"FBC" (space) message & send to 7575

کیوں؟…( 2)

پہلے ملک میں جاری فوج کے خلاف نعرے بازی پر ایک مختصر تبصرہ سن لیجیے۔ میں پورے دعوے سے کہتا ہوں اور مجھے اس میںرتی برابر شبہ بھی نہیں کہ جماعتِ اسلامی، تحریکِ انصاف یا ملک کی کوئی بھی سیاسی جماعت فوج کی حمایت میں مظاہرے کا اعلان کرے‘ چند دن کے نوٹس پر اگر فوج مخالفین سے دس گنا زیادہ مظاہرین سڑکوں پر نہ آئے تو میں دونوں ہاتھ جوڑ کر آپ سے معافی مانگ لوں گا۔ ایسا ایک مظاہرہ ہو گیا تو فوج مخالفین کی بولتی بند ہو جائے گی۔ عوام کی عظیم اکثریت دہشت گردی کے خلاف فوج کی لازوال قربانیوں کو سر آنکھوں پہ رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ فوج تو اپنے وقار کی وجہ سے اپنے حامیوں کو سڑکوں پر آنے یا کسی اجتماع کا اعلان نہیں کر سکتی۔
اب میں موضوع کی طرف لوٹتا ہوں۔ انسان جب اپنے کمزور جسم کو دیکھتا ہے۔ یہ جسم چوبیس گھنٹے میں چھ سات گھنٹے نیند کا مطالبہ کرتا ہے۔ بلڈ پریشر اور شوگر ذرا سے اوپر نیچے ہوں، یہ گر پڑتا ہے۔ جسم کا درجۂ حرارت ذرا سا بلند ہوا، اسے آرام درکار ہوتا ہے ، سر میں ہلکا سا درد ہوا، یہ نیند میں فرار حاصل کرتا ہے۔ ذرا سا کان کا پردہ متاثر ہوا، اسے چکر آنے لگتے ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی کا کوئی مہرا ذرا سا کھسکا، یہ تڑپنے لگتا ہے۔ ذرا کسی مسل پر چوٹ لگے، وہ دکھنے اور اذیت دینے لگتا ہے۔ ذرا کوئی ہڈی اپنی جگہ سے ہٹے، یہ درد سے بلبلا اٹھتا ہے۔ ذرا سی اس کی نیند متاثر ہو، یہ کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ کوئی رگ بند ہو ، کوئی نرو (Nerve) متاثر ہو، اس کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔ جب انسان اپنے جسم کے بعد دماغ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اور زیادہ پریشان ہو جاتا ہے۔ یہ دماغ خواہشات اور جذبات تلے دبا رہتا ہے۔
دولت اور انتقام کی خواہشات سمیت ان گنت ایسے جذبات ہیں، جو ساری زندگی کھا جاتے ہیں لیکن ان کی تسکین نہیں ہو پاتی۔ جیسے جیسے وسائل میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، ویسے ویسے ان خواہشات میں اضافہ ہوتا چلا جاتاہے۔ آپ اسے جھونپڑی سے نکال کر محل لے آئیے، دو دن بعد یہ اس سے بڑے محل کی خواہش کر رہا ہو گا۔ آپ اسے ایک شہر کا ناظم بنا دیجیے، دو دن بعد وہ ملک کا وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہا ہو گا۔ آپ اسے ایک ملک کی بادشاہت دے دیجیے۔ دو دن بعد وہ دوسرے ممالک کو فتح کرنے کی خواہش کر رہا ہو گا۔ یہ ہیں تباہ کن انسانی خواہشات، جن کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔
انسان زندگی بھر دوسرے انسانوں کے نرغے میں رہتا ہے۔ وہ اسے لوٹنا چاہتے ہیں، اس کا استحصال چاہتے ہیں، اسے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں سب سے بڑا اگر کوئی چیلنج ہے تو وہ ایک انسانی دماغ کا دوسرے دماغوں سے Interaction ہے۔ یہ دوسرے دماغ‘ اس کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ مستقل طور پر اس کا مذاق اڑانا چاہتے ہیں۔ اس کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اسے اپنے اشاروں پر چلانا چاہتے ہیں اور انسان انسانوں کے ساتھ یہ سب کر گزرتے ہیں۔ یہ ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ 
انسانی خواہشات تو کبھی پوری نہیں ہوتیں لیکن انسان کی ضروریات کا پیٹ بھی کہاں بھرتا ہے۔ 7 ارب انسانوں کی اکثریت روزانہ محنت مزدوری کرتی ہے تو پیٹ بھرنے اور بدن ڈھانپنے کے لیے وسائل اکٹھے کر پاتی ہے۔ ماں باپ دن رات محنت کرتے ہیں تو اولاد کی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ ایسے کمزور انسان سے، جس کی ضروریات، جس کی ذہنی اور جسمانی کمزوریاں اور خواہشات اسے کسی قابل نہیں چھوڑتیں، جو لمحہ لمحہ اپنی خواہشات کے سامنے پھسلتا رہتا ہے، خدا کیا چاہتا ہے؟ پھر یہ انسان ایسا کمزور ہے کہ وہ تو اپنی خواہشات، اپنے نفس کی مجموعی طاقت کا علم بھی نہیں رکھتا۔ وہ اپنے دشمن کو، نفس کو برائی پر اکسانے والے کو دیکھ بھی نہیں سکتا۔ وہ اپنے خدا کو بھی نہیں دیکھ سکتا۔گاہے وہ دوسرے انسانوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا رہتا ہے۔ عام انسانوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں، جو عمر بھر غلطیوں اور گناہوں سے پاک صاف رہنے کا حلف اٹھا سکے۔ قدم قدم پر پھسلتا ہوا انسان جائے تو جائے کہاں؟
جب آپ اہلِ علم سے پوچھیں تو ان کا جواب یہ ہو گا۔ خدا نے انسان کو اس لیے ہرگز نہیں بنایا کہ وہ ساری زندگی ایک نمونۂ عمل بن کر گزارے بلکہ پوری انسانی تاریخ میں کامل نمونہ ایک ہی ہستیؐ تھی۔ انسان کو جان بوجھ کر کمزور بنایا گیا۔ ایک ایسی مخلوق جو خواہشات اور ہدایت کے درمیان کروٹیں بدلتی رہے۔ ایک ایسی مخلوق جو ہمیشہ خدائی مدد کی محتاج رہے۔ اگر اس نے مکمل طور پر ہدایت یافتہ مخلوق بنانا ہوتی تو فرشتوں کی شکل میں وہ تو پہلے ہی موجود تھی۔ زمین و آسمان کی ہر چیز تو خدا کی تسبیح پڑھ رہی ہے‘ ان مخلوقات میں ایک اور کا اضافہ بھلا کیا معنی رکھتا۔ اس لیے انسان بنایا گیا۔ خواہشات اور کمزوریوں سے بھرپور، قدم قدم پر لڑکھڑا تا ہوا۔ اس انسان کو خیرہ کن عقل دی گئی۔ یہ عقل ایسی تھی کہ اس نے زمین و آسمان کی ہر چیز کو ایک نام دیا۔ ہر چیز کی شناخت کی۔ بلیک ہول جیسی جو چیزیں نظر نہیں آ رہی تھیں، ان کا سراغ بھی لگایا۔ اپنے علم کی بنیاد پر انسان تو یہ بھی جانتا ہے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے، وہ صرف 5 فیصد ہے۔ 95 فیصد نظر نہیں آ رہا لیکن بہرحال موجود ہے۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے کہ اگر آپ ایک رسی سے بندھا ہوا ایک فٹ بال دیکھیں، جو ہوا میں گھوم رہا ہو۔ خواہ گھمانے والا ہاتھ نظر نہ آ رہا ہو لیکن بہرحال مرکزمیں ایک قوت موجود ہے، جو اسے گھما رہی ہے۔
انسان کو جو یہ عقل دی گئی، اسی کی مدد سے اس نے خدا کو پہچاننا تھا۔ ایک اجنبی سرزمین میں، جہاں کے حالات و واقعات اس کے بس میں بالکل بھی نہیں تھے بلکہ ایک پتا بھی ہلنے کے لیے خدا کا محتاج تھا۔ وہاں اسے قدم قدم پر خدا سے مدد مانگنا تھی۔ اسے پھسلتے رہنا تھا، معافی مانگتے رہنا تھا، کوشش کرتے رہنا تھا۔ یہ تھی خدا کی منشا۔ یہ خدائی عظمت کا ایک نشان تھا کہ اس نے زمین و آسمان کی ہر شے کا مالک ہونے کے باوجود ایک ایسی مخلوق پیدا کی جو اپنی مرضی سے زندگی گزارتی۔ جو کبھی ہدایت کی طرف جاتی، کبھی پھسل جاتی، پھر نادم ہوتی، پھر رجوع کرتی۔ پھر اس نے معاملہ یہیں تک محدود نہیں رکھا۔ یہ کہا کہ زندگی بھر کے گناہوں کے بعد بھی کوئی نادم ہو گا تو معاف کر دوں گا۔ ستر سال کے گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔ اس نے توبہ کرنے والوں کو صرف معاف کرنے کا اعلان نہیں کیا بلکہ ان سے محبت کی۔ انسان کو زمین و آسمان کی سب سے خوبصورت تخلیق یعنی عقل سے نوازا گیا۔ یہ عقل اس قابل تھی کہ ذرا سا غور کرتی تو خدا تک رسائی حاصل کرتی۔ یہ عقل ایک Tool تھا۔ اسے زمین و آسمان میں خدا کی نشانیاں دیکھتے ہوئے اس تک رسائی حاصل کرنا تھی۔ یہ عقل اس قابل تھی کہ زمین و آسمان کی مختلف چیزوں اور اپنے اندر خدا کی نشانیوں کو دیکھ سکتی، انہیں پہچان سکتی۔ بس یہ تھی ساری داستان!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں