کبھی اپنے اردگرد ہم اس قدر تکلیف (misery)دیکھتے ہیں کہ انسان سوچنے لگتا ہے ۔ وہ اس سوچ میں ڈوب جاتا ہے کہ اس دنیا میں خدا نے اتنی تکالیف کیوں تخلیق کی ہیں ۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے ، انعام کی نہیں ۔ جو لوگ فوج میں جاتے ہیں ، انہیں معلوم ہے کہ تربیت کا عرصہ کتنا تکلیف دہ ہوتاہے ۔ باکسنگ کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد علی نے یہ کہا تھا: اپنی تربیت(training)کے ایک ایک لمحے سے میں نے نفرت کی لیکن پھر میں نے خود کو سمجھایا کہ یہ تکلیف اٹھا لو اور اپنی باقی زندگی ایک فاتح (champion)کے طور پر گزارو۔ جس ذات نے اتنی بڑی کائنات اور اتنا پیچیدہ انسانی دماغ تخلیق کیا ہے ، اس کے لیے دنیا کو پرمسرت اورpainlessجگہ بنانا مشکل نہیں تھالیکن پھر آزمائش تو باقی نہ رہتی ۔ آسٹریلیا میں مقیم میرے دوست معاذ کی 30سالہ بہن اسما صابرکو گنٹھیا کی بیماری تھی ۔ اس کے علاج کے دوران ایک حکیمی دوائی ایسی کھائی، جس سے گردے بھی فیل ہو گئے۔ ٹانگیں اور بازو بالکل سوکھ چکے تھے ؛البتہ خون صاف نہ ہونے کی وجہ سے چہرا اور پائوں سوجے ہوئے تھے ۔ وہ تسبیح پڑھتے پڑھتے فوت ہو گئی: لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین ۔میں نے ہی اسے یہ حدیث بتائی تھی کہ جو بیمار یہ پڑھے گا، وہ جلدی صحت یاب ہوگا یا یہی پڑھتے ہوئے جنت میں چلا جائے گا۔ اس کے بعد دو تین مہینے کے اندر وہ فوت ہو گئی تھی ۔آخری وقت تک اس نے شکایت کا ایک لفظ بھی نہ کہا۔ اس کے برعکس بہت سے لوگ ہیں ، د ن رات جو شکایت کرتے ہیں ۔ اپنے حالات سے ، اپنے اہل و عیال سے ؛حالانکہ ان کی تکلیف اس سے بہت کم ہوتی ہے ، جس سے اسما گزری ۔
ایک نوجوان نے رابطہ کیا۔ یہ بتایا کہ ذہن میں خدا کے بارے میں اور مذہب کے بارے میں ایسے کچھ وسوسے آجاتے ہیں ، جن کی وجہ سے میں احساسِ جرم (Guilt)کا شکار رہتا ہوں ۔ توبہ کرتا ہوں لیکن وہ خیالات ذہن سے ختم نہیں ہوتے اور مستقل میرا ذہن وہیں اٹکا رہتا ہے ۔ اس کا حل کیا ہے ۔ اس طرح کی صورتِ حال خوف کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔ خوف دو چیزوں سے پیدا ہوتاہے ۔ یا تو کم علمی سے (مثلاًانسان کو خدا کے وجود اور اس کی رحمت کے بارے میں علم کیا ، اس کا اندازہ بھی نہیں ہوتا) یا پھر گناہ /جرم کی وجہ سے ۔ اس میں ایک طرح کی obsession؛ہے ۔ میں نے انہیں حل بتایا کہ آپ تین چار سیپارے حفظ کر لیں اور روزانہ آدھا گھنٹہ انہیں دہراتے رہیں ۔ obsessionکا اس سے اچھا علاج نہیں ہو سکتا؛البتہ کچھ لوگوں کو دوا کی ضرورت بھی ہوتی ہے ۔اللہ کے کلام کے مبارک الفاظ جب آپ کے دماغ کے خلیوں میں داخل ہو جاتے ہیں تو خوف کو ختم کر دیتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ تو بہت مشکل کام ہے ۔ بتایا کہ مشکل نہیں ہے ۔ صرف روزانہ آدھا گھنٹہ اس کے لیے مختص کر لیں ۔ تین چار ماہ میں آپ ٹھیک ہو جائیں گے ۔ انہوں نے کہا ، میں یہ نہیں کر سکتا۔ میں نے کہا کہ پھر کسی اچھے ماہرِ نفسیات کے پاس جائیں ۔ عین ممکن ہے کہ آپ کو دوا کی ضرورت ہو ۔ انہوں نے کہا: اس کے علاوہ کوئی حل بتائیں ۔ میں نے کہا کہ اس کے علاوہ اور تو کوئی حل نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا: لیکن جب میں توبہ کر لیتا ہوں تو اس کے بعد یہ مسئلہ ختم نہیں ہوجانا چاہیے ۔ اکتا کر میں نے کہا ، جو چیز میرے علم میں تھی ، وہ آپ کو بتا دی ۔ اس
سے زیادہ میں کچھ نہیں کر سکتا ۔ اس کے بعد بھی پیغامات آتے رہے ۔ وہ غالباً یہ چاہتے تھے کہ میں ان کی کونسلنگ کرتا رہوں ۔ اتنا وقت کس کے پاس ہے ؟ اگر آپ کے پاس اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے کوشش کا وقت نہیں تو کوئی اور آپ کے لیے اتنا وقت کہاں سے نکالے؟
کل کے کالم میں ، بہت سی مثالیں دی تھیں ۔ لوگوں کی زندگی میں مسائل ہیں ۔ کسی کو ذہنی مسئلہ ہے ۔ماہرِ نفسیات کے پاس جانے کو تیار نہیں ۔ کسی کا وزن بڑھا ہوا ہے اور ریڑھ کی ہڈی کے مہرے تڑخے ہوئے ہیں ۔ وہ کیک اور تلے ہوئے آلو کھا رہا ہے ۔سب سے زیادہ تعداد میں معاشی مسائل ہیں ۔ زیادہ تعداد میں دیکھا کہ ان مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ کوشش کرنے والے بہت کم ہیں ۔شکایت کرنے والے بہت زیادہ ہیں ۔ اگر کسی کی دل آزاری ہوئی تو میں معذرت خواہ ہوں لیکن یہ سب لکھنے کا مقصد آپ کو جدوجہد پہ اکسانا ہے، کسی کی تذلیل ہرگز نہیں ۔
جدوجہد کرنے والوں میں سب سے زبردست مثال میرے ایک جاننے والے کی ہے جس کے والدِ گرامی کا فلسفہ ء حیات یہ تھا کہ شادی کرو، بچے پیدا کرو، طلاق دو اور لات مار کے بیوی بچوں کو گھر سے نکال دو ۔ پھر نئی شادی کرواور پھر یہی عمل دہرائو ۔یہ بچے پڑھ نہیں سکے ۔ ان کے پاس کام کرنے کے لیے سرمایہ نہیں تھا۔ عزیر نے کسی سے ایک لاکھ روپے ادھار لیے اور وزٹ ویزے پر دبئی گیا۔ وہاں اسے کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ وہ واپس آیا اور چاٹ کی ریڑھی لگا لی ؛حالانکہ ہماری سات نسلوں میں کسی نے ریڑھی نہیں لگائی ۔ جن لوگوں کی میں تہہِ دل سے عزت کرتا ہوں، عزیر ان میں سرِ فہرست ہے ۔
اگر آپ مسائل سے سے دوچار ہیں تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ۔ ڈالر وں میں کھرب پتی عرب شہزادے بھی مسائل سے دوچار ہیں ۔ زندگی بنائی ہی ایسی گئی ہے کہ مسائل ساری زندگی ساتھ چلتے ہیں ۔ یہ دنیا بنی ہی آزمائش کے لیے ہے ، انسانوں کی آزمائش کے لیے ۔ جانوروں کو تو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ انسان کس قدر ان کا استحصال کرتا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہیں ۔ جس لڑکے کی آنکھ خراب ہوئی تھی اور جو مجھ سے مدد کا مطالبہ کر رہا تھا، اگر اسے میں یہ کہتا کہ میں تمہارے ساتھ چلوں گا تو وہ اگلی صبح ہی اسلام آباد پہنچنے کے لیے تیار تھا۔ میں نے اسے ان قابلِ اعتماد فلاحی طبی اداروں کے فون نمبر اور پتے دئیے ، جہاں مستحق لوگوں کی آنکھوں کا مفت علاج ہوتاہے تو اس نے اسلام آباد پہنچنے میں چار ماہ لگائے ۔ اب ایک شخص کے لیے اپنی آنکھ کی اہمیت یہ ہے تو میری زندگی میں اس کی اہمیت کتنی ہو سکتی ہے ؟ جن کے باپ اور بھائی باہر کے ملکوں میں محنت مزدوری کر رہے ہیں ،ان میں ایسے ہیں جو پاکستان میں کسی قسم کا کوئی بھی کام کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ اس انتظار میں زندگی گزار رہے ہیں کہ انہیں بھی باہر کا ویزہ ملے تو وہاں ٹیکسی چلائیں ۔جن کے معاشی مسائل حل ہو جاتے ہیں ، پھر محفلوں میں او رمعاشرے میں دوسروں پر برتری کی جنگ میں شریک ہو جاتے ہیں ۔انا کی ایک جنگ شروع ہوتی ہے اور ساری زندگی چلتی رہتی ہے ؛حتیٰ کہ انسان قبر میں جا لیٹتا ہے ۔ کیا یہ وہی زندگی ہے ، جو کائنات کی سب سے عقلمند مخلوق کو گزارنی چاہیے ؟