بطور ایک انسان کے ، جو کہ سوچ سکتا ہے ، دیکھ سکتاہے ، تجزیہ کر سکتاہے ، ہمیں کچھ علوم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔اگر ہم اس راستے پر چل پڑے تو کل کو ہم سے بہتر لوگ سامنے آئیں گے ۔ کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ مسلمانوں نے کبھی علم حاصل کرنے یا تحقیق کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ وہ اسی تاک میں بیٹھے رہے کہ ہر نئی سائنسی دریافت کو اپنے نام کر سکیں ۔ میرا ان سے سوال یہ ہے کہ اگر تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں تو پھر اس کا حل کیا ہے ؟ کیا یہ کہ ساری زندگی ہم مسلمانوں پر تبرہ کر تے ہیں ۔ یا یہ کہ ہم غور و فکر اور تحقیق کے راستے پر کچھ قدم اٹھانے کی کوشش کریں ۔ ہر وقت کی مذمت اور مایوسی ہمیں کچھ دے سکتی ہے یا پھر کوئی حکمتِ عملی طے کر کے مسلسل کوشش کی جائے تو گزرے ہوئے وقت کا مداوا ہو سکتا ہے ؟
پھر یہ کہ مسلمانوں کی غفلت اور سستی خدا کی غفلت نہیں ہے ۔مسلمانوں کی لا علمی خدا کی لا علمی نہیں ہے ۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے خدا نے قرآن میں جب انسانوں کو ایمان لانے کا حکم دیا تو انسانوں کے ساتھ اپنے کلام میں کائنات، زندگی اور انسان پر تبصرے بھی کیے ہیں ۔ آپ کھلے دل و دماغ سے ان کو پڑھیں ، احساسِ کمتری سے باہر نکل کر ۔ اس خواہش سے آزاد ہو کر کہ ہم جنس پرستی سمیت دنیا میں ہرگناہ کی آزادی انسان کو حاصل ہونی چاہیے ۔زندگی میں جن صدمات سے آپ کو واسطہ پڑا، ان سے باہر نکلنے کی کوشش کریں۔ کچھ علمی دیانت اپنے اندر پیدا کریں کہ کیا وجہ ہے کہ حال کے 87لاکھ اور ماضی کے 5ارب جانداروں میں سے ایک نے لباس پہننا شروع کیا، مردے دفنانا شروع کیے ، مذہب پر چلنا شروع کیا، وجودِ خدا پر بحث کی ، آگ استعمال کرنا شروع کی، پہیے سے لے کر میزائل تک کی ایجادات کیں ۔ باقی کیوں نہ کر سکے ۔ پھر آپ خدا کے وجود تک پہنچ جائیں گے ۔ اگر اس ساری دیانتدارانہ تحقیق کے بعد بھی آپ کو خدا کہیں نظر نہیں آتا بلکہ ایسا لگتاہے کہ یہ سب کچھ بشمول انسانی عقل اتفاقاً وجود میں آئی ہے تو پھر آپ خدا کو نہ مانیں لیکن اس کا ڈھول بجانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اگر ایک جگہ وکیل بیٹھے ہوئے ہیں اور میں ان کے پاس سے گزرتے ہوئے یہ کہتا ہوں کہ وکیل ہوتے ہی جھوٹے ہیں ۔یا پھر کسانوں کے پاس سے گزرتے ہوئے ان کی شان میں قصیدہ پڑ ھ جاتا ہوں تو پھر آگے کیا ہونا ہے ، یہ سب جانتے ہیں ۔اس لیے ہاتھ کچھ ہولا رکھیں ۔
soilکے بارے میں پڑھتے ہوئے ، بہت قیمتی معلومات سامنے آئیں۔ ہم زمین کی جس سطح پر زندگی گزار رہے ہیں ، جسے ہم soilکہتے ہیں ، اسے سائنسی زبان میں pedosphereکہا جاتاہے ۔ اسے ہم کرّئہ ارض کی جلد کہہ سکتے ہیں ۔اس کے چار بہت ہی اہم فنکشن ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اس کے اوپر یا اس کے نیچے تمام جاندار بشمول انسان رہتے اور اپنی زندگی گزارتے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ اس کی سطح پر یا نیچے پانی جمع ہوتا، صاف ہوتا اور اس کی رسد مہیا آتی ہے ۔تیسرا یہ کہ یہ زمین کی atmosphereتشکیل دینے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ چوتھا یہ کہ اس میں پودے اگتے اور بڑھتے ہیں ۔ اس حوالے سے بہت ہی اہم معلومات مجھے حاصل ہو رہی ہیں اور ان میں سے بہت کچھ وقت کے ساتھ ساتھ میں لکھتا رہوں گا۔
زمین کے بارے میں پڑھتے پڑھتے کاربن سائیکل بھی درمیان میں آجاتا ہے ۔ آدمی اس کی تعریف پڑھتا ہے تو بے اختیار رک جاتاہے ۔ کاربن سائیکل ایک بائیو جیو کیمیکل سائیکل ہے ۔ اب سوال یہ پید اہوتاہے کہ بائیو جیو کیمیکل سائیکل کیا ہوتاہے ؟ اسے بھی پڑھ لینا چاہیے ۔ اس کے ساتھ ہی اگلی سطر ایسی ہے کہ بندہ حیران رہ جاتاہے ۔ کاربن سائیکل دو دوسرے سائیکلز نائٹروجن سائیکل اور واٹر سائیکل کے ساتھ مل کر ایسے eventsکی بنیاد بنتاہے ، جن کی وجہ سے یہ زمین، یہ کرّئہ ارض زندگی کے لیے سازگار بن جاتی ہے ۔ They make Earth capable of sustaining life۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ کاربن زندہ چیزوں کا ایک بنیادی جزو ہے اور بہت سی معدنیات (Minerals)کا بھی۔ جیسا کہ لائم سٹون ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تو آپ نے کرّۃ ء ارض پہ زندگی کے بارے میں پڑھنا ہے تو پھر آپ کو soil، کاربن سائیکل، نائٹروجن سائیکل اور واٹر سائیکل لازماً پڑھ لینا چاہیے ۔
اب دوبارہ soilکی تعریف پڑھیں ۔ soil is a mixture۔ کن چیزوں کا مکسچر؟ وہ چیزیں جو سب مل کر زمین کو زندگی کے لیے قابلِ رہائش بناتی اور اس رہائش کے لیے ایک نرم سا بستر فراہم کرتی ہیں۔ یہ مکسچر کن چیزوں سے بنا ہے ؟ اس میں بہت کچھ ہے اور ہم آرام سے انہیں پڑھتے رہیں گے ۔ ایک سیارے کا زندگی کے لیے قابلِ رہائش بننا ۔ اگر انسان صرف اسی کو پڑھ لے تو شاید اس کی زندگی بن جائے لیکن ہم اسی پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ اب یہاں شیخ علی بن عثمان ہجویریؒ کا وہ تاریخ ساز قول ایک بار پھر پڑھیے ۔ فرماتے ہیں کہ انسان کو ہر علم میں سے اتنا ضرور حاصل کرنا چاہیے، جتنا کہ خدا کی شناخت کے لیے ضروری ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تو آپ ہر علم کی ابجد سے واقف ہوتے جائیں گے تو پھر آپ خدا کو پہچانتے چلے جائیں گے ۔
اس لیے کہ خدا یہی حکم دیتا ہے کہ زمین و آسمان میں میری نشانیوں پر غور کرو۔ جیسے Earth Sciencesکی بنیادی چیزوں کو پڑھ لینا چاہئے۔ اسی طرح طب کو پڑھنا بھی تو ضروری ہے ۔ کیسے رحمِ مادر میں سب سے پہلے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر مشتمل مرکزی اعصابی نظام بنتا ہے ۔کیسے نئے پیدا ہونے والے بچّے کے جسم میں ہڈیاں ، گوشت، خون ، جلد اور nervesبنتی ہیں ۔ کیسے پھر ایک جیسے خلیات سے مختلف اعضا بننے لگتے ہیں ۔ کیسے دماغ سے ہدایات پورے جسم کو ملتی ہیں ۔ کیسے آنتوں سے لے کر پھیپھڑوں تک ایک ایک عضو دماغ سے حاصل ہونے والی ہدایت کا محتاج ہوتا ہے ۔ پھر یہ کہ کیسے دماغ میں خیالات پیدا ہوتے ہیں ۔ کیسے انسان ان پر عمل درآمد کرتاہے ۔
پھر انسان ایک نظرسیارئہ ارض سے باہر کی کائنات پر ڈالے۔ اپنے سورج کو دیکھے۔ ہمسایہ سورجوں کو دیکھے۔ ہمسایہ سورجوں کے سیاروں کو دیکھے ۔ اپنی پوری کہکشاں کو دیکھے۔ ہمسایہ کہکشائوں کو دیکھے۔ ان کہکشائوں کے مرکز میں موجود عظیم الشان بلیک ہولز کو دیکھے، جو کہ پوری کی پوری کہکشاں کو اپنے گرد گھومنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔پھر انسان ماضی میں زمین اور کائنات میں پیش آنے والے بڑے واقعات کے بارے میں پڑھے ۔ مثلاً آکسیجن کا انقلاب۔ Great Oxidation Eventوہ واقعہ تھا، جس نے کرّئہ ارض کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا ۔ انسان پڑھتا رہے ، حیران ہو تا رہے ۔
مسلمانوں پر دوسروں سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہ سب پڑھیں ۔وہ خدا پر ایمان لائے ہیں تو زمین و آسمان میں اس کی نشانیوں پر بھی غور کریں ۔ پھر دنیاوی سطح پر بھی یہ علم ہی توترقی کا راستہ ہے۔ کیا آپ لوگ میرے ساتھ مل کر یہ سب پڑھیں گے ؟