے علاج کے لیے اپنی سمجھ کے مطابق آپ کوشش کرتے رہیں۔ اس کے ساتھ ہی زیادہ اہم چیز یہ ہے کہ آپ صبر سے انتظار بھی کریں۔ اس وقت کے گزرنے کا اوراس بیماری کے ختم ہونے کا۔ بعض اوقات انسان ایسے حالات سے دوچار ہو تا ہے، جس میں صبر سے انتظار ہی بہترین حکمتِ عملی ہوتی ہے؛ اگرچہ مسائل حل کرنے کی کوشش بھی متوازی طور پر جاری رہنی چاہیے۔
انسان جن حالتوں میں زندہ رہتا ہے، خدا کے نزدیک شاید ان کی تقسیم ایسے ہوتی ہے کہ یا تو وہ خوف میں ہوتا ہے یا امن میں ہوتا اور یا تو وہ غم میں ہوتا ہے یا وہ مطمئن اور خوش ہوتا ہے ۔ خدا فرماتا ہے : میں تمہیں آزمائوں گا، خوف سے ، بھوک سے اور... (مختلف چیزوں کے نقصان سے)۔ خوف آزمائش بھی ہے۔ خوف کے خاتمے کے لیے ایک عالیشان دعا یہ ہے: اللھم استر عوراتناوآمن روعاتنا۔ اے اللہ ہمارے عیب چھپا دے اور ہمارے خوف کو امن سے بدل دے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں