"FBC" (space) message & send to 7575

لکھے کو کون ٹال سکتا ہے ؟

نو گیارہ کے بعد پاکستان میں جن معاملات پر سب سے زیادہ جھوٹ بولا گیا ، وہ قومی سلامتی اور دفاع کے معاملات تھے ۔ اگر کوئی ان معاملات کو سب سے زیادہ قریب سے دیکھ رہا تھا ، درست طور پر سمجھ رہا تھا اورمناسب اقدامات اٹھا رہا تھا تو وہ پاکستانی فوج تھی ۔ حقیقت یہ تھی کہ ملا عمر کی قیادت نے اسامہ بن لادن کودنیا بھر میں دہشت گردی کے لیے ایک جنت فراہم کر رکھی تھی ۔نوعمر لڑکوں کو وہاں خودکش بمبار بننے کی تربیت دی جاتی تھی ۔ جن لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ افغان جہاد کے دور میں القاعدہ امریکی سرپرستی میں بنی اور پھلی پھولی، وہ ایک انتہائی اہم حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب حالات کا رخ بدلتاہے تو افراد اور قوموں کو اس کے مطابق خود کو بدلنا پڑتاہے ۔ اگر وہ نہ بدلیںاور زمینی حقائق کو مسلسل نظر انداز کرتے رہیں تو انہیں خوفناک نتائج کا سامنا کرناپڑتاہے ۔ پاکستان نے سویت یونین کی شکست و ریخت میں سب سے اہم کردار ادا کیا لیکن آج پاکستانھ روس سے قریب ہو رہاہے ۔ ایک زمانہ تھا ، جب بر اعظم افریقہ سے غلاموں کے جہازوں کے جہاز خریدے جاتے ۔ آج کوئی وہاں سے ایک بھی انسان خرید کر دکھا ئے۔ اسی طرح ایک زمانہ تھا ، جب امریکہ اور جاپان ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے ۔ آج ان سے بڑا اتحادی کوئی نہیں ۔ اسی طرح دنیا کی حقیقتیں بدلتی رہتی ہیں ۔ اگر آپ زمین جنبد نہ جنبد گل محمد کی تصویر بنے کھڑے رہیں تو اس سے آپ کو نقصان ہوگا، دشمن تو فائدہ ہی اٹھائے گا۔ کئی عشروں پہلے القاعدہ جس نے بھی بنائی اور جس نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا، عالمی رائے عامہ مکمل طور پر اس کے خلاف استوار ہو چکی تھی ۔ ایسے میں نائن الیون کے بعد کئی حل نکالے جا سکتے تھے ۔ اسامہ بن لادن کو اسلامی ممالک کے ایک اتحاد کے حوالے کیا جا سکتا تھا ۔ انہیں ملک بدر کیا جا سکتا تھا لیکن ملا عمر نے جو فیصلہ کیا، اس کا نتیجہ افغانستان اور پاکستان آج تک بھگت رہے ہیں ۔ 
خیر ، کہنے کی بات یہ ہے کہ چند عشروں کے اندر دو عالمی طاقتوں سویت یونین اور امریکہ کی افغان سرزمین پر طویل جنگ سے پاکستان کے لیے قومی سلامتی کے شدید مسائل پیدا ہوئے ۔ وہ بھی ان حالات میں ، جب مشرق میں ہمیشہ ہر وقت بھارت پاک فوج کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بنا رہا ۔ ان حالات میں ، چند عشروں کے اندر اگر پاکستان نہ صرف سلامت رہا بلکہ اس نے بھارتی فوج کو حملہ کرنے سے روکے رکھا، جوہری ہتھیار اور میزائل پروگرام بنا لیا تو یہ اس قدر خیرہ کن کامیابیاں ہیں کہ کئی مرتبہ خواب محسوس ہوتی ہیں ۔ دونوں عالمی طاقتیں ناکامی کا شکار ہوئیں ۔ ایک موقع پر امریکہ نے فیصلہ کیا کہ اس شکست کا ملبہ پاکستان پر گرایا جائے ۔ 2012ء میں سلالہ پر حملے میں دو درجن پاکستانی فوجی شہید کر دئیے گئے ۔ پاکستان نے نیٹو سپلائی معطل کیے رکھی ۔ پاکستانی شہروں سوات ، وزیرستان ، قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں کئی مقامات پر دہشت گردوں نے اپنی متوازی حکومتیں قائم کیں ۔ عالمی میڈیا روزانہ کی بنیاد پر یہ خبریں شائع کرنے لگا کہ طالبان اب سوات سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔دہشت گرد کہوٹہ سے اتنے کلومیٹر دور ہیں ۔ پاکستان کے سو سے زائد ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے قبضے میں جانے والے ہیں ۔ ان سب حالات سے پاکستانی فوج سلامت گزر گئی ۔ شہروں اور قصبوں سے دہشت گردوں کا قبضہ ختم کر دیا گیا۔ اگر آپ عراق ، شام اور لیبیا کو دیکھیں تو وہاں قومی اور عالمی افواج یہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہیں ۔ پاک فوج کے جوانوں اور افسروں نے نہ پیٹھ دکھائی، نہ افغانستان کے برعکس ان کا ایک حصہ مفرور ہو کر دہشت گردوں سے جا ملا ،نہ انہوں نے بھارتی افواج کے برعکس بڑی تعداد میں خودکشیاں کیں ۔ خودکش حملے نہ ہونے کے برابر رہ گئے ۔ آج کسی شہر پر دہشت گرد قابض نہیں ۔ 
یہ اس قدر بڑی کامیابیاں ہیں ، جن پر اب تک یقین نہیں آتا ۔ پاک فوج صرف اور صرف بھارت یا سرحد پار سے آنے والے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی گئی تھی ۔ اپنے سے چھ سات گنا بڑے بھارت کو حملہ کرنے سے روکے رکھنا ہی حیرت انگیز تھا ، کجا یہ کہ مغرب میں اس قدر بڑے محاذ اور ملک کے اندر دہشت گرد حملوں کو روک دیا جائے ۔ وہ جھوٹ والی بات بیچ میں رہ گئی ۔ 2013ء میں ، میں جنرل کیانی کے بیٹے سروش کیانی سے ملا ۔ میں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد پرویز مشرف نے بہت بزدلانہ فیصلہ کیا ۔ سروش کیانی نے کہا، ان کی جگہ اگر کوئی اور جنرل ہوتا تو بھی امریکہ کا ساتھ بہرحال ہمیں دینا پڑتا۔ یہ ہے ، وہ ٹھوس حقیقت اور وہ سچ ،ہم جس کا سامنا نہیں کرنا چاہتے ۔ مشرف کے اکثر فیصلے درست تھے مثلاً قبائلی علاقوں میں فوج بھجوانے کا فیصلہ ؛البتہ اس کا سب سے بڑا گناہ کراچی کو govern کرنے کے لیے ایم کیو ایم کے سر پہ ہاتھ رکھنا تھا۔ ڈرون حملوں میں بہت سے بے گناہ لوگ ، عورتیں اور بچّے شہید ہوئے لیکن دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد بھی انہی کا نشانہ بنی ۔ حکیم اللہ محسود بھی اسی میں ہلاک ہوا۔ سیاسی جماعتوں بالخصوص مذہبی سیاسی جماعتوں نے امریکہ کے خلاف نفرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جھوٹ پہ جھوٹ بولا۔ قوم کو گمراہ کیا۔ دہشت گردوں کے خلاف شمالی وزیرستان آپریشن اور دوسری کارروائیوں کو حتی الامکان ملتوی کیا ، جس سے پاکستان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ ان مذہبی سیاسی قوتوں نے امریکہ مخالف جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پختون خوا اور بلوچستان میں حکومتیں بنائیں۔ ان کا اصل چہرہ قوم کے سامنے آیا ۔ اب دوبارہ ان کے حکومت میں آنے کا کوئی امکان نہیں ۔ 
اگر ان مصیبتوں سے فوج نکل آئی ۔ جو سینکڑوں فیصلے بادلِ نخواستہ اسے کرنا پڑے ، ان میں سے کچھ غلط بھی ثابت ہوئے لیکن بنیادی طور پر وہ نیک نیت تھی ۔اس سے انسدادِ دہشت گردی کروائی گئی ؛حالانکہ یہ پولیس کا کام تھا ۔فوج کے ذمے توسرحدوں کی حفاظت ہوتی ہے ۔ جب ایک شخص سے وہ کام کرایا جائے ، جو اس کی ذمہ داری نہیں تو پھر آپ اسے ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے ۔ پاکستان کو فنا ہونے سے فوج نے بچایا ۔موجودہ حالات سے بھی وہ گزر جائے گی ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عام عوام کی اکثریت فوج سے محبت کرتی ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ آخری مرحلے میں ہے ۔ دہشت گردی کی باقیات کے خلاف فیصلہ کن لڑائی اسی نے لڑنا ہے ۔ پاکستانی قوم فوج کا کردار محدود کرنے کی متحمل نہیں ۔یہ ساری حقیقتیں اسی طرح ہم پہ آشکار ہیں ، جیسے یہ آشکار تھا کہ شمالی وزیرستان جانا ہی پڑے گا، خواہ جلدی جائیے یا نقصان اٹھا کر دیر سے ۔ اگر تو جلدی چلے جاتے تو بہت سے صفِ اوّل کے دہشت گرد مارے جاتے ۔ انہیں فرار ہونے کا موقع مل گیا۔ اسی طرح آپ فوج کو کسی اور طرف الجھا لیں ۔اس الجھن میں وہ کچھ وقت ضائع کرے گی لیکن بہرحال اس سے نکل جائے گی ۔ پھر وہ دہشت گردوں کی طرف لوٹے گی۔ اس میں ملک اور قوم کا بہت سا نقصان ہو سکتاہے لیکن بہرحال مزاجوں کو کون بدل سکتاہے اور لکھے کو کون ٹال سکتاہے ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں