کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ پروفیسر احمد رفیق اختر جیسا استاد اگر میسر نہ آتا تو میں کہاں ہوتا، کس حال میں ہوتا۔ میں آج جس مقام تک پہنچ سکا ہوں ، اللہ کے فضل سے یہ میرے استاد پروفیسر احمد رفیق اختر ہی کی عنایت ہے ۔ لکھنے کی تربیت والد صاحب نے کر دی ۔ پروفیسر صاحب کے پاس بھی وہی لے کر گئے۔ یوں بیٹھے بٹھائے میں یہ سب کچھ لکھنے کے قابل ہو گیا‘ آپ لوگ جسے پذیرائی بخشتے ہیں ۔ پروفیسر صاحب کا شاگرد ہونا اس قدر بڑے اعزاز کی بات ہے کہ الفاظ ختم ہو جاتے ہیں ۔ ہومو نی اینڈرتھل کے بارے میں انہوں نے بتایا ۔فاسلز کی سائنس ان کی وجہ سے پڑھنی شروع کی۔ سات آسمانو ںسے سات کائناتوں کی تشریح انہوں نے کی ۔ قرآن کی پہلی آیت ''یہ وہ کتاب ہے ، جس میں کوئی شک نہیں ‘‘ سے یہ تھیسز انہوں نے تشکیل دیا کہ خدا غلطی نہیں کرتا اور غلطی کرنے والا خدا نہیں ہو سکتا۔ جن لوگوں کے پاس بہت کم علم ہے ، زمانہ ء آخر میں انتہائی تیز رفتاری سے بڑھتے ہوئے انسانی علم کو دیکھ کر وہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ مذہب والے اب لا جواب ہو جائیں گے۔ جینز میں تبدیلی (Gene Editing)کو دیکھ کر وہ پریشان ہو جاتے ہیں ؛حالانکہ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ خدا نے ہی انسانی دماغ بنایا ۔ اسی دماغ سے انسان جین ایڈیٹنگ تک پہنچا ۔ زندہ خلیات تخلیق کرنے ، اس کے جینز تخلیق کرنے والے رب کو بھلا انسانی علم سے کیا پریشانی ہو سکتی ہے ۔ جس نے انسانی دماغ تخلیق کیا، کیا اسے اندازہ نہ تھا کہ یہ دماغ جین ایڈیٹنگ تک پہنچے گا۔جہاں انسان کا علم ختم ہوتاہے ، وہاں سے خدا کا علم شروع ہوتاہے ، یہ رہنمائی بھی پروفیسر صاحب ہی نے کی ۔ یہ بھی کہ زمانہ ٔ آخر میں جہاں تک انسانی علم رسائی اختیا ر کرے گا، خدا اس پر پہلے ہی تبصرہ کر چکا ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ انسان نے جو کرنا تھا، کر لیا۔ آخری پیغمبرؐکو پردہ فرمائے چودہ سو سال گزر چکے ۔ کرّئہ ارض کی تاریخ جاننے والوں کو معلوم ہے کہ ایک نہیں ، کئی بار ایسے حادثات یہاں گزر چکے ، جب گنی چنی مخلوقات کے علاوہ باقی سب صفحۂ ہستی سے ناپید ہو گئے ۔جس قدر وسائل اور وقت انسان کو دیا گیا ہے ، اس میں وہ نظامِ شمسی سے نکل کر کسی دوسرے سورج کے سیاروں تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے آپ ایک بچے کو تین پہیوں والی سائیکل ، دو پیکٹ چپس اور ایک بوتل پانی دے کر موٹر وے پر چھوڑ دیں تو اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ وہ لاہور سے اسلام آباد پہنچ جائے گا ۔آپ چھپ کر اسے دیکھتے رہیں گے اور جب خوراک ختم ہو جائے گی ، تب آپ ہی کو جا کر آگے کا بندوبست کرنا ہوگا۔ یہی معاملہ زمین پر انسانوں کے ساتھ خدا کا ہے ۔ زندہ رہنے کے لیے جس طرح کی حفاظت اور وسائل چاہئیں ، وہ زمین کے علاوہ نظامِ شمسی کے دوسرے سیاروں پر نہیں ہیں ۔ عالمی شہرت یافتہ سائنسدان سٹیون ہاکنگ نے کہا تھا کہ اگر انسان نے اگلے سو برسوں تک کسی اور سیارے پر رہائش اختیار نہ کی تو وہ مٹ سکتا ہے ۔انسان آج تک اس قابل بھی نہیں ہوسکا کہ برف سے اٹے ہوئے براعظم انٹارکٹکا کو مستقل طور پر قابلِ رہائش بنا سکے ۔ دوسرے سیاروں پر تو حالات اس سے کہیں زیادہ خراب ہیں ۔ اگر انسان کو ایسی کسی زمین پر رہنا بھی پڑے تو یہ زندگی کسی خوفناک سزا سے کم نہ ہوگی ۔ وہ زمینیں ایسی نہیں کہ جہاں بارشیں برسیں ، بہتات میں پھل اور سبزیاں پیدا ہوں ، آکسیجن ہر جگہ موجود ہو ، کینسر سے بچانے والے مقناطیسی میدان موجود ہوں ۔کششِ ثقل اور کرئہ فضائی کا دبائو مناسب ہو ۔ وہاں اس سے کہیں بدتر حالات کا انسان کو سامنا کرنا پڑے گا، جس سے سائنسدانوں کو انٹارکٹکا میں واسطہ پڑتا ہے ۔
پروفیسر صاحب سے ایک بار یہ سوال کیا: جب حدیث میں یہ کہا جا تاہے کہ قیامت کے دن فلاں اور فلاں شخص کے علاوہ کسی کوعرش کے سائے میں پناہ نہیں ملے گی تو اس سے مراد کیا ہے ۔ سایہ تو تب بنتا ہے ، جب سورج کی شعاعیں کسی ٹھوس جسم سے گزر نہ سکیں تو جس جس جگہ سے وہ شعاعیں گزر نہیں سکتیں ، وہاں سایہ createہو جاتاہے ۔اُس روز روشنی کا منبع کیا ہوگا ۔ پروفیسر صاحب بے اختیار مسکرائے اور یہ کہا : یہ بات نہیں ۔ اس طرح تو تیز روشنی کم روشنی کو بھی سایہ بنا دیتی ہے ۔ اس سائے سے مراد یہ ہے کہ فلاں شخص پر اللہ نظرِ کرم فرمائے گا اور فلاں پر نہیں ۔کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر ایک دو سال تک میں بھرپور مطالعہ اور محنت سے سوالات تشکیل دے سکوں تو انتہائی دلچسپ مضامین لکھے جا سکتے ہیں ، جسے پڑھنے والوں کو بھی لطف آئے۔بہرحال ہر چیز کا ایک وقت ہوتاہے ۔ اس وقت مجھے جن چیلنجز کا سامنا ہے اور میری جو مصروفیات ہیں ، ان پر بعد میں تفصیل سے لکھوں گا ۔ پڑھ لکھ کر فارغ التحصیل ہونے والوں کے لیے یہ خصوصی دلچسپی کا باعث ہوگا۔
18فروری کو منعقد ہونے والے پروفیسر صاحب کے سالانہ لیکچر میں شرکت کے لیے پاکستان آئے ہوئے ڈاکٹر عبد الجلیل سے دو دلچسپ نکات سیکھنے کو ملے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی جگہ ایک استاد ہیں ۔ انہیں پروفیسر صاحب کا جانشین سمجھا جاتا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا اگر ذائقہ (Taste)ختم ہو جائے تو کھانا کھانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے ۔ باوجود اس کے کہ جسم کو اس کی ضرورت ہوتی ہے ۔ گویا ذائقہ بھی ایک سائنس ہے ، جسے پڑھنا چاہیے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں کہا : یہ تھیوری ختم (Obsolete)ہو چکی کہ ذہین ترین انسان بھی اپنی زندگی میں دماغ کا پانچ یا دس فیصد استعمال کر پاتا ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ دماغ کے مختلف حصے مل کر کام کرتے ہیں ۔ جب پروفیسر صاحب لیکچر دیتے ہیں تو دماغ کا یادداشت والا حصہ بھی کام کر رہا ہے ۔ بولنے والا تو کر ہی رہا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ حاضرین کو دیکھ بھی رہے ہیں ؛لہٰذا آنکھوں سے ڈیٹا دماغ کے پچھلے حصے میں بھی جا رہا ہے ۔ کانوں اور دوسری حسیات سے بھی inputجا رہی ہے ۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی یاد ہے کہ سامنے صرف مرد نہیں بلکہ خواتین بھی تشریف فرما ہیں ۔یوں پورا دماغ مل کر کام کر رہا ہوتا ہے ۔
ڈاکٹر عبد الجلیل بھی ایک شخص کا صرف نام سن کر اس کی شخصیت کو جان جاتے ہیں ۔کسی نے ایک شخص کا نام لیا ، جو مسلسل تکلیف سے گزر رہا تھا۔ کہا ، یہ ایساشخص ہے ، جس کی کوئی گردن کاٹنے لگے تو یہ اسے کہے گا، ذرا نیچے سے کاٹو تاکہ بعد میں دیکھنے والوں کو میرا سر بلند نظر آئے ۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ شدید تکالیف کے باوجود اس کے منہ سے کبھی کسی نے 'ہائے‘ کا لفظ نکلتے نہیں سنا ۔
پروفیسر صاحب کے سالانہ لیکچر ''طریقِ شہرِ محبت ، راستے ، نا راستے ‘‘ (The way to the city of love)پر میرا کالم ادھار رہا ۔سچی بات تو یہ ہے کہ ادھار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور لوٹانے کی کوئی امید نظر نہیں آتی ۔