"FBC" (space) message & send to 7575

سٹیفن ہاکنگ .... (2)

سٹیفن ہاکنگ کی موت کے بعد ایک بہت بڑا سوال پیدا ہوا ۔ آپ سب لکھنے پڑھنے والے اس کا جواب دیں۔ خدا کی تلاش، اس کے وجود کا انکار یا اقرار کیا صرف سائنسدانوں کو کرنا ہوتاہے یا ہر عام انسان کو۔ ہر کسان، ریڑھی والے ، حجام اور دکاندار کو۔ ہر جوان اور بوڑھے کو۔ اگر تودنیا کا سب سے بڑا سائنسدان ہی اس کا جواب دینے کے قابل ہوتا تو کیا دنیا کے سات ارب انسان خدا سے یہ شکوہ نہ کرتے کہ ہماری عقل، ہماری بساط سے بڑا سوال ہم سے پوچھا جا رہا ہے ۔ ہم تو اتنے پڑھے لکھے نہیں کہ اس بات کا جواب دے سکیں۔ ہمارے پاس تو ایسی کوئی لیبارٹری بھی نہیں ، جہاں ہم تجربات کر سکیں۔ اس کے برعکس آپ دیکھیں کہ یہ سوال''تیرا خدا کون ہے ‘‘ ہر ان پڑھ سے بھی کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سوال اس قدر آسان اور سادہ ہے کہ انسانی عقل اگر ذرا سی بھی متوجہ ہوتو اسے فوراً خدا کے آثار نظر آنے لگتے ہیں ۔ میرے جیسا بندہ بھی آج یہ جانتا ہے کہ پانچ ارب مخلوقات میں سے صرف اور صرف ایک یعنی انسان ہی مذہب کے بارے میں گفتگو کرتا، لباس پہنتا اور کھانا آگ پر پکا کر کھاتاہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی عقل سے بڑا ثبوت اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا ۔ اب آپ یہ سوچیں کہ اس عقل کو استعمال کرتے ہوئے ، انسان زمین و آسمان کی ساری گتھیاں سلجھا لے ۔ بگ بینگ تک پہنچ جائے لیکن اس سوال پر غور ہی نہ کرے کہ انسان کے دماغ میں یہ عقل کس نے ڈالی تو کیا یہ منافقت نہیں ؟ 
ایک انیس سالہ لڑکے ایم جبران عباسی نے سٹیفن ہاکنگ کے بارے میں ایسی تحریر لکھی ہے ، جسے پڑھ کر میں حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا۔ اس اختلاف کے ساتھ کہ بے شک مسلمانوں نے تحصیلِ علم میں بہت سستی کی لیکن مسلمان کی سستی خدا کی سستی نہیں ہے ۔ آپ دیکھیں گے کہ جہاں بھی کائنات کے بارے میں کوئی Statementخدا دیتاہے ، وہ مکمل طور پر درست ہے۔ اس زمانے میں غالب نظریہ یہ تھا کہ زمین ساکن ہے اور کائنا ت کا محور و مرکز ہے ۔ سب اس کے گرد گھوم رہے ہیں ۔ یہ نظریہ آج مکمل طور پر غلط ثابت ہو چکا ہے ۔ قرآن نے یہ یا اس جیسا کوئی بھی غلط نظریہ نقل نہیں کیابلکہ جہاں بھی کائنات پر کوئی تبصرہ کیا ، وہ حرف بحرف درست ثابت ہوا۔ اب اس درست ثابت ہونے میں مرکزی کردار مسلمانوں کی بجائے عیسائیوں یا یہودیوں کا ہے تو یہ کس کا قصور ہے ؟ ہوا میں اڑنا غیر مسلموں نے سیکھا ۔ خلا میں پہلے وہ گئے۔ دوربین انہوں نے ایجاد کی ۔ بلیک ہول انہوں نے دریافت کیا۔ کہکشاں کا مرکز انہوں نے دریافت کیا۔ سور ج، چاند اور زمین کی گردش انہوں نے واضح کی۔ کرئہ ارض کے گرد گیسوں کا غلاف انہوں نے دریافت کیا۔ اس کے نیچے پگھلے ہوئے لوہے سے بننے والے مقنا طیسی میدان بھی عیسائیوں ، یہودیوں اور ملحدوں نے دریافت کیے ۔ شہد کی مکھیوں کے چھتے کا ڈیزائن انہوں نے دکھایا۔مکڑی کے جال کی بناوٹ انہوں نے نوٹ کی۔ چیونٹی کے بل میں کیمرہ انہوں نے گھسایا ۔ نظامِ شمسی سے باہر ایک مصنوعی سیارہ انہوں نے بھیجا۔بھیڑیوں اور کتوں کے غول میں سردار نر (Alpha Male) کا سراغ انہوں نے لگایا۔غول کے باقی درندوں کو اس الفا میل کے سامنے سرنگوں انہوں نے دکھایا ۔علاقے کے سب سے طاقتور نر اور مادہ شتر مرغ کو باقی سب کے انڈوں اور بچوں کی حفاظت کرتے ہوئے بھی انہوں نے ہی دکھایا۔ 
یہ سب کیا ہے ؟ یہ سب مسلمانوں کی سستی ہے ۔ یہ خدا کی سستی نہیں ہے ۔ خدا ڈیڑھ ہزار سال پہلے اگر بگ بینگ پر تبصرہ کر رہا ہے ، جب انسان کے وہم و گمان میں بھی بگ بینگ کا کوئی تصور موجود نہ تھا تو یہ اسے ہی زیبا ہے ۔ کیا ہم اپنے خدا پر فخر نہ کریں ؟ ہمارا علم کم ہے ۔ ہم سست اور ناقص ہیں ، خدا تو نہیں ۔ وہ تو آنے والے سب زمانوں کی خبر بھی دے چکا۔ وہ تو زمین پر زندگی کے اختتام پر بھی تبصرہ کر چکا۔ اس روز پہاڑ روئی کی طرح ہوا میں اڑ جائیں گے ۔ سورج اور چاند جمع کر دیے جائیں گے ۔ زمین پگھل جائے گی ۔ اپنے اندر کے بوجھ نکال پھینکے گی ۔ تارے جھڑ جائیں گے ۔ سورج بے نور ہو جائے گا۔ سمندر سلگ اٹھیں گے ۔
ہاں مگر ایک تحریک چلاناہوگی ۔مسلمان معاشروں میں احیائے علم کی تحریک۔اگر جبران عباسی کی طرح دماغ استعمال کرنے والے سو لڑکے بھی اکھٹے ہو گئے تو معاشرہ علم و حکمت کے راستے پر چل پڑے گا۔ 100تو بہت زیادہ ہیں ۔ دس افراد ایک معاشرے میں انقلاب لا سکتے ہیں ۔ دس تو بہت زیادہ ہیں ، ایک شخص تاریخ کے دھارے کو موڑ دیتاہے ۔ قائدِ اعظم اور اقبالؔ کیا تھے ؟ دو انسان ہی تھے نا؟امام غزالیؒ اور حضرت داتا گنج بخشؒ کون تھے ؟ 
یہ تو سچ ہے کہ مسلمانوں نے بہت غفلت اور سستی کی لیکن اس کا علاج مایوسی نہیں بلکہ جدوجہد میں ہے ۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا ماضی تاریک تھا، حال تاریک ہے اور مستقبل تاریک رہے گا ، وہ جھوٹ بول رہے ہیں ۔ ہمارا ماضی شاندار تھا، حال تاریک اور مستقبل ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے ۔ 
سٹیفن ہاکنگ والی بات بیچ میں رہ گئی ۔ خدا پر ایمان کسی سائنسدان ہی کا مسئلہ نہیں بلکہ ہر انسان کو اس سے گزرنا ہوتاہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایک سائنسدان پھل یا گاڑی خریدنے جاتا ہے تو پھل فروش اور گاڑیوں کا ڈیلر آسانی سے اسے بے وقوف بنا لیتاہے ۔ اس لیے یہ سوچ گمراہی ہے کہ ہمیں سائنسدانوں کی اندھی تقلید کرنی چاہیے ۔ ہمیں ان کی عقلوں کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ جذبات اور تعصبات کے معاملات میں وہ عام انسانوں جیسے ہی ہیں ۔ اپنی ذاتی زندگی کی محرومیاں، والدین کے جھگڑے، محبت میں ناکامی ، بد صورتی ، چھوٹا قد، موٹا ناک ، باہر نکلے ہوئے کان ، یہ سب چیزیں ان میں بھی احساسِ کمتری اور خدا کے خلاف بغاوت پیدا کرتی ہیں ۔ بہت سے لوگ ساری زندگی کسی حادثے اور صدمے کے اثرات سے باہر نہیں نکل پاتے ۔ مغر ب میں تو خدا کے انکار کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ گناہ کا لائسنس چاہتے ہیں ۔ انہیں اپنی ذاتی زندگیوں میں مداخلت کسی قیمت پر گوارا نہیں ۔ انہیں ہم جنس پرستی اختیا رکرتے ہوئے بھی معاشرے میں معزز کہلوانا پسند ہے ۔ 
خدا کب کسی سے درخواست کرتاہے کہ اس پر ایمان لایا جائے ۔ وہ تو ہے ہی بے نیاز۔ وہ یہ کہتا ہے کہ جو ایمان لایا، اپنے لیے ۔ جس نے میرے سامنے ہاتھ پھیلایا ، اپنے لیے ۔ اور جس نے میرا انکار کیا، اس کا وبال بھی اس کی اپنی جان پر ہوگا ۔ اگر اس کی یہ خواہش ہوتی کہ سات ارب انسان روزا نہ اس کے سامنے جھکیں تو وہ انہیں اختیار ہی نہ دیتا۔ صرف ایک مکمل شخصیتؐ اس کائنات کے جواز کے لیے کافی تھی ۔ وہؐ ، چودہ سو سال پہلے جس کا نزول ہوا اور پھر جس نے پردہ فرما لیا۔ فرمایا کہ جب تک ایک بھی اللہ اللہ کرنے والا زمین پر موجود ہوگا، قیامت نہیں آئے گی ۔ صرف ایک شخص کافی ہے ۔ 
وہ ایک شخص کون ہے ؟ کیا وہ میں ہوں ، یا آپ ہیں ؟ کیا وہ ہم میں سے کوئی ہے ؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں