"FBC" (space) message & send to 7575

چاند پر انسانی قدم ، ایک ڈرامہ ؟

کیاواقعی انسان نے چاند پر قدم رکھا تھایا یہ کسی امریکی سٹوڈیو میں فلمایا گیا ایک ڈرامہ تھا۔ یہ سوال شاید ہمیشہ باقی رہے گا۔ جیسے یہ کہ نو گیارہ کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر جہاز ٹکرانے والوں کے پیچھے درحقیقت کون تھا ؟ سوشل میڈیا بہت سی تھیوریز گردش کرتی رہتی ہیں ۔ مثلاً یہ کہ سٹیل فلاں درجۂ سینٹی گریڈ سے کم پر پگھل ہی نہیں سکتا۔ جو لوگ ان چیزوں کو آگے پھیلاتے ہیں ، انہیں حقیقت میں اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ سٹیل پگھلنے کا درجۂ حرارت کیا ہے بلکہ وہ جو پڑھتے ہیں ، اس کی تصدیق کیے بغیر اسے آگے پھیلاتے ہیں ۔ اس طرح کے ان گنت نکات ایسی سوشل میڈیا پوسٹس میں بیان کیے جاتے ہیں ۔ دنیا بھر میں رائے عامہ امریکی استعماری پالیسیوں کی وجہ سے اس سے ویسے ہی نفرت کرتی ہے ؛لہٰذا ہر کوئی دل کھول کر انہیں پھیلاتا ہے ۔
ایک سوشل میڈیا بلاگر(جو ویسے میرا پسندیدہ لکھاری ہے ) کا تازہ اظہارِ خیال ملاحظہ ہو :
''جولائی 1969ء میں دنیا نے اپنی سانسیں روک کر اپالو 11کے چاند پر اترنے کا نظارہ ٹی وی پر دیکھا۔ نیل آرم سٹرانگ نے تب یہ تاریخی جملہ کہا '' یہ انسان کاایک چھوٹا سا قدم ہے لیکن درحقیقت بنی نوع انسان کی بہت بڑی چھلانگ ‘‘ لیکن کچھ لوگوں کے نزدیک یہ جملہ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے ڈرامے کا محض ایک ڈائیلاگ تھا ۔ تب امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ عروج پر تھی ۔ ایسے میں روس نے مدار میں اپنا پہلا سیٹیلائٹ بھیج کر دنیا کو حیران کر دیا۔ نیو یارک ٹائمز نے فوراً اداریہ لکھا کہ روس خلا سے امریکی شہروں پر ایٹمی حملے کر سکتاہے ۔ ان دنوں امریکہ میں یہ بحث بھی ہونے لگی کہ روس چاند پر میزائل بیس بنائے گا ۔ بظاہر روس خلائی جنگ جیت رہا تھا۔
بل کیسینگ اس کمپنی میں انجینئر اور ڈیزائنر تھا، جس نے اپالو 11بنائی تھی ۔ بل کیسنگ نے راکٹ اور تمام منصوبے کا جائزہ لینے کے بعد کہا '' جو کچھ میں نے ٹی وی پر دیکھا وہ سارا ایک جھوٹ اور ڈرامے کے سوا کچھ نہیں ‘‘۔
اس کے مطابق ہمارے تیار کردہ راکٹ کے ذریعے چاند پر جانے اور وہاں سے بخیریت واپس آنے کا امکان صفر اعشاریہ صفر صفر صفر ایک فیصد تھا ۔ وہ آج تک اپنے اس دعوے پر قائم ہیں ۔ چاند پر اترنے کی وڈیو فوٹیج پر ایسے سوالات اٹھائے گئے ہیں ، جن کے تسلی بخش جوابات آج تک نہیں مل سکے ۔مثلاً چاند پر اترنے والی شٹل کے نیچے اس کے طاقتور انجن سے نکلنے والے بلاسٹ کا کوئی نشان تک موجود نہیں ہے حالانکہ وہ نیچے سب کچھ اڑا دیتی ہے ۔ اس فوٹیج میں ستارے کہیں نظر نہیں آ رہے جب کہ آسمان بالکل سیاہ ہے ۔ اس فوٹیج میں امریکی پرچم ہوا سے پھڑ پھڑا رہا ہے ، جب کہ چاند پر ہوا کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ راکٹ کے دھماکے کا شور 150سے 160ڈیسی بل ہوتا ہے جو کان پھاڑ دیتا ہے ۔ اس فوٹیج میں اتنے شور کے ساتھ اترنے والے شٹل کے اندر خلابازوں کی بات چیت صاف سنائی دیتی ہے اور ایک سرسراہٹ کے سوا کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ۔
ویڈیو کو دو گنی رفتار سے چلایا جائے تو اس میں چہل قدمی کرنے والے خلاباز اور چاند گاڑی بالکل نارمل انداز میں چلتے پھرتے محسوس ہوتے ہیں ، جیسا کہ وہ زمین پر حرکت کر رہے ہوں ۔ چاند پر جانے والوں نے کہا کہ چاند کی سطح پائوڈر کی طرح ہے ، تب شٹل کی دوبارہ پرواز کے بعد اس کے نیچے آنے والے طوفان سے ''چاند پر انسانی قدموں کے نشانات‘‘ مٹ کیوں نہیں گئے ؟
شٹل کا واپس اڑنا تو لگتا ہی نہیں کہ دھماکے کے زور پر اڑی بلکہ یوں لگتا ہے کہ اس کو اوپر کسی جہاز سے باندھ کر کھینچا گیا ہے ۔ بڑے بڑے کیمرے خلابازوں کے سینوں پر بندھے ہوئے تھے ، جن کی وجہ سے ان کے لیے جھکنا تک مشکل تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے ''محض تکّے ‘‘ سے ہزاروں عمدہ تصویریں لیں ۔ کیسے ؟
بہت ساری تصاویر ایسی ہیں ، جن میں مختلف چیزوں کے سائے بالکل مختلف زاویے پر ہیں ، گویا سورج کے بجائے روشنی کا منبع کہیں نزدیک ہی تھا۔ ‘‘
یہ بہت لمبی پوسٹ ہے ،ایک کالم میں جسے سمیٹا نہیں جا سکتا۔ آخر میں لکھنے والا یہ کہتاہے کہ سوال یہ بھی ہے کہ ''انسان دوبارہ چاند پر کیوں نہیں گیا ؟ شاید اس لیے کہ دوسری بار دنیا کو بے وقوف بنانا ممکن نہیں ہوگا ؟ ‘‘
ذاتی طور پر امریکی مجھے سخت ناپسند ہیں ۔ میں مذہب، سائنس، فکشن ، سیاست اور ہرموضوع پر لکھتا ہوں لیکن اگر آپ مجھ سے میری specializationپوچھیں تو وہ مصدقہ چیز کو غیر مصدقہ (un authentic)چیز سے الگ کرنا ہے ۔ مثلاً آپ مصدقہ ذرائع سے بل کیسنگ کے بارے میں کچھ تفصیل پڑھیں تو وہی چاند پر انسانی قدم کے بارے میں سب سازشی تھیوریز کا جدّ ِ امجد تھا ۔ اس نے 1940ء میں امریکی بحریہ میں midshipmanکے طور پر نوکری شروع کی ۔ اس نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں officers training schoolجوائن کیا ۔ 1949ء یونیورسٹی آف ریڈ لینڈز سے اسے بیچلر آف آرٹس ( انگلش )کی ڈگری ملی ۔ بعد میں اس نے ترکھان کا کام بھی کیا۔ پھر اسے ایک کمپنی Rocketdyneمیں ٹیکنیکل رائٹر کی نوکری ملی ۔ 1956ء سے 1963ء تک اس نے اس کمپنی میں مختلف عہدوں پر کام کیا۔ پھر استعفیٰ دے دیا۔ مزید پڑھیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ بل کیسنگ ایک سائنسدان نہیں تھا اور نہ ہی انجینئر ۔ بعد میں اس نے یہ موقف اختیار کیا کہ ایک ڈرامے (چاند پر انسانی قدم ) کا بھانڈا پھوڑنے کے لیے انجینئرنگ یا سائنس کی ڈگری ہوناضروری نہیں ۔ چاند پر انسانی قدم کا ''ڈرامہ ‘‘ سکرین پر آنے سے پہلے ہی وہ ایک کیمپین لانچ کر چکا تھا۔ تب اس کا کہنا تھا کہ چاند پر انسان اتر ہی نہیں سکتا ۔ اگر ایسا ہوا تو وہ ایک ڈرامہ ہوگا ۔
سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ امریکہ اور سوویت یونین میں چاند پر پہلے قدم رکھنے کی دوڑ لگی ہوئی تھی ۔ سوویت یونین نے اور سوویت سائنسدانوں نے باضابطہ طور پر یہ موقف کبھی بھی اختیار نہیں کیا کہ امریکہ نے چاند پر قدم نہیں رکھا بلکہ اگر کسی نے اعتراض کرنا بھی تھا تو سوشل میڈیا ہی پر کیا ۔ آخر کیوں ؟ اگر ایک زمیندار کہتا ہے کہ میری بھینس نے آج پچاس کلو دودھ دیا ہے تو مخالف زمیندار ، جو اس کا سب سے بڑا دشمن ہے ، وہ اس پر اعتراض کیوں نہیں کر رہا کہ میاں بھینس ایک دن میں 20،22کلو سے زیادہ دودھ دے ہی نہیں سکتی ۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر چاند پر انسانی قدم ناممکنات میں سے ہے تو سوویت یونین اور امریکہ کے آزاد سائنسدانوں اور انجینئروں نے اپنے اپنے عوام کو یہ کیوں نہیں بتایا کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے اور یہ دوڑ ایک پاگل پن ہے ۔ اگر امریکہ نے دوسری بار چاند پر قدم رکھنے کی کوشش نہیں کی تو سوویت یونین والوں نے اس شکست کے بعد ایک دفعہ بھی چاند پرقدم رکھنا ضروری کیوں نہیں سمجھا ، جب کہ پہلے وہ اس کے لیے مرے جا رہے تھے ۔
اس سب کا جواب یہ ہے کہ چاند پر انسانی قدم ایک ڈرامہ نہیں تھا ؛البتہ وہ لوگ ، جن کے پاس سائنس اور انجینئرنگ کی ڈگریاں نہیں تھیں ، انہیں اس بات پر قائل کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا کہ وہ ایک ڈرامہ تھا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں