"FBC" (space) message & send to 7575

عقل کے ساتھ جوابدہی جڑی ہے

زندگی ایک عجیب چیز ہے ۔ کبھی تو یہ انسان کو کامیابیوں اور خوشی کی انتہائوں تک لے جاتی ہے ۔ کبھی وہ غموں میں ڈوب جاتاہے ۔ کوئی غمِ روزگار کا مارا ہوا ہے ، کوئی غمِ جاناں کا شکار ۔کبھی جب شام گئے انسان کام سے واپس لوٹتا ہے ، جب اس کی ننھی بیٹی لڑھکتی ہوئی اس کی طرف بھاگتی ہے ، جب اپنے باپ کو دیکھ کر خوشی سے وہ منہ کھول دیتی ہے اور جب اس کے دو ننھے ننھے سے دانت نظر آتے ہیں ۔ جب وہ التجائیہ آوازیں نکالتی ہے کہ اسے اٹھا لیا جائے تو انسان ایسی مسرت سے ہمکنار ہوتاہے کہ زمین و آسمان کی دولت اس کے سامنے ہیچ ہوتی ہے ۔ یہی بچہ اگر بیمار ہو جائے ، اگر وہ کھانا پینا چھوڑ دے توانسان غم میں ڈوب جاتاہے ۔ یہ غم اور خوشیاں ، یہ کامیابیاں اور ناکامیاں تو ہر زندگی کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں ۔ ان مسرتوں اور غموں کے درمیان بھٹکتا ہوا انسان اگر چند لمحے کے لیے کبھی اس بات پر بھی غور کرے کہ میں( انسان) ہوں کون اور یہاں اس سیارے پر کیا کر رہا ہوں تو وہ حیران رہ جاتاہے ۔ انسان جب اپنے عالیشان شعور اور دماغ کے بارے میں سوچتا ہے تو اس حیرانی میں اضافہ ہو جاتاہے ۔
آپ نے ہیرے جواہرات اور تیل کے ذخائر پر ہمیشہ جنگیں ہوتی دیکھی ہوں گی ۔ ان جواہرات اور ان وسائل کی کیا حیثیت ہے ، اس کے بارے میں سعودی عرب سے میرے دوست محمد خالد نے بی بی سی کی ایک چشم کشا خبر بھیجی ہے ۔2008ء میں ایک شہابِ ثاقب زمین کی فضا میں داخل ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گیا۔ ان ٹکڑوں میں ہیرے موجود تھے۔ سائنسدانوں نے جب ان ہیرو ںکا تجزیہ کیا تو انہیں بیش قیمت معلومات حاصل ہوئیں۔ ان ہیروں کا کیمیائی تجزیہ بتاتاہے کہ وہ کسی چھوٹے سیارے کے اندر بنے تھے۔ اربوں سال پہلے جب نظامِ شمسی نے جنم لیا تو ایسے بہت سے سیارے وجود میں آئے تھے۔ وہ آپس میں ٹکراکر ٹوٹتے اور بکھرتے رہے۔ ایسے ہی کسی ٹکرائو کے دوران ہیروں سے بھرپور یہ چٹان خلا میں اڑنے لگی ۔ آخر 2008ء میں وہ زمین سے آٹکرائی اور یہ ہیروں کے یہ ٹکڑے زمین پر گر گئے ۔ یہ تحقیق جرنل نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہوئی ۔ سائنسدانوں نے بغور جائزہ اورٹیسٹ کرنے کے بعد یہ تجزیہ پیش کیا کہ اس طرح کے ہیرے کسی سیارے کے اندر ہی بن سکتے ہیں ۔ یہ ہیرے شمالی سوڈان کے صحرامیں گرے تھے ۔ 
ان تحقیقات سے اس تھیوری کو بھی تقویت ملی ہے کہ نظامِ شمسی کی ابتدا میں بے شمار چھوٹے چھوٹے سیارے موجود تھے، بعد ازاں جن سے آٹھ بڑے سیاروں نے جنم لیا ۔جب آپ اوپر خلا کا جائزہ لیں توہیروں سے بھری ہوئی پہاڑ ایسی ان گنت چٹانیں خلا میں اڑتی پھر رہی ہیں ۔ یہی نہیں ، 25مئی 2011ء کو سامنے آنے والی ایک خبر نے پوری دنیا کو ششدر کر دیا تھا۔ سائنسدانوں نے ایک سیارہ دریافت کیا تھا، جو پورے کا پورا ہیرے سے بنا ہوا تھا۔ جی ہاں ، ایک پوری زمین، جس میں مٹی اور پتھروں کی جگہ ہیرے موجود تھے ۔ یہ سیارہ مکمل طور پر کاربن کا بنا ہوا تھا ۔ سائنسدان اس کا جائزہ لیتے رہے ۔ آخر معلوم ہوا کہ یہ ا س قدر کثیف ہے کہ کاربن لازماً کرسٹلز میں بدل گیا ہوگا، ہیرا بن گیا ہوگا ۔ یہ اب تک دریافت ہونے والا سب سے زیادہ کثیف سیارہ تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہیرے سے بنی ہوئی ایک زمین، ایک پورا سیارہ جو کہ حیران کن رفتار سے اپنے ستارے کے گرد گھوم رہا تھا ۔ ہماری زمین کو جہاں اپنے سورج کے گرد ایک چکر پورا کرنے میں 365دن لگتے ہیں ، وہاں یہ سیارہ صرف دو گھنٹے میں اپنا چکر مکمل لیتا ہے ۔ 
یہ ہے سونے چاندی اور ہیرے جواہرات کی حقیقت۔ تیل کے لیے لڑائیاں ہوتی ہیں ۔ اگر آپ سیارہ ء زحل کے سب سے بڑے چاند ٹائٹن کے بارے میں پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سطح پر تیل پانی کی صورت بہہ رہا ہے ۔ 
ہاں البتہ انسان کو غمِ روزگار، صحت اور دیگر مسائل میں الجھا دیا گیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں شر ہے ۔ میرے جیسے لوگ اگر وسائل میں خودکفیل ہو جائیں تو ان کی گردنوں میں سریا آجاتاہے ۔ پھر وہ چاہتے ہیں کہ ہر جگہ انہی کی بات سنی جائے، ان کے نظریات پر سب آنکھیں بند کر کے ایمان لے آئیں اور جو اختلاف کرے، اس کی گردن اڑا دی جائے ۔ یہی تو وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک موقعے پر جو انسان غربت اور مظلومیت کی انتہا کو پہنچا ہوتاہے ، وہی جب اس کا بس چلے تو اپنے سے زیادہ مسکین کے لیے ظالم بن جاتاہے ۔ پھر جب آپ پلٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوتاہے کہ انسان کے علاوہ وہ ساری مخلوقات جو کائنات کی ابتدا اور اختتام کے تھیسز پیش کرنے کے قابل نہیں، چاہے وہ گلی میں گھومتا ہوا کتا ہو یا زمین پہ رینگتی ہوئی ایک چیونٹی، ان کی بھی سب ضروریات ، بشمول خوراک اور افزائشِ نسل اسی طرح پوری ہو رہی ہیں ، جیسے کہ انسان کی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر غمِ روزگار کا مارا ہوا انسان بھی اسی طرح سے پل رہا ہے ، جیسے باقی سب مخلوقات ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دن انسان سے پوچھا جائے گا کہ یہ جو غیر معمولی عقل تجھے دی گئی تھی، اس سے تو نے کیافائدہ اٹھایا۔ انسان اس وقت یہ کہے گا کہ میں نے شادی کی، بیوی بچے پالے۔ خدا کہے گا کہ باقی سب مخلوقات ، جنہیں اس طرح کی عقل نہیں دی گئی ، انہوں نے بھی بچے پالے ۔ یہ کون سا کارنامہ ہے ۔ ہر بلی اور ہر بندریا اپنے بچے پالتی ہے ۔ انسان کہے گا کہ میں نے کاروبار کیا۔ خدا کہے گا کہ سب وسائل میں نے زمین میں رکھے ، ان سے تونے فائدہ اٹھایا، اس میں کون سا کمال ہے ۔تو نے میرا اگایا ہوا گندم کا دانہ کھایا، میری پیدا کی ہوئی آکسیجن سے سانس لیا۔اس کاروبار سے تو نے زمین کے کچھ وسائل اپنی ملکیت میں کر لیے ۔ یہ سب تو بجا، یہ تو بتا کہ تو نے میرے بارے میں سوچا ۔ اس بات پرغور کیا کہ تجھے کیوں عقل دی گئی اور باقیوں کو کیوں نہیں دی گئی ۔ تو کیوں لباس پہن رہا ہے ، باقی کیوں نہیں پہن رہے ؟ تو کیوں ایجادات کر رہا ہے اور باقی کیوں نہیں کر رہے ؟ تو کیوں آگ سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور باقی کیوں نہیں اٹھا رہے ۔تو پھر انسان جواب میں کیا کہے گا؟ کہ میں نے ساری زندگی دولت کمانے کی نذر کر دی ؟یہ نہیں کہ دولت کمانا بری چیز ہے ۔ ایک انسان کاروبار ی ادارہ بناتاہے توایک ہزار لوگوں کو روزگار مہیا آتا ہے لیکن ساری بات ہے ایک توازن کی۔ 
جہاں تک کسی بھی پیشے میں کمال حاصل کرنے کی بات ہے ، تو یہ سب وقت دینے پر منحصر کرتاہے ۔ جس نے بانسری کو وقت دیا ، اسے بانسری بجانا آگیا۔ جس نے گاڑیوں پر زیادہ غور کیا، انہیں زیادہ وقت دیا، وہ موٹر مکینک بن گیا۔ وہ ساری صلاحیت تو دماغ میں رکھ دی گئی ہے ، جس کی مدد سے انسان ہر شے سیکھ لیتا ہے ۔ بہرحال اس عقل کے ساتھ بہت جوابدہی جڑی ہے اور ایک دن ہمیں جواب اور حساب دینا ہوگا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں