"FBC" (space) message & send to 7575

اداکار

یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور انتہائی دلچسپ مقدمہ تھا۔ ایک فلمساز نے اپنی فلم کے ہیرو پر مقدمہ کیا تھا کہ وہ اسے نقصان پہنچانے کے لیے جان بوجھ کر بھونڈی اداکاری کر رہا ہے۔ ہیرو کا نام حسین احمد تھا۔ ہر پیشی پر باقاعدگی سے وہ حاضر ہو رہا تھا۔ جج کے روبرو اس کا کہنا یہ تھا کہ وہ کام کے لیے حاضر ہے۔ فلمساز جو کچھ اس کے منہ سے کہلوانا چاہتا ہے یا جو بھی اداکاری کروانا چاہتا ہے، وہ اس کے لیے باقاعدگی سے فلم کے سیٹ پر پہنچ جاتا ہے۔ ڈائیلاگ یاد کرتا ہے اور انہیں ادا کرتا ہے۔ اس سے زیادہ اور وہ کر بھی کیا سکتا ہے؟ حیرت انگیز طور پر فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے کے باوجود اس کے چہرے پر معصومیت تھی۔ اس کی آواز میں بلا کی نرمی تھی۔ کسی وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی اس نے کوشش نہیں کی؛ حالانکہ بطور ایک بہت بڑے ہیرو کے، وہ غیر معمولی تعلقات رکھتا تھا۔ اس کی طرف سے اگر کوئی گواہی دینے آیا بھی تو ایک دوست طاہر اظہر اور وہ بھی رضاکارانہ طور پر۔ 
جس حد تک فلم مکمل ہو چکی تھی، جج نے اس کی ریکارڈنگز دیکھی تھیں۔ اس فلم کا موضوع تصوف تھا۔ ہیرو ایک ایسا شخص تھا، زندگی کے موڑ پر اچانک جو صوفیا کی تعلیمات سے متاثر ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کی زندگی بدل کے رہ جاتی ہے۔ ریکارڈنگز میں جج نے دیکھا، حسین احمد بھرپور انداز میں مکالمے ادا کرتا نظر آتا ہے۔ فلمساز کا کہنا یہ تھا کہ اب مکالموں کی ادائیگی میں اس کی آواز کا اتار چڑھائو ختم ہو چکا ہے۔ وہ سپاٹ اور بالکل نرم سے انداز میں الفاظ منہ سے نکالتا ہے۔ ہیرو والی کوئی بات اس میں نظر ہی نہیں آتی۔ جہاں اسے غضبناک نظر آنا چاہیے، وہاں اس کی آنکھیں نم نظر آتی ہیں۔ فلمساز کی درخواست پر جج نے اسے یہ مکالمہ ادا کرنے کو کہا ''میں اس بستی کو آگ لگا دوں گا‘‘۔ اس نے انتہائی معصومیت بھرے لہجے میں جب یہ الفاظ ادا کیے تو سب لوگ ہنس پڑے۔ جج دیکھ سکتا تھا کہ نامکمل فلم کی ریکارڈنگ میں تو حسین احمد مختلف مقامات پر گرجتا برستا نظر آتا ہے۔ بادی النظری میں جان بوجھ کر وہ فلمساز کو تنگ کر رہا تھا۔ قانونی حلقوں سے فلمساز کے بھرپور مراسم تھے۔ قانون کی موشگافیوں سے اچھی طرح وہ واقف تھا۔ اپنی فلم ڈوبتی دیکھ کر، قانونی جنگ وہ پوری مہارت سے لڑ رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مقدمے کی کارروائی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔
یہ وہ مرحلہ تھا، جب طاہر اظہر عدالت میں پیش ہوا۔ اس نے کہا: فلم کی شوٹنگ میں پیش آنے والے حادثے کو جان بوجھ کر چھپایا جا رہا ہے۔ یہ حادثہ ہی حسین احمد کے بدلے ہوئے روّیے کی اصل وجہ ہے۔ جج کے استفسار پر اس نے بتایا کہ ہیرو ایک بحری جہاز کے سب سے بلند مقام پر کھڑا ہوتا ہے۔ تصوف سے متعلق مناظر شوٹ ہو رہے تھے۔ (اس وقت تک حریفانہ کردار ادا کرنے والی) ہیروئن اسے آواز دے کر کہتی ہے کہ اگر تمہیں خدا پر اتنا بھروسہ ہے کہ وہ تمہارا محافظ ہے تو لگائو چھلانگ پانی میں۔ (ہیرو کو تیرنا نہیں آتا، نہ فلم میں اور نہ ہی اصل زندگی میں) فلم میں ہیرو کو پانی میں چھلانگ لگاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے؛ حالانکہ دراصل اسے جہاز کے نچلے عرشے پر فوم کے گدّوں سے بنے ہوئے ایک بستر پرگرنا تھا۔ طاہر اظہر نے کہا: فلمساز سے پوچھا جائے، ہیرو بستر پہ گرا یا پانی میں؟
جج نے دم بخود کھڑے فلمساز سے پوچھا۔ اس نے کہا: ہاں ،غلطی سے حسین احمد نے پانی میں چھلانگ لگا دی تھی اور بمشکل اسے مرنے سے بچایا گیا۔ ''غلطی سے نہیں‘‘ طاہر اظہر نے چیخ کر کہا۔ جذبات کی شدّت سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ ''اسے مرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ فلمسٹار حسین احمد مر چکا ہے۔‘‘
مقدمہ دلچسپ موڑ مڑ چکا تھا۔ جج نے طاہر اظہر کو کٹہرے میں بلوایا اور اسے اپنا پورا بیان ریکارڈ کرانے کا حکم دیا۔ اس نے کہا: حسین احمد کی زندگی فلمی دنیا کے لوگوں سے بہت مختلف تھی۔ شروع ہی سے اس کے چہرے پر معصومیت کا راج تھا۔ اس کی اِس معصومیت ہی نے اسے ایک منفرد ہیرو بنا دیا تھا ورنہ گھاگ اور خرانٹ اداکار تو ہر جگہ موجود تھے۔ اس نے کہا: کسی غریب مسکین پہ وہ کسی کو ظلم کرتا دیکھتا تو بپھر اٹھتا۔ اس کی حمایت میں آخری حد تک چلا جاتا۔ اس نے کہا: ایک روز جب میں نے اس سے پوچھا کہ کیا فلمی دنیا میں رہتے ہوئے اس کا یہ روّیہ بہت عجیب نہیں؟ اس روز وہ کراہ اٹھا اور اس نے راز کی بات مجھے بتا دی۔‘‘
طاہر اظہر نے کہا: حسین احمد نے کبھی کسی کو کسی بھی بات پر انکار نہیں کیا۔ ہر فلمساز کی ہر فلم وہ قبول کر لیتا۔ تصوف پر فلم اوراس میں ہیروئن کی طرف سے یہ مکالمہ کہ اگر تمہیں خدا پر ایمان ہے تو لگائو پانی میں چھلانگ، یہ تو اسے خودکشی پر اکسانے والی بات تھی۔ مجبوراً میں فلمساز سے ملا۔ اسے وہ راز بتایا جو حسین احمد نے مجھے بتا رکھا تھا۔ فلمساز ہنستا رہا۔ اس نے کہا جائو میاں اپنا کام کرو۔ وہ فلموں کا ایک ہیرو ہے، صوفی نہیں۔
طاہر اظہر نے حسین احمد سے پوچھا: کہیں وہ پانی میں تو چھلانگ نہ لگا دے گا۔ اس نے بہت یقین سے کہا: نہیں، میں اپنی زندگی کی حفاظت کروں گا۔ حالات اس جانب بڑھتے چلے گئے، جہاں جہاز کے عرشے پر کھڑی ہیروئن بلندی پر موجود ہیرو سے چیخ کر کہتی ہے، اگر تمہیں خدا پر اتنا یقین ہے تو لگائو چھلانگ پانی میں۔
اس موقع پر موجود لوگوں کا کہنا تھا کہ حسین کچھ دیر گم سم کھڑا رہا۔ پھر اس نے چھلانگ لگائی۔ وہ نرم بستر پر نہیں، بلکہ پانی میں جا گرا۔ بمشکل اسے زندہ بچایا گیا۔ چند گھنٹوں بعد اس کے اوسان بحال ہوئے۔ اس کی شخصیت میں نرمی اور معصومیت کے عناصر پہلے بھی چھلکتے تھے۔ اب تو ان عناصر نے جیسے اس کی ذات کو اپنے حصار میں لے لیا۔
'' تو کیا حسین احمد فلمساز سے بدلہ لینے کے لیے اب مکالموں کی درست ادائیگی نہیں کر رہا؟‘‘ جج نے پوچھا۔ ''جی نہیں، می لارڈ! فلمسٹار حسین احمد تو مر چکا ہے۔ یہ جو شخص آپ کے سامنے کھڑا ہے، یہ ایک صوفی ہے، جسے مکر و فریب کی اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ طاہر اظہر نے کہا۔
جج نے حسین احمد سے پوچھا: کیا حتمی فیصلے سے قبل وہ کوئی آخری کلمات کہنا چاہے گا۔ حسین نے کہا: ہم تو ہمیشہ سے چھلانگ لگاتے آئے ہیں۔ کبھی آگ اور کبھی پانی میں۔ کبھی تو ہمیں زہر بھی پینا پڑا ہے۔ جج ایک ذہین آدمی تھا۔ وہ قانون ہی نہیں، مذہب اور تاریخ کا مطالعہ بھی کرتا رہا تھا۔ اس نے حسین احمد کو بری کر دیا‘ یہ کہتے ہوئے کہ فلمسٹار حسین احمد تو پہلے ہی مر چکا ہے۔ اسے بھلا کیا سزا دی جا سکتی ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں