"FBC" (space) message & send to 7575

دشمن…(2)

ماہرِ نفسیات حیران تھا ۔ اس سے پہلے اس طرح کا کوئی کیس اس کے پاس نہیں آیا تھا۔ اس شخص کا کہنا تھا کہ ایک چھپے ہوئے دشمن نے اس کے خلاف سازش کی ہے ۔یہ دشمن خطرناک ٹیکنالوجی سے لیس ہے ۔ وہ اسے اور اس کے اہلِ خانہ ، سبھی کو ہپناٹائز کر چکا ہے ۔ سب کے ہاتھ میں سمارٹ فونز اور سب کی آنکھوں پر ڈیجیٹل گلاسز ہیں ۔ اب اپنی مرضی سے وہ کچھ سوچ بھی نہیں سکتے ۔اس نے کہا: موبائل پر واٹس ایپ اور وائبر پر مجھے ایسے لوگوں کے پیغامات موصول ہوتے ہیں ، جنہیں میں جانتا بھی نہیں ۔قطعی طور پر انجان نمبروں سے وہ بھیجے جاتے ہیں۔ جب میں فون کر کے ان سے پوچھتا ہوں کہ تم کون ہو اور میرے نمبر پر یہ غیر ضروری معلومات تم کیوں بھیج رہے ہو تو وہ ہنس پڑتے ہیں ۔ایک بار ایک شخص نے کہا ، آپ کو اس لیے اس گروپ میں شامل کیاگیا ہے ، تاکہ اچھی معلومات کا تبادلہ ہو سکے ۔ آپ بھی گروپ میں کچھ نہ کچھ بھیجتے رہا کریں ۔ میں نے اسے برا بھلا کہنا شروع کیا تو اس نے بھی مجھے بے نقط سنائیں ۔غیر ضروری انفارمیشن کا ایک سیلاب ہے ، جو دن اور رات کے چوبیس گھنٹوں میں جاری رہتا ہے ۔یہ پیغامات رات گئے میرے موبائل پر موصول ہوتے ہیں اور میں جاگ اٹھتا ہوں ۔ اذیت دینے کے لیے میرا دشمن مجھے زبردستی جگاتا ہے ۔ 
مریض نے کہا ،ایک بار بھی اگر میں انٹرنیٹ پر ضروریاتِ زندگی کی کسی چیز کو کھول کر دیکھ لوںتو کئی مہینے تک اس چیز کو بنانے والی کمپنیوں کے اشتہارات میرے موبائل اور لیپ ٹاپ میں موصول ہوتے رہتے ہیں ؛حتیٰ کہ میں زچ ہو جاتا ہوں ۔ اس خوف سے اب میں کسی نئی چیز کو کھول کر دیکھتا بھی نہیں ۔ ایک سازش کے تحت موبائل اور لیپ ٹاپ کو آپس میں جوڑ دیا گیا ہے ۔موبائل سب سے زیادہ خطرناک ہے ۔ اگر میں اسے کہیں پھینک بھی دوں تو میری ہپناٹائز اولاد اور بیوی میرے ہاتھ میں ایک نیا موبائل پکڑا دیتے ہیں ۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ نئے موبائل میں سنکرونائزنگ کے ذریعے پرانے موبائل کا سارا ڈیٹا پلک جھپکنے میں آجاتا ہے ۔ جن چیزوں کو میں بھولنا چاہتا ہوں ، وہ بار بار مجھے یاد کرائی جاتی ہیں ۔اس نے کہا'' مجھے اپنا دماغ آزادی سے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ۔ مجھے جس غیر ضروری انفارمیشن کے سیلاب میں بہا دیا گیا ہے ، میں صرف اس پر اپنا ردّعمل دے سکتا ہوں ۔ ‘‘
''اور میری ہپناٹائز ڈاولاد ‘‘ اس نے تلخی سے کہا '' اسے اب مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔ ان کے لیے اب میں پیسے کمانے والا، وزن ڈھونے والا ایک جانور ہوں ۔آج سے بارہ سال پہلے، جب میں گھر آیا کرتا تو میری بیٹی دوڑ کر میرا استقبال کرتی ۔ بڑا بیٹا میرے ہاتھ سے بریف کیس لے لیتا۔ وہ مجھے دن بھر کے قصے سناتے ۔ میری بیوی تازہ پکا ہوا گرما گرم کھانا میرے سامنے رکھتی۔ میں کھانا کھاتے ہوئے اپنے بچوں کی باتیں سنتا ۔ ان کی باتوں کے پر تبصرے کرتا۔ وہ میری باتیں سن کر ہنستے ، میں ان کی سن کر ہنستا۔ میری زندگی کا وہ سنہرا دور ختم ہو چکا ہے ۔ اب میری باتیں سننے والا کوئی نہیں ۔ اب مجھے اپنی باتیں سنانے والا کوئی نہیں ۔ میرا گھر اجڑ کر رہ گیا ہے ۔ جب میں گھر میں داخل ہو تا ہوں تو ایسا لگتاہے ، ایک جیل میری منتظر ہے ۔ ہر کمرے میں سمارٹ فون ہاتھ میں پکڑے لیپ ٹاپ گود میں رکھے، ایک اجنبی قیدی اپنی سزا کاٹ رہا ہے ۔ کئی بار مجھے شبہ ہوتا ہے کہ کیا وہ میرے بچّے ہی ہیں یا بہروپ دھارے ہوئے دشمن ۔ میری اولاد میں سے ہر ایک کے پاس اب درجنوں دوست ہیں۔وہ سب ایک دوسرے کو کھیل تماشے کی باتیں بتاتے رہتے ہیں ۔ وڈیوز شیئر کرتے رہتے ہیں ۔ میری باتیں اب انہیں غیر دلچسپ لگتی ہیں ۔ مجھے ایک انسان چاہیے ، جو میری باتیں سن کر مسکرائے ، مجھے اپنی باتیں سنائے ۔ ‘‘ ڈاکٹر نے دیکھا ، مریض کسی انسان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بری طرح ترس رہا تھا ۔
وہ بولتا رہا ۔اس نے کہا '' مجھے اپنی بیٹی سے بہت محبت تھی ۔ جب میں گھر آتا ، وہ مجھ سے لپٹ جایاکرتی ۔ میں اسے ہنسانے کے لیے سچی جھوٹی باتیں سناتا۔ وہ ہنستی رہتی ۔ اب تو وہ میری طرف دیکھتی ہی نہیں بلکہ کھوئی کھوئی نظروں سے موبائل اور لیپ ٹاپ کی طرف ہی دیکھتی رہتی ہے ۔ ہائے میری بیٹی ۔ میں اس سے ملنے کے لیے ترس گیا ہوں‘‘ وہ دھاڑے مار مار کر رونے لگا ۔
''میرا بیٹا ‘‘ پھر اس نے بلکتے ہوئے کہا'' پہلے وہ میرے ساتھ فٹ بال کھیلا کرتا تھا ۔ اب اسے بھی مجھے میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ وہ ہذیانی لہجے میں بولتا رہا ۔ اس نے کہا '' پہلے ہفتے میں ایک بار ہم باہر جایا کرتے ۔ کہیں کسی پر فضا مقام پر درختوں کے نیچے گھاس پر بیٹھتے ۔ مزیدار کھانا کھاتے اور ہنستے کھیلتے ۔ اب اوّل تو وہ میرے ساتھ جانے پر رضامند نہیں ہوتے ۔ ہر ایک انکار کے بہانے ڈھونڈ رہا ہوتا ہے ۔ پھر اگر چلے بھی جائیں تو وہ میری طرف دیکھتے ہی نہیں ۔ اپنے اپنے سمارٹ فون پر مصروف رہتے ہیں ۔‘‘ 
ڈاکٹر نے کہا '' یہ سب تو جدید طرزِ زندگی ہے ۔ اس میں پریشانی کی کوئی بھی بات نہیں ۔ ‘‘ '' میں اپنی بیوی کے ہاتھ کالذیذ کھانا کھانے کو ترس گیا ہوں ‘‘ مریض نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا ''وہ آلو قیمہ بہت مزے کا بنایا کرتی تھی ۔ دشمن میرے گھر کے اندر گھس چکا ہے ۔ مجھے یاد نہیں آخری بار گھر کا کھانا میں نے کب کھایا تھا۔ اب ہر تین چار گھنٹے بعد دشمن کا بھیجا ہوا آدمی ڈبے میں بند اشیائے خورونوش پکڑا کر چلا جاتا ہے ۔وہ مجھے دن رات پیزے، برگز، چینی اور گیس سے بھرے ہوئے ٹھنڈے مشروبات پلاتے ہیں ۔ یہ سب کھاتے ہوئے میری وزن بری طرح بڑھا ہے ۔ ‘‘ اس نے اپنی قمیض اٹھائی ۔ ڈاکٹر نے دیکھا ، مریض کاچربی سے بھرپور پیٹ نیچے لٹک رہا تھا ۔اس نے کہا''ڈاکٹر صاحب، اگر میں صحت مند خوراک منگوا بھی لوں تو میرے اردگرد کے لوگ استہزا بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہیں ۔ ان سب کے درمیان میں اجنبی اور ہونق لگنے لگتا ہوں ۔‘‘ ڈاکٹر نے دیکھا، وہ صحت مند خوراک کھانے کے لیے ترس رہا تھا ۔
یہاں ایک لمحے کے لیے مریض نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا اور چونک اٹھا ۔ ڈاکٹر بھی رو رہا تھا ۔ پھر اس نے آہستگی سے کہا '' میری بیٹی بھی۔۔۔‘‘ ''ڈاکٹر ، تمہارے ساتھ بھی یہی ہورہا ہے ؟ ‘‘ مریض نے پوچھا ۔ ڈاکٹر نے اثبات میں سرہلایا ۔ پھر اس نے قمیض کے بٹن کھول کر مریض کو اپنا پیٹ دکھایا۔ وہ چربی سے بھرا ہوا تھا ۔ 
ڈاکٹر نے کہا '' میری بات غور سے سنو ۔ وہ ہر کہیں ہیں ۔ اس وقت بھی وہ ہماری بات سن رہے ہوں گے ۔ ہمیں بہرحال اس پاگل پن کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔ جب ہم صحت مند خوراک منگوائیں گے ، جب ہم پیدل چلیں گے اور جب ہم دوڑلگائیں گے ۔جب ہم چینی سے بھرے مشروبات اور مایونیز سے بھرے برگر ٹھکرائیں گے تو وہ ہمارا مذاق اڑائیں گے ۔ ہمیں بہرحال ان کا مقابلہ کرنا ہے ۔ ہار ماننے کی کوئی صورت نہیں ۔ ہمیں اپنے جیسوں کو اکٹھا کرنا ہے۔ ہمیں شور مچانا ہے ۔ ہمیں عقل کی بات کرنی ہے ۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے !‘‘

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں