"FBC" (space) message & send to 7575

سٹیفن ہاکنگ‘ زندہ چیزیں‘ عقل اور انسانی آزادی

پیاس کیا ہے۔ کسی شے کی طلب کیسے انسان کو پوری زندگی بے چین کیے رکھتی ہے۔ اس پیاس کی کتنی اقسام ہیں؟ پانی کی پیاس، دولت کی پیاس، جوانی کی پیاس، شہرت کی پیاس، طاقت کی پیاس، اختیار اور دبدبے کی پیاس... اقتدار کی پیاس میں انسان کیسے ایک دوسرے کی گردن کاٹتا ہے۔ عشق کی پیاس کیسے اسے اپنا آپ لٹانے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ جذبات کیا ہیں؟ یہ کیسے پوری زندگی انسان پہ حکمرانی کرتے ہیں۔ یہ پیاس جنم کیسے لیتی ہے۔ اسے تسکین کیسے پہنچائی جا سکتی ہے۔ کیا انسان کبھی مکمل طور پر سیراب بھی ہو سکتا ہے۔ جب خدا انسانوں کو اپنا دیدار کرائے گا؟ انسان سوچتا اور کانپ اٹھتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ آسان موضوعات میں پناہ ڈھونڈی جائے۔
کیوں نہ ہم سٹیفن ہاکنگ کی بات کریں۔ یہ نام انگریزی میں سٹیفن لکھا جاتا لیکن پڑھنے میں یہ ''سٹیون‘‘ ہے۔
مشہور دستاویزی فلم Into the Universe with Stephen Hawking میں اس کا کہنا یہ تھا کہ میرا جسم تو بے حس و حرکت ہے لیکن اپنے دماغ کے اندر میں آزاد ہوں۔ سچ یہ ہے کہ کوئی کتنا بڑا سائنس دان ہو‘ ہر انسان اپنے تعصبات کا قیدی ہوتا ہے۔ بڑے لوگوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کے اردگرد کے لوگ ہمیشہ ان کی تائید ہی کرتے ہیں لیکن انسانی دماغ ایک یا دو شعبوں میں ہی مہارت حاصل کر سکتا ہے۔ بڑے سے بڑے سائنس دان کو ایک پراپرٹی ڈیلر آسانی سے بے وقوف بنا سکتا ہے۔ کئی بڑے سائنس دان زندگی کے عام معاملات میں سادہ لوح ثابت ہوتے ہیں۔ بکھرے ہوئے بال اور لباس شکن آلود۔
خیر، سٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ جب آپ (کرّۂ ارض پر) زندگی کو دیکھتے ہیں تو یقین آنے لگتاہے کہ کائنات کچھ بھی کر سکتی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر آپ دنیا پر ایک جامع تبصرہ کرنا چاہیں تو آپ کو دو چیزوں کی وضاحت کرنا ہو گی۔ 1: کائنات کیا ہے۔ 2: زندگی کیا ہے۔ ایک زندہ خلیہ، ایک بڑھتا ہوا درخت، ایک سانپ اور حتیٰ کہ ایک زندہ جرثومہ۔ سائنسدان جب زندگی کو دیکھتے ہیں تو وہ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ جن 92 عناصر سے یہ تمام کائنات بنی ہے، وہ ہر کہیں بکھرے ہوئے ہیں لیکن ان میں سے کچھ عناصر مل کر ایک زندہ چیز کیسے بن گئے؟ یہ وہ سوال ہے‘ جو سائنس دانوں کو ساری زندگی جھنجھوڑتا رہتا ہے۔ زندہ چیز میں اس قدر پیچیدگیاں ہیں، آپ ان کا ڈی این اے دیکھ لیں۔ ان میں‘ ایک خلیے سے دو کی تقسیم دیکھ لیں۔ زندہ چیزوں میں نر اور مادہ کی تقسیم، نر اور مادہ کی ایک دوسرے میں دلچسپی، اولاد کو جنم دینا۔ جب ان ساری چیزوں کو تفصیل میں دیکھا جائے تو ایک ایک خلیے میں لاکھوں کروڑوں تفصیلات موجود ہیں اور ان کا زندہ و باقی رہنا اور اولاد پیدا کرنا، یہ سب کچھ اس قدر تفصیلی ہدایات کے تحت ہوتا ہے کہ انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے انسان ایک جنگل میں جائے اور وہاں ایک بہت خوبصورت اور پیچیدہ عمارت کھڑی ہو تو شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں کہ وہاں کوئی ذہین مخلوق موجود تھی، جس نے یہ عمارت بنائی۔ انسان ہر کہیں ڈھونڈتا ہے، اسے کوئی نہیں ملتا۔ اب وہ سوچتا ہے کہ اس عمارت سے فائدہ اٹھائوں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ عمارت خود بخود بنی ہے کیونکہ اگر کسی معمار اور کسی مالک کی موجودگی تسلیم کر لی گئی تو پھر انسان اسے استعمال تو نہیں کر سکتا۔ اسے یہ بات ذہن میں رکھنا ہو گی کہ جیسے ہی اصل مالک آیا، عمارت خالی کرنا پڑے گی۔ اسی طرح ہمارے جسم کی جو پیچیدہ عمارت موجود ہے، یہ اپنے آپ تو نہیں بن سکتی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ خدا کی موجودگی تسلیم کر لیں توپھر آپ کو اپنی خواہشات سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ یوں بیٹھ کر پانی پینا ہے۔ بسم اللہ پڑھ کر لقمہ توڑنا ہے، حلال ذرائع سے کمانا ہے، کسی سے زیادتی نہیں کرنی، کسی کی عزت خراب نہیں کرنی۔ اس قدر احکامات تسلیم کرنا پڑتے ہیں کہ انسان للچا کر یہ سوچنے لگتا ہے کہ کیوں نہ خدا کے وجود کا انکار کر دیا جائے۔ اس طرح میں اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزار سکوں گا۔ خدا کون سا سامنے کھڑا احکامات دے رہا ہے۔ نہ ہی کوئی فوری سزا ہے۔
جب انسان اپنے اردگرد کی دنیا کو غور سے دیکھتا ہے تو اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا چلا جاتاہے۔ آپ جس گھر میں رہتے ہیں، وہ مٹی کی اینٹوں، پتھروں کو پیس کر بنائے گئے سیمنٹ سے بنا ہے۔ یہ مٹی اور پتھر پوری زمین پر بکھرے ہوئے ہیں۔ اس گھر میں لوہا بھی استعمال ہوا ہے۔ یہ لوہا زمین کھود کر نکالا گیا ہے۔ اس میں لکڑی بھی استعمال ہوئی ہے۔ لکڑی کاربن ہے۔ اس طرح کائنات میں کل 92 عناصر ہیں۔ دنیا کی ہر چیز، خواہ وہ سورج ہے یا زمین‘ انسان یا مکھی، وہ ان 92 عناصر ہی میں سے کچھ کے اشتراک سے بنی ہے۔ انسان کے جسم اور دماغ کا 99 فیصد حصہ ہائیڈروجن، نائٹروجن، کیلشیم، فاسفورس، کاربن اور آکسیجن سے بنا ہے۔ مثلاً ہڈیاں اور ڈھانچہ کیلشیم اور فاسفورس سے بنا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی انسان بائی پولر کا مریض بن جائے تو پھر اسے ایک عنصر لیتھیم کھلایا جاتا ہے۔ جس کے دانت اور ہڈیاں کمزور ہو جائیں، اسے کیلشیم دیا جاتا ہے۔ کسی کے جسم میں لوہے کی کمی ہو جائے تو وہ آئرن لیتا ہے۔ جو چیز سائنسدانوں کو بہت حیران پریشان کر ڈالتی ہے، وہ ان 92 عناصر میں سے کچھ کا مل کر ایک زندہ خلیے میں ڈھل جانا ہے۔
خیر! اسے بھی انسان کسی نہ کسی طرح اتفاق قرار دے ڈالتا ہے لیکن پھر زمین کی تاریخ میں گزرے ہوئے اور موجودہ پانچ ارب جانداروں میں سے صرف 1کا عقل مند ہونا اور باقیوں کا نہ ہونا؟ یہ ایک جاندار دنیا جہان کی سائنسز پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ کائنا ت کی ابتدا اور اس کے اختتام کے نظریات بھی پیش کرنے لگتا ہے۔ سورج کے اندر جلتی ہوئی ہائیڈروجن کو بھی دیکھ ڈالتا ہے۔ ایٹم توڑ کر توانائی بھی نکال لیتا ہے۔ باقی سب جاندار پانچ حسیات (Senses) کی مدد سے کسی بھی چیز پر وقتی ردّعمل (Reaction) دینے سے آگے نہیں جا پاتے۔ یہ ایک اور بہت بڑی حیرت ہے۔ یہ وہ صورتِ حال ہے کہ ایک عظیم منصوبہ ساز کو تسلیم کیے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی لیکن پھر بات تو وہیں آ گئی۔ منصوبہ ساز (خدا) کو مانیں تو ہم جنس پرستی اور ساری انسانی آزادیوں سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ اگر کوئی بڑا سائنس دان خدا کا وجود مان بھی لے تو انسانی آزادی کے اس ماحول میں دنیا بھر میں اس کے خلاف ایک طوفان اٹھ کھڑا ہو گا۔ یہی وہ صورتِ حال ہے، جس میں بڑے سائنس دان ایک عظیم منصوبہ ساز کا وجود تسلیم کرنے کے بجائے، زندگی اور عقل کی اس ساری داستان کو اتفاق قرار دے ڈالتے ہیں۔ وہ یہ کہہ کر اپنی جان چھڑاتے ہیں: جب ہم زندہ چیزوں کو دیکھتے ہیں تو ایسا لگتاہے کہ کائنات کچھ بھی کر سکتی ہے۔ وہ بے چاری بے جان کائنات کچھ بھی کر سکتی ہے، انسان کے سوا آج تک کسی جاندار نے جس پر ایک تبصرہ تک نہیں کیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں