"FBC" (space) message & send to 7575

معلومات کا ایک ٹکڑا

سو سال بعد ، آپ اس عہد کو کس نام سے یاد کریں گے ، جس سے ہم گزر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اربوں لیپ ٹاپ انٹرنیٹ اور سیٹیلائٹ کے ذریعے آپس میں منسلک ہیں۔ نا قابلِ یقین رفتار سے وہ آپس میں معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ اگر مجھ سے پوچھیں تو میں اس دور کو ـ"Disinformation" کا دور کہوں گا۔ ایسے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں ، جو کسی معاملے پر ایک جامع رائے دے سکیں ۔ عملاً جو ہو رہا ہے ، وہ یہ ہے کہ جس کسی کے ہاتھ کچھ معلومات لگتی ہیں ، وہ انہیں لے کر ''یوریکا ، یوریکا‘‘ پکارتا ہوا سڑکوں پہ نکل آتا ہے ۔ بہت سی صورتوں میں ، یہ معلومات نہیں ہوتیں بلکہ یہ disinformationہوتی ہے ۔
سی پیک ایک کلاسک مثال ہے ۔ہر روز ایک نئی سٹوری سامنے آتی ہے ، جس کے مطابق پاکستان انتہائی خسارے کا سودا کر چکا ہے ۔ گوادر پورٹ بی او ٹی (بنائو، چلائو اور حوالے کرو) کی بنیاد پر چین کو دے دی گئی ہے ۔سینیٹ میں اب انکشاف یہ ہوا ہے کہ چالیس سال تک گوادر سے ہونے والی آمدنی کا 91فیصد چین کو ملے گا، جب کہ پاکستانی اتھارٹیز کو صرف 9فیصد۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آپ نے یہ گھاٹے کا سودا کیوں کیا۔ آپ خود یہ بندرگاہ بناتے اور سو فیصد منافع کماتے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے پاس سرمایہ اور وہ مہارت نہیں ہے کہ ہم اسے بنا سکتے ۔ پھر ایک خبر آتی ہے کہ جو ساٹھ ارب ڈالر چین نے ہمیں قرض کے طور پر دئیے ہیں ، تیس سال میں اس کے بدلے ہم 90ارب ڈالر واپس کریں گے ۔پھر یہ کہ جاپان نے بھارت کو انتہائی سستے ریٹ پر قرضہ فراہم کیا ۔ 5مئی 2017ء کے اخبارات پڑھ لیں ۔ جاپان نے پاکستان میں بجلی کا نظام بہتر بنانے کے لیے 24ملین ڈالر کا قرض دیا تھا ۔ پاکستان نے یہ قرض تیس سال میں واپس کرنا تھا اور اس پر سود صرف اعشاریہ 12فیصد تھا۔ جاپان کا نظام چین اور باقی دنیا سے بالکل مختلف ہے ۔ وہاں بینک کاروباری اداروں کو عملاًصفر فیصد پر ہی قرضے جاری کرتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر چین تیس سالوں میں تیس ارب ڈالر سود کی مد میں پاکستان سے وصول کرے گا تو ان تیس سالوں میں کیا سی پیک سے ہمیں کوئی آمدن نہیں ہوگی ؟ فرض کریں یہ آمدن3ارب ڈالر سالانہ ہوتی ہے ، تو تیس سالوں میں یہ 90ارب ڈالر تک جا پہنچے گی۔ خبریں شائع کرنے والے معاملے کے صرف ایک رخ پہ روشنی ڈالنا کیوں پسند فرماتے ہیں ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ خود کیوں سی پیک بنا نہیں لیتے ؟ اس لیے کہ آپ کے پاس 60ارب ڈالر سرمایہ نہیں ہے اور نہ ہی آپ کے پاس کوئی وژن ہے ۔نہ ہی آپ کے پاس کوئی قابلِ عمل منصوبہ ہے ، جس سے یہ ملک معاشی بدحالی کے اس دور سے نکل سکے ۔ 
سب صاحبانِ علم و فضل اور عقل و دانش سے میرا ایک سوال ہے ۔ چین دنیا بھر کی ضروریات پوری کرنے جتنی اشیا بنا رہا ہے ، manufacturingکر رہا ہے۔ یورپ، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ والے اس سے یہ خریدنا چاہتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ چین کو اپنا تیل بیچنا چاہتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے انہیں پاکستان کی سرزمین چاہیے۔ تو پاکستان کو اس کے بدلے کیا ملنا چاہیے؟ ظاہر ہے کہ اسے اپنی سرزمین استعمال کرنے پر کرایہ ملنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان نے کچھ بنایا نہیں‘ Manufactureنہیں کیا۔ مشرقِ وسطیٰ، یورپ اور افریقہ کو وہ کچھ بیچ نہیں رہا، نہ ان سے وہ کچھ خرید رہا ہے تو وہ اپنے منافعے میں پاکستان کو شریک کیوں کریں؟ ہاں جو جائز بات ہے، وہ یہ کہ پاکستان کو ڈٹ کر اپنا کرایہ اتنا ہی طلب کرنا چاہیے، جتنا کہ مارکیٹ کے حساب سے بنتا ہے ۔ ''بھائی، بھائی‘‘ اور ''دوستی ، دوستی‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ، اپنا کرایہ کسی صورت کم مقرر نہیں کرنا چاہیے ۔ 
ایک اور مثال ، آپ نے کسی شخص سے اس کی دکان کرائے پر لی۔ دکان کا کرایہ 20ہزار روپے ہے۔ آپ اس دکان کو کنسٹرکشن کمپنی کا دفتر بناتے ہیں ۔ وہاں آپ اربو ں روپے کے گھر بنا بنا کر بیچتے ہیں ۔اب کیا دکان کا مالک آپ سے یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ آپ اپنے منافعے میں اسے شریک کریں ؟ جب آپ اس قابل ہی نہیں ہیں کہ سی پیک کی سڑکیں خود بنا سکیں ، گوادر بندرگاہ خود تعمیر کر سکیں تو پھر آپ کرایہ ہی طلب کر سکتے ہیں۔ ہم لوگ ایک گائوں میں رہتے ہیں۔ ہمارے ایک طرف ایک بہت بڑا انڈسٹریل زون ہے ۔ دوسری طرف بہت بڑی آبادیاں ہیں ۔ وہ آپس میں خرید و فروخت کرنا چاہتے ہیں ۔ انہیں ہماری زمین سے راستہ چاہیے۔ وہ ہماری سڑکیں بنانے کا ذمہ بھی اٹھا لیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ ان سے کیا طلب کریں گے ؟ صرف کرایہ یا پھر ان کی خرید و فروخت میں ہونے والا منافع بھی ؟اگر آپ مانگیں گے بھی تو کون دے گا آپ کو ۔ دنیا پاگل ہے کہ صرف راستہ فراہم کرنے کے بدلے آپ کو اپنے منافع میں سے حصہ دینا شروع کر دے ؟جب کہ انڈسٹری انہوں نے لگائی ، خریداروں میں اپنی اشیا کی مانگ انہوں نے پید اکی ۔ آپ نے کیا کیا؟ سوائے اس کے کہ آپ کے جد امجد (قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ)نے آپ کو ایک انتہائی زبردست زمین ورثے میں تھما دی ۔ 
پاکستان کو کیا چاہیے ؟اگر مجھ سے پوچھیں تو پاکستان کو ہر سال20ارب ڈالر چاہئیں ۔ سالانہ بجٹ بناتے ہوئے پندرہ سے بیس ارب ڈالر کم پڑ جاتے ہیں اور اس کی وجہ سے بہت خواری کاٹنا پڑتی ہے ۔ ماہرین اس بات پہ روشنی ڈالیں کہ سی پیک کے سب منصوبے بن جانے کے بعد پاکستان کو سالانہ کتنے ارب ڈالر کی آمدن ہوگی ؟ پاکستان کی معیشت چین کے مقابلے میں ناقابلِ یقین حد تک چھوٹی ہے ۔ ہماری معیشت کا حجم ہے 250ارب ڈالر ۔ چین کی معیشت کا حجم ہے گیارہ ہزار ارب ڈالر ۔ اب فرض کریں گوادرپورٹ کی سالانہ آمدن صرف 100ارب ڈالر ہے ۔ اس کا 9فیصد جو پاکستان کو ملنا ہے ، وہ 9ارب ڈالر ہے ۔ یہ 9ارب ڈالر پاکستان کے بہت سے سنگین مسائل کو حل کر سکتاہے ۔ آپ کی یہ بات سر آنکھوں پر کہ ہمیں پورے 100ارب ڈالر حاصل کرنا چاہیے تھے لیکن ایک بار پھر یاد کیجیے کہ آپ کی جیب میں ٹکا بھی نہیں تھا کہ آپ گوادر تعمیر کر سکتے ۔ جس نے تعمیر کی ہے ، وہ فائدہ بھی اٹھائے گا ۔ ہاں البتہ جو دیکھنے والی چیز ہے اور ماہرین ہی اس پہ روشنی ڈال سکتے ہیں ، جو ایسے عالمی معاہدوں کو دیکھتے رہے ہیںکہ اس طرح کے معاملات میں مختلف ممالک میں کتنے فیصد پہ معاملہ طے ہوتا ہے ۔ کیا 9فیصد بہت کم ہے ؟ مثال دیجیے کہ فلاں ملک نے اپنی بندر گاہ دی تو آمدنی میں سے 25فیصد اسے ملا کرتا تھا ۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا، اپنی زمین کا کرایہ ڈٹ کر وصول کریں لیکن چین ، یورپ ، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ جس سطح کی خرید و فروخت ایک دوسرے سے کرنے جا رہے ہیں ، اسے دیکھ دیکھ کر مت للچائیے ۔ آئیں ہم بھی محنت کریں ۔خود وہ انڈسٹری لگائیں ، ایسی زراعت کریں ، ایسی مہارت پیدا کریں ، اتنی معاشی سرگرمیاں کریں اور اتنا سرمایہ اکٹھا کریں کہ ہمیں گوادر بنانے کے لیے چینی سرمایہ کاری کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں