"FBC" (space) message & send to 7575

تحقیق کا راستہ

ہم جانتے ہیں کہ کچھ لحاظ سے آج ایک پسے ہوئے مزدور کی زندگی بھی ماضی کے بادشاہوں سے زیادہ آرام دہ ہے ۔ عالیشان محلات کے مالک بھی اونٹوں اور گھوڑوں پر کئی کئی ماہ طویل سفر کیا کرتے کہ انجن ایجاد ہی نہ ہوا تھا۔ آج ایک مزدور بھی بس اور ٹرین میں دوردراز کے شہروں سے چند دنوں میں ہو آتا ہے۔ بادشاہوں کے پاس بجلی سے چلنے والے پنکھے نہیں تھے ۔ آج غریب سے غریب شخص بھی برقی پنکھا استعمال کرتاہے ۔ اسی طرح سلنڈر میں گیس بھروا کر لکڑیوں کی نسبت کہیں آسانی سے کھانا بنا یا جاتا ہے ۔ آج غریب سے غریب شخص بھی موبائل پر اپنے عزیزوں سے بات کر لیتا ہے ۔ بادشاہ جب مہینوں کی مسافت پر ہوتے تو ایک خط بھیجنا اور موصول کرنا بھی ایک عذاب ہوا کرتا۔ آپ جانتے ہیں کہ زندگی میں یہ آسانیاں کس نے بھریں ؟ تحقیق کرنے والوں اور ماہرین نے ۔ان کا یہ غورو فکر انسانیت کے ماتھے کا جھومر ہے ۔ 
ہر شعبے کو ماہرین چلاتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں ، جو کسی شعبے پر سوچتے ہوئے اپنی زندگیاں گزار دیتے ہیں ۔غور و فکر کرنے والے یہ لوگ ہی ایجادات کرتے ہیں۔ آج آپ جس کاغذ اور قلم کو استعمال کرتے ہوئے کالم لکھ رہے ہیں ، یہ ماہرین کا ایجاد کردہ ہے ۔ آج آپ جس کمپیوٹر پر چند لمحات میں اپنی بات یورپ تک پہنچا دیتے ہیں ، یہ ماہرین نے ایجاد کیا تھا ۔ آج آپ بجلی سے چلنے والے جن سینکڑوں ایجادات سے محظوظ ہو رہے ہیں ، یہ سب ماہرین کے ہزاروں برس کے غور وفکر کا ثمر ہے ۔ انسان کا دما غ غور کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتا ہے ۔ ہر دماغ اپنے اندر ایک پوری کائنات ہے ۔ جب یہ کائنات کسی شے پر غور کرنے لگتی ہے تو جب خدا کو منظور ہو، یہ ایک ایجاد کر ڈالتی ہے ۔ مختلف لوگ مختلف شعبوں میں جاتے ہیں۔ اپنے اپنے شعبے میں وہ مہارت کا درجہ حاصل کرتے ہیں ۔ گاڑیوں کا ایک ماہر انجن کی آواز سن کر بتا دیتا ہے کہ کہیں کوئی مسئلہ ضرورت ہے ۔ ہزاروں لوگ ایک راستے سے سفر کرتے ہیں ۔ پھر ایک شخص آتا ہے ، جسے اللہ نے دیکھنے والی آنکھ دی ہوتی ہے ۔ وہ کہتا ہے ، بے وقوفو، یہاں ڈیم بنے گا۔ یہ جگہ تین اطراف سے پہاڑوں نے گھیری ہوئی ہے ۔ چوتھی طرف صرف ایک دیوار بنانے کی ضرورت ہے ۔ وہ بتاتا ہے کہ اگر کسی اور جگہ ڈیم بنائو گے تو تمہیں چار دیواریں تعمیر کرنا ہوں گی، جب کہ یہاں صرف ایک کی ضرورت ہے ۔ وہاں تمہارا خرچ ڈیڑھ سو ارب روپے آئے گا، یہاںصرف پچیس ارب ۔ انسانوں کی اکثریت احکامات پہ عمل درآمد کرنے والی ہوتی ہے ۔ بیچ میں کچھ ایسے ذہن ہوتے ہیں ، جو انہیں احکامات دیتے ہیں ۔ یہ احکامات دینے والے کون ہیں ؟ یہ ماہر (experts)ہیں۔ 
یہ سوچنے سمجھنے والے لوگ تھے، جنہوں نے سمت نما (Compass)ایجاد کیا۔ ہرسمت کو ایک نام دیا۔ ہر راستے کو ایک نام دیا۔ وہ ڈھونڈتے رہے ، کھوجتے رہے۔ زمین کے نیچے سے کوئلہ اور تیل نکالا ۔ انہوں نے نظر نہ آنے والی ہوائوں پر تحقیق کی۔ ہو امیں نمی کا تناسب دریافت کیا۔ نظر نہ آنے والی آکسیجن کی مقدار ماپی۔مستقبل میں بارش کا اندازہ لگایا۔ لوہے کے انجن میں تیل جلا کر جہاز اڑایا ۔ اس نے زمین کے نیچے پگھلے ہوئے لوہے سے پیدا ہونے والے مقناطیسی میدان پر مضامین لکھے ۔ انسان خلا میں پہنچ گیا۔ وہاں سے اس نے دیکھا کہ زمین ایک سیدھی سطح نہیں بلکہ گول کرّہ تھی ۔ اس نے شیشے استعمال کرتے ہوئے دوربینیں ایجاد کیں ۔ دور دراز کے سورجوں ، کہکشائوں پر نظر ڈالی ۔ یہ ماہرین سوچتے رہے ، سوچتے رہے ۔ انہوں نے دیکھا کہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دور بھاگ رہی تھیں ۔ وہ بگ بینگ تک پہنچے ۔ انہوں نے کائنات کی ابتدا میں ہونے والے عظیم الشان دھماکے کے بچ رہنے والے آثار (Radiation)ڈھونڈی ۔ انہوں نے یہ دریافت کیا کہ زمین ماضی میں گرم اور سرد ہوتی رہی ہے ۔ 
ماہرین تحقیق میں مصروف رہے ۔ انہوں نے ہر جرثومے کو ایک الگ نام دیا ۔ ماضی میں ان وبائوں نے شہروں کے شہر اجاڑ ڈالے تھے ۔1950ء کی دہائی میں امریکہ کے ہسپتال پولیو کے شکار بچوں سے بھرے ہوئے تھے ۔ ماہرین نے پولیو کے جراثیم کو پہنچانا ۔ ان کی ویکسین ایجاد کی۔ آج دنیا تقریباً پولیو فری ہو چکی۔ 
لاکھوں سال قبل، جب انسان زمین پہ اتارا گیا تو کرئہ ارض پہ جانوروں کا راج تھا۔ ان جانوروں کے پاس بڑے بڑے نوکدار دانت اور سینگ موجود تھے۔ ان کا ایک تھپڑ انسان کی گردن توڑ سکتا تھا۔ یہ تحقیق کرنے والے ، غور و فکر کرنے والے لوگ ہی تھے ، جنہوں نے ہمیں ان سے نمٹنا سکھایا۔ جنہوں نے جانوروں کو پالتو بنایا۔ اس جانوروں کو پالتو بنا کر انسان نے ان کا دودھ دوہ لیا۔
تحقیق دو قسم کی ہے ۔ انسان نے اسی تحقیق کے نتیجے میں یہ جانچ لیا ہے کہ کرئہ ارض گول ہے ۔ کل یہ ثابت نہیں ہوسکتا ہے کہ یہ چوکور ہے ۔ پانی کی کثافت دریافت کی گئی ۔ اسے توڑ کر یہ جانچ لیا گیا کہ وہ ہائیڈروجن اور آکسیجن گیس کے اشتراک سے بنا ہے۔ کل کو یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ پانی کاربن سے بنا ہے ۔ ایک تحقیق یہ ہے کہ سیب کھانے والے دوسروں سے زیادہ ہنستے ہیں ، زیادہ زندہ دل ہوتے ہیں ۔ یہ کوئی سائنسی تحقیق نہیں ۔ اس طرح کے موضوعات پر یونیورسٹیوں کے طلبہ ایک سوالنامہ لکھ کر دو چار ہزار لوگوں میں تقسیم کر دیتے ہیں ۔ اکثر لوگ پڑھے بغیر اسے پر کر کے اپنی جان چھڑاتے ہیں اور ان کے نتائج شائع بھی ہو جاتے ہیں ۔ کبھی کوئی سائنسدان یا کوئی حقیقی ماہر اس طرح کی چیزوں کو سنجیدہ نہیں لیتا۔ جس طرح ایک کالم نگار کی مرضی ہے کہ زمین و آسمان پہ لکھے، سیاست کی باریکیوں پہ یادکاندار سے ہونے والے مکالمے پر ۔
سچی بات تویہ ہے کہ انسان اگر انسان ہے، اگر وہ سب دوسرے جانوروں پہ غالب ہے تو یہ تحقیق اور غور و فکر ہی کا نتیجہ ہے ۔ یہ سفر ماہرین کی رہنمائی میں طے ہوا ہے ۔ انسان یہاں تک پہنچ چکا کہ ماہرین اب سٹیم سیل سے لیبارٹری میں اعضا تیار کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے ۔گردہ ایک انسان کے جسم سے نکال کر دوسرے کے جسم میں کون ڈالتا ہے ؟ ماہر ۔ آپ اگر خدا کے الفاظ سنیں تو وہ فرماتا ہے کہ علم رکھنے والا اور علم نہ رکھنے والا، یہ دونوں کبھی برابر نہیں ہو سکتے ۔ پھر وہ فرماتا ہے فخر سے کہ وہ لوگ زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرتے ہیں ۔۔۔اب اس کے بعد آپ بتائیں کہ قومی سطح پر لکھنے والا ایک لکھاری تحقیق کے خلاف ہی مضمون لکھ مارے ۔ کیا یہ رہنمائی ہو رہی ہے عوام الناس کی ، جنہوں نے ہم لکھنے والوں سے سیکھنا ہے؟فرض کریں کہ آپ کو انجن پر مضمون لکھنے کو ملا ہے ۔ آپ موٹر سائیکل کے کمزور سے انجن پر پورا مضمون لکھ کر دے دیتے ہیں اور این ایل سی کے ٹرالے یا لینڈ کروزر کے طاقتور انجن پر روشنی نہیں ڈالتے جو ٹنوں وزن کھینچ سکتا ہے ۔ خدارا عوام کو وہ راستہ دکھائیں ، جس سے وہ ترقی کی راہ پر چل سکیں ۔ یہ راستہ تحقیق ہی کا راستہ ہے اور عقل کا راستہ ہے ۔ صرف غور و فکر کرنے والے ہی ماہرین کی رہنمائی میں اسے طے کر سکتے ہیں ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں