کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اٹھارہویں صدی میں اودھ کی ریاست تشکیل دینے والا نواب سعادت خان تھا، جس نے ایک لاوارث بچے کو گندگی کے ڈھیر سے اٹھا کر امان بخشی۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ نواب صفدر جنگ کا تھا، سعادت خان نے جس سے اپنی بیٹی بیاہی اور پھر ریاست سونپ دی۔
واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ ایک مہم سے واپسی پر، ایک ویرانے میں‘ نواب کو نوزائیدہ بچّے کے بلکنے کی آواز آئی۔ مہربان دل کے مالک نواب نے ایک نوزائیدہ انسانی بچّہ دیکھا، جس کا رنگ کوئلے کی طرح کالا تھا۔ ایک جنگلی کتا اسے نوچ رہا تھا۔ نواب کی بروقت مداخلت سے جان تو اس کی بچ گئی لیکن اس وقت تک اس کی ایک آنکھ ضائع ہو چکی تھی۔ اس کا چہرہ لہولہان تھا؛ اگر چہ انتہائی کالے رنگ کی وجہ سے خون نظر نہ آ رہا تھا۔ چہرے کے خدوخال میں خوبصورتی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ حالات و واقعات کے سبب یہ بات ظاہر تھی کہ وہ گناہ کی پیداوار تھا۔ باپ تو اس کا تھا ہی نہیں۔ وہ اس قدر بد نصیب تھا کہ ماں بھی اسے مرنے کے لیے چھوڑ گئی تھی۔ نواب کے حکم پر تڑپتے‘ بلکتے بچّے کو مرہم لگایا گیا۔ ایک دودھ پلانے والی آیا ڈھونڈی گئی۔ اسے اجرت پر دودھ پلانے کا حکم دیا گیا۔ اس عورت کا اپنا بچّہ گورا چٹا اور خوبصورت تھا۔ وہ انتہائی ناگواری سے اس غیر بچّے کو دودھ پلایا کرتی۔ مالی بدحالی نہ ہوتی تو شاید وہ کبھی ایسا نہ کرتی۔
نواب نے اس بچّے کا نام حکیم رکھا۔ گوکہ عام طور پر لوگ اپنی گفتگو میں اسے 'کوئلہ‘ کہا کرتے۔ حکیم کمتری کا استعارہ تھا۔ ایک ایسا شخص، جس کا وجود ایک گناہ کی نشانی تھا، جس کی ماں اسے مرنے کے لیے چھوڑ گئی تھی۔ اسے زندہ رہنے کا حق دیا جا سکتا تھا لیکن اس کی عزت نہیں کی جا سکتی تھی۔ حکیم خاموش طبع لڑکا تھا۔ پیدائشی طور پر جیسے اسے اپنی ذات میں موجود کمتریوں کا ادراک تھا۔ اسے کبھی شوخی کرتے نہ دیکھا گیا۔ پیدائشی طور پر وہ تمیزدار اور تہذیب یافتہ تھا۔ ہر حکم وہ خاموشی سے بجا لاتا۔ یہ خاموشی اور افسردگی اس کی ذات کا ایک حصہ بن گئی تھی۔ خدا ترس اور مہربان نواب نے حکیم کو اپنے محل میں ذاتی خدمات گار کا منصب سونپ رکھا تھا۔ جب وہ جوان ہوا تو اسے برص کا مرض لاحق ہوا۔ کہیں کہیں سے اس کا چہرہ دودھ کی طرح سفید ہو گیا۔ یوں تیز کالے اور سفید رنگ کے امتزاج نے اس کی بدصورتی میں آخری حد تک اضافہ کر دیا۔
مہر النسائ‘ نواب کی بھتیجی تھی۔ اس کے مرحوم بھائی کی بیٹی۔ وہ اس قدر حسین تھی، جتنی کوئی بنتِ حوا ہو سکتی ہے۔ وہ حکیم ہی کی ہم عمر تھی۔ وہ حسین تھی، حسب نسب والی، عقلمند، سلیقہ شعار، پڑھی لکھی۔ جیسے حکیم خامیوں والا تھا، ویسے ہی وہ خوبیوں والی تھی۔
عزت، شہرت، دولت، صحت، اولاد اور دنیا کی ہر نعمت نواب کے پاس موجود تھی ۔ ہاں! البتہ اسے ایک استاد کی تلاش تھی۔ وہ استاد جو انگلی پکڑ کر اسے عشق کے کارزار میں چلنا سکھائے۔ وہ اُس ذاتِ قدیم سے، اس ربِ ذوالجلال والاکرام سے عشق کرنا چاہتا تھا۔کبھی کبھار، اپنے دربار میں جب وہ رموزِ عشق بیان کرتا تو آنسوئوں سے اس کی داڑھی تر ہو جاتی۔ اسے ایسے استاد کی تلاش تھی، جو اس کا دل تڑخا دے۔ اس کا آئینہ چکنا چور کر کے اسے نگاہِ آئینہ ساز میں ممتاز کر دے۔ اسی تلاش میں اس کے بال سفید ہو چلے تھے۔
یہی وہ دن تھے، جب وہ واقعہ پیش آیا۔ ایک شام اچانک نواب نے دیکھا کہ مہر النساء عبادت کے کمرے میں تھی اور چھپ کر حکیم ایک سوراخ سے اندر جھانک رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے نواب کا خون کھول اٹھا لیکن پھر اس نے صبر سے کام لیا۔ اس کا حلم اس کے اشتعال پہ غالب آ گیا۔
نواب نے حکیم کو بلایا۔ وہ چاہتا تو یہ کہہ سکتا تھا کہ تجھے میں نے کوڑے کے ڈھیر سے اٹھایا اور تو نے یہ کیا گستاخی کی۔ الٹا اس نے حکیم سے سوال کیا: کیا تجھے عشق ہو گیا ہے؟ حکیم خاموش رہا۔ نواب نے کہا: ہاں! تجھے عشق ہو گیا ہے اور اس میں تیرا کوئی قصور نہیں۔ نواب نے کہا: جب محبوب بہت اونچی ذات کا ہو اور عاشق کی ذات بہت کمتر ہو تو پھر عشق کی پہلی رمز یہ ہے کہ اس عشق کو چھپایا جائے ورنہ محبوب کی رسوائی ہوتی ہے۔ سچا عاشق اپنے محبوب کو رسوا نہیں کرتا۔ اس نے کہا: عشق کیا ہے تو اسے نبھانا، میرے بچّے! حکیم خاموش رہا۔
دن، ہفتے، مہینے اور سال گزرتے گئے۔ حکیم نے نواب کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ مہر النساء کی شادی ہوئی اور وہ اپنے سسرال چلی گئی۔ کئی سال بعد اس کا شوہر ایک جنگ میں قتل ہو گیا۔ وہ پھر واپس آ گئی۔ خمیدہ کمر نواب بوڑھا ہو چکا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ مہرالنساء جب عبادت کے کمرے میں جاتی ہے تو اب بھی حکیم چھپ کر اسے دیکھا کرتا ہے۔
یہی وہ دن تھے، جب حکیم کو تپِ دق نے آ لیا۔ بیماری نے اسے چاٹ لیا۔ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا؛ حتیٰ کہ قریب المرگ ہو گیا۔ ایک روز نواب نے دیکھا کہ خاموشی سے بستر پہ پڑا وہ اپنی موت کا انتظار کر رہا ہے۔ نواب نرم دل انسان تھا، اس روز تو جیسے پگھل ہی گیا۔ اس نے مہر النسا کو بلایا۔ اسے ساری بات بتائی۔ وہ خود ایک نرم دل عورت تھی۔ نواب نے اسے کہا: میری بیٹی! ایک مرتے ہوئے‘ آخری درجے کے بدنصیب انسان کو آخری خوشی ہم دے سکیں توکتنا اچھا ہو۔
قصہ مختصر یہ کہ نواب مہر النساء کو حکیم کے پاس لے گیا اور اسے کہا کہ وہ اظہارِ محبت کر سکتا ہے۔ وہ سکتے کے عالم میں ان دونوں کو دیکھتا رہ گیا۔ پھر زندگی میں پہلی بار نواب نے اسے روتے ہو ئے دیکھا۔ وہ روتا رہا، روتا رہا۔ پھر اس نے یہ کہا: میں مہر النساء سے محبت نہیں کرتا۔ اس نے کہا: میں تو اس سے عشق کرتا ہوں، جسے مہر النساء سجدہ کرتی ہے۔ کچھ دیر کے لیے نواب حواس باختہ ہو گیا۔ حکیم مہرالنساء کو ہمیشہ اس وقت دیکھا کرتا تھا، جب وہ عبادت کے کمرے میں ہوتی۔ حکیم نے کہا: مہر النسا کے ہر سجدے میں، میرا سجدہ شامل ہے۔
نواب نے کہا: اگر تو خدا سے محبت کرتا ہے تو تُو نے اسے ظاہر کیوں نہیں کیا۔ حکیم نے کہا: عشق کی رمز‘ محبوب کی ذات سب سے اونچی، عاشق کی ذات سب سے کمتر۔ نواب نے کہا: وہ تو دنیاوی عشق کی رمز ہے، خدا سے عشق کی نہیں۔ یہ تو نے کیا کیا میرے بیٹے۔ حکیم نے کہا: لوگ یہی کہتے کہ ایک انتہائی کمتر انسان خدا سے عشق کا دعویٰ کر کے عزت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ نواب کو یاد آیا کہ خدا جسے عزیز رکھتا ہے، اسے خوب آزماتا ہے۔ تو درحقیقت حکیم ایک کمتر انسان نہیں تھا بلکہ وہ چنے ہوئے لوگوں میں سے تھا۔ نواب نے حکیم سے پوچھا: وہ کیسا محسوس کر رہا ہے۔ قریب المرگ لڑکے نے جواب دیا: وصل سے پہلے کا وقت ہے۔ دل میں میٹھا میٹھا درد ہو رہا ہے۔
اس روز نواب پر انکشا ف ہوا کہ عشق کی ہر رمز حکیم کو معلوم تھی۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جس استاد کو وہ تلاش کر رہا ہے، وہ کوڑے کے ڈھیر سے اٹھایا گیا ایک کالے رنگ کا بچہ ہے۔ جسے وہ کوئلہ سمجھتا رہا، وہ ہیرا تھا۔