"FBC" (space) message & send to 7575

کششِ ثقل سے آزادی

نامور طبیعات دان اور ماہرِ فلکیات سٹیون ہاکنگ کی کتاب A brief history of time, from big bang to black holesکا دیباچہ کارل سیگن نے لکھا ہے ۔ کارل سیگن بہت بڑا سائنسدان تھا ۔ اس کا ٹی وی پروگرام "Cosmos, a personal voyage"دنیا بھر میں پچاس کروڑ افراد نے دیکھا تھا۔ امریکی ٹی وی کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا ریکارڈ تھا ۔ اسی پروگرام پہ مشتمل پھر اپنی کتاب "Cosmos"اس نے تحریر کی ۔ اس دیباچے میں سیگن کچھ انتہائی دلچسپ حقائق لکھتا ہے ۔ وہ کہتاہے : ہم اپنی روزمرہ مصروفیات کے دوران کائنات کے بارے میں کچھ بھی نہیں جان پاتے ۔ مثلاً (کرہ ء ارض پہ) زندگی کو ممکن بنانے والا وہ عمل ، جس کے دوران سورج کی روشنی پیدا ہوتی ہے ۔مثلاً وہ کششِ ثقل ، جس نے ہمیں زمین سے باندھ رکھا ہے اور جس کی عدم موجودگی میں ، ہم خلامیں اڑتے پھر رہے ہوتے ۔ مثلاً ہمارے اجسام کو بنانے والے وہ ایٹم ، جن کے استحکام پر ہماری زندگیوں کا انحصار ہے ۔کس قدر سچی بات کی کارل سیگن نے۔
اگر آپ کائنات پہ ، اپنی زمین اور اپنی زندگی پر غور کریں تو یہ کششِ ثقل ہی ہے ، جو کہ زندگی کا سب سے پہلا اور بنیادی جزو ہے ۔سب سے پہلی اور بنیادی چیز جو کہ زمین پر زندگی کو چاہئیے ، وہ توانائی ہے۔ اس توانائی کے بغیر نہ تو پودے اپنی غذا تیار کر سکتے اور نہ جانور ان پودوں سے اپنا پیٹ بھر سکتے ۔ اسی توانائی نے ہمیں منجمد ہونے سے بچا رکھا ہے ۔ اسی روشنی کو استعمال کرتے ہوئے پودے فضا میں آکسیجن خارج کرتے ہیں ۔ گلوکوز کے علاوہ اسی آکسیجن سے دماغ توانائی کشید کرتا اور پورے جسم کے تمام نظام چلاتا ہے ۔سورج میں یہ روشنی اور توانائی کبھی بھی پیدا نہ ہوتی ، اگر ہائیڈروجن گیس کے ایٹم ایک دوسرے کو اپنی کشش سے اپنی طرف نہ کھینچتے۔ نہ کبھی اتنی ہائیڈروجن گیس جمع ہوتی ، جس سے سورج بن پاتاکیونکہ سورج ہائیڈروجن گیس کا جلتا ہوا ایک گولہ ہی تو ہے ۔ 
پھر ہائیڈروجن کا یہ جلتا ہوا گولہ، یعنی سورج ایک عظیم کششِ ثقل کا مالک ہے ۔ اس کی کشش نے زمین اور دوسرے تمام سیاروں کو اس سے باندھ رکھا ہے ورنہ ہر سیارہ مختلف سمت میں دوڑ پڑتا ۔ سورج سے ہم دور چلے جاتے اور یہاں موجود زندگی منجمد ہوکر ختم ہو جاتی ۔ یہ سورج بھی خلا میں یونہی نہیں کھڑا بلکہ اسے بھی ایک کشش نے باندھ رکھا اور ایک مقرر راستے پر دوڑتے رہنے پر مجبور کر رکھا ہے ۔ آپ جانتے ہیں ، کس چیز کی کشش نے سورج کو تھام رکھا ہے ؟ کہکشاں کے مرکز میں موجود کروڑوں سورجوں کی مجموعی کششِ ثقل نے ۔کہکشاں کے مرکز کی اس خوفناک اجتماعی کششِ ثقل نے سورج کو کہکشاں کے مرکز کے گرد طواف پہ مجبور کر رکھا ہے ۔ ہمارے سورج نے آگے پھر اپنی کشش سے زمین اور تمام سیاروں کو اپنے ساتھ باندھ رکھا ہے ۔ یوں ایک ایٹم کی دوسرے ایٹم کو اپنی طرف کھینچنے اور زیادہ ایٹموں والی چیز کا کم ایٹم والی چیزکو اپنے ساتھ باندھے رکھنے اور اسے گھماتے رہنے پر اس پوری کائنات کا انحصار ہے ۔ اسی کشش کا نتیجہ یہ ہے کہ پوری کائنات ایک دوسرے سے بندھی ہوئی ہے اور تمام کائنات حالتِ سفر میں ہے ۔ 
یہ کششِ ثقل کس قدر اہم ہے ، ایک عام ذہن کبھی اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ انسان لاکھوں سال سے یہ دیکھ رہا تھا کہ کسی بھی چیز کو ہوا میں چھوڑیں تو وہ زمین پر گرتی ہے ۔ وہ زمین پر کیوں گرتی ہے اور ہوا میں کھڑی کیوں نہیں رہتی یا نیچے گرنے کی بجائے اوپر آسمان کی طرف کیوں نہیں چلی جاتی، یہ سوال ایک عام ذہن میں نہ آسکتا تھا۔ اس لیے کہ ایک چیز جو بار بار رونما ہو، ایک عام ذہن اس کا عادی ہو جاتا ہے ، خواہ وہ انتہائی حیرت انگیز کیوں نہ ہو ۔ جیسا کہ رحمِ مادر میں بچے کی تخلیق کا عمل ، جو کہ کائنات کے بڑے عجوبوں میں سے ایک ہے ۔ اس عمل کو ہم for grantedلیتے ہیں ؛حالانکہ یہ عمل اس قدر حیرت انگیز ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی اس پہ سوچتا رہے تو کم ہے ۔ خیر،اس کششِ ثقل کی وضاحت کرنا جو ہر چیز کو زمین پہ گرا دیتی ہے ، سورج کے گرد زمین اور زمین کے گرد چاند کی گردش کی وضاحت کرنا، سیاروں کے مداروں کی وضاحت کرنا، یہ انسانی تاریخ کے عظیم الشان کارنامے تھے ۔ ایک عام ذہن کے نزدیک تو یہ سوال ہی احمقانہ ہے کہ کوئی بھی چیز ہوا میں چھوڑ دی جائے تو وہ زمین پہ کیوں گر جاتی ہے اور اپنی جگہ معلق کیوں نہیں رہتی ۔ 
کششِ ثقل کے زندگی پر اثرات لا محدود ہیں ۔ ہماری پوری زندگی ہی کششِ ثقل سے لڑتے گزر جاتی ہے ۔ جیساکہ کارل سیگن نے کہا، یہ کشش نہ ہوتی تو ہم خلا میں اڑتے پھر رہے ہوتے ۔اسی کششِ ثقل کی وجہ سے ہمیں پیدل چلتے ہوئے زور لگانا پڑتا ہے ۔ اسی کششِ ثقل کی وجہ سے فیڈرالٹا کرنے سے دودھ بچے کے منہ میں جاتا ہے ۔ اگر یہ کشش بہت زیادہ ہوتی تو ہم زمین سے زیادہ چپک جاتے اور حرکت کرنا مشکل ہو جاتا۔ اگر یہ کشش کم ہوتی تو چاند پر چلنے والے خلابازوں کی طرح ہم چھلانگیں لگاتے پھر رہے ہوتے۔اسی کششِ ثقل کی وجہ سے بھاری چیزوں کو اٹھا کر دوسری جگہ لے جانا اتنا مشکل ہوتا ہے ۔ انسان نے اس کا حل یہ نکالا کہ پہیے کی شکل میں ایک ایسی گول چیز ایجاد کی، جس سے وزنی چیزوں کو حرکت دینا آسان ہوگیا۔گول ہونے کی وجہ سے انسان نے زمین کی کششِ ثقل ہی کو استعمال کرتے ہوئے وزنی چیزوں کو حرکت دینا آسان بنا دیا۔ پھر دوسرا حل یہ نکالا کہ کوئلے، تیل او رگیس کو جلا کر ایک قوت پیدا کی اور اس قوت کی مدد سے کششِ ثقل کو توڑ ا۔ یوں جتنی دیر اس کوئلے، تیل اور گیس سے توانائی پیدا ہوتی رہتی ہے ، انسان گاڑی اور ہوائی جہاز میں سفر کرتا رہتا ہے ۔ راکٹ میں تو خیر وہ اس کششِ ثقل کی حدود سے باہر ہی نکل جاتا ہے ۔ جن لوگوں کا وزن زیادہ ہوتاہے ، انہیں کششِ ثقل کے خلاف حرکت کرنے کے لیے زیادہ قوت لگانا پڑتی ہے ۔ فرض کریں کہ یہ کششِ ثقل نہ ہوتی تو جو گاڑی ایک دفعہ چل پڑتی ، وہ پھر چلتی ہی رہتی ۔ جتنی رفتار ایک دفعہ وہ حاصل کر لیتی، اسی پر لامحدود وقت تک چکر لگاتی رہتی ۔ زندگی گزارنے کے لیے یہ کششِ ثقل بہت ضروری تھی۔ آپ اندازہ کریں کہ گلاس میں سے پانی آپ کے منہ میں نہ جا رہا ہوبلکہ اپنی جگہ پر معلق ہواور آپ کو منہ آگے بڑھا کر پانی کو منہ میں لے جانا پڑے۔ شیر خوار بچوں کو کون سمجھاتا کہ اب پانی آگے بڑھ کر پینا پڑے گا۔ یہاں سے اندازہ ہوتاہے کہ نارمل زندگی گزارنے کے لیے کششِ ثقل کس قدر ضروری تھی ۔ 
اب ذرا اندازہ لگائیںکہ اگر خدا انسان کو ایسی قوت عطا کر دے کہ وہ جب چاہے، کششِ ثقل کو معطل کر سکے تو کیسا لطف آتا۔ جس طرف انسان کا جی چاہتا، وہ اڑتا پھرتا ۔ گاڑی میں ایندھن ڈلوانے کی فکر ختم ہو جاتی ۔ ایک روز ایسا ہوگا ضرور لیکن اس دنیا میں نہیں ۔ اگلی دنیا میں جس قدر وسیع و عریض جنت کا ایک ایک آدمی سے وعدہ ہے ، اس کی سیر تبھی ہوگی، جب کششِ ثقل کی قید سے انسان آزاد ہوگا ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں