"FBC" (space) message & send to 7575

ایک برابر

چند روز قبل ایک کالم اس موضوع پر لکھا تھا کہ کہاں امیر اور غریب ایک برابر ہو جاتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ امیر برے ہیں یا غریب عظمت کا پیکر۔ امیر شخص اچھا بھی ہو سکتا ہے، برا بھی۔ یہی معاملہ غریب کا ہے۔ جب آپ ایک غریب بچّے کو للچائی ہوئی نظروں سے آئس کریم گھورتے ہوئے دیکھتے ہیں تو دل میں افسوس کی ایک لہر اٹھتی ہے۔ دنیا کی یہ زندگی ایک آزمائش ہے۔ کیا کوئی شخص اپنی دولت کے بل پر اس آزمائش سے بچ سکتا ہے؟ کافی گہرائی میں اس سوال کا میں نے جائزہ لیا ہے اور جواب نفی میں ہے۔ امیر ہو یا غریب، عورت ہو یا مرد، حسین شخص ہو یا بدصورت، اس دنیا میں آنے والا ہر شخص بہرحال آزمائش سے گزرتا ہے۔ آئیے کچھ مزید situations کا جائزہ لیں، جہاں امیر اور غریب اس آزمائش میں ایک برابر ہو جاتے ہیں۔ 
جسمانی تکلیف ایک ایسی چیز ہے، جس سے دنیا کا کوئی بھی شخص بچ نہیں سکتا۔ کسی بھی وقت کوئی حادثہ پیش آ سکتا ہے۔ کوئی بیماری سر اٹھا سکتی ہے۔ ٹائیفائیڈ سے لے کر پتّے میں پتھری اور بڑی آنت کے کینسر سے لے کر بد ہضمی تک، کسی نہ کسی صورت ہر امیر اور غریب شخص کو زندگی میں جسمانی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ کوئی گاڑی ٹکر مار سکتی ہے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک امیر عورت کو بھی بچّے کو خود ہی جنم دینا پڑتا ہے۔ گو کہ اب ایسے انجیکشن بن چکے ہیں، جن سے ریڑھ کی ہڈی میں سے درد کی آمدورفت روک دی جاتی ہے لیکن ان سے کچھ مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ آپ تکلیف برداشت کریں اور بچّے کو جنم دیں۔ یہ اللہ کی طرف سے رکھا گیا سب سے بہتر طریقہ کار ہے۔ اگر آپ یہ انجیکشن آخری وقت پر لگا بھی لیں تو 9 ماہ تک اس بچّے کو پیٹ میں اٹھا کر پھرنا تو پڑے گا اور ساری احتیاطیں بھی کرنا ہوں گی۔ حمل کے ابتدائی مہینوں میں بار بار ابکائیاں بھی آئیں گی۔ یہ سب کچھ ہر عورت کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ 
نوزائیدہ بچّہ ہر کچھ دیر کے بعد زور زور سے رونا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے پاس یہی ایک رونے کا ہی سگنل ہوتا ہے، جس سے وہ کچھ خراب ہونے کی اطلاع اپنی ماں کو دے سکتا ہے۔ اس بچے کو ماں کے دودھ کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا کوئی بھی نعم البدل دنیا میں موجود نہیں۔ بار بار اسے صفائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ آپ ملازم رکھ لیں لیکن ملازم رکھنے سے جہاں کچھ مسائل حل ہوتے ہیں، وہیں کچھ مسائل پیدا بھی ہوتے ہیں۔ جن لوگوں نے ملازم رکھے ہوئے ہیں، وہ میری بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ آپ دنیا جہان کی دولت خرچ کر لیں، آپ سیارۂ ارض پہ اپنی زندگی کو ایک خاص حد سے زیادہ آرام دہ کبھی بھی نہیں بنا سکتے۔ وجہ ؟ دنیا آزمائش کے لیے بنی ہے۔ 
بعض اعتبار سے بادشاہ زیادہ مجبور ہوتے ہیں۔ امیر شخص یہی سوچتا رہ جاتا ہے کہ یہ بندہ بھی میری دولت کی وجہ سے مجھ سے دوستی کر رہا ہے۔ وہ بھی میری دولت کے پیچھے ہے۔ مخلص کون ہے؟ وہ اخلاص ہی ڈھونڈتا رہ جاتا ہے۔ اسے تو اپنی اولاد میں سے بھی کوئی اپنے تخت کا حریص نظر آ رہا ہوتا ہے۔ ترکی ڈرامے ''میرا سلطان‘‘ میں یہ سب معاملات بخوبی نظر آتے ہیں۔ محلات میں سازشوں پہ سازشیں جنم لیتی رہتی ہیں۔ بادشاہ کی اپنی ہی بیویاں اور بیٹے چالیں چل رہے ہوتے ہیں اور وہ ان کی سرکوبی کرتا رہتا ہے۔ 
ایک سب سے اہم چیز جو رہ گئی تھی، وہ یہ ہے کہ دماغ میں کیمیکلز کا balance، جذباتی توازن، جو کہ زندگی کو آرام دہ بناتا ہے۔ ایک صوفی کو ساری دنیا کیوں حسرت بھری نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس لیے کہ اس کے دماغ میں کیمیکلز کا توازن ہمیشہ اسے پُرسکون رکھتا ہے۔ بدترین صورتِ حال میں بھی وہ پرسکون ہوتا ہے۔ جبکہ ایک دوسرا شخص صرف گاڑی میں معمولی خرابی کی وجہ سے ساری رات جاگ سکتا ہے۔ اپنی اپنی نفسیات کی بات ہے۔ جب ایک شخص تھکا ہارا گھر پہنچتا ہے اور اس کی بیٹی اس کے جوتے اتار کر پائوں سہلاتی ہے تو اسے سکون محسوس ہوتا ہے۔ اس کے دماغ میں ایسے کیمیکلز خارج ہوتے ہیں، جو اسے سکون اور خوشی کا احساس دلاتے ہیں۔ جب ایک غریب بیٹا اپنی ماں کا بوسہ لے کر گھر سے نکلتا ہے تو دونوں کے دماغ میں خوشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ ایسے کیمیکل خارج ہوتے ہیں جو خوشی کا باعث بنتے ہیں۔ ان میں سے مناسب کیمیکلز کا مناسب مقدار میں اخراج وہ سب سے قیمتی چیز ہے، جسے دنیا کی ساری دولت خرچ کرکے بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ قسمت والوں کو ہی ملتی ہے۔ امیر شخص کو بھی یہ نعمت حاصل ہو سکتی ہے اور کوئی غریب شخص بھی اس معاملے میں بدقسمت ہو سکتا ہے۔ یہ رشتے ، دماغ میں کیمیکلز کا یہ balance کسی بھی شخص کی امارت یا غربت سے منسلک نہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے ، جہاں امیر اور غریب برابر ہو جاتے ہیں۔ 
آپ کو یاد ہو گا کہ جب ڈاکٹر عاصم حسین کو گرفتار کیا گیا تو سب سے پہلے انہوں نے اپنے ذہنی معالج اور ادویات تک رسائی مانگی تھی؛ حالانکہ دولت کے پہاڑ انہوں نے اپنے پاس جمع کر لیے تھے ۔ دولت موجود تھی، کیمیکلز کا balance موجود نہیں تھا۔ 
بڑھاپے کا ذکر تو ہو گیا تھا۔ آہستہ آہستہ ہر شخص، خواہ وہ امیر ہو یا غریب ، بڑھاپے کا شکار ہوتا ہے۔ اس کے اعضا میں طاقت نہیں رہتی۔ اسے آہستہ آہستہ چلنا پڑتا ہے۔ اسے کوئی بھی چیز اچھی نہیں لگتی، جبکہ جوان شخص خواہ مخواہ چھلانگیں مارتا پھرتا ہے۔ بچّوں کو تو جون جولائی کی گرمی کی کچھ نہیں کہتی اور وہ باہر جا کر کھیلنے پر بضد ہوتے ہیں۔ اسی طرح شدید سردی میں بھی ان کا یہ جوش و جذبہ کم نہیں ہوتا جبکہ ایسے میں بوڑھے شخص کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا کمرا گرم ہو اور پاس چائے یا کافی کا ایک مگ پڑا ہو، جسے وہ رضائی اوڑھ کر پیتا رہے۔ بڑھاپا امیر اور غریب کو ایک برابر کر دیتا ہے۔ بہت سے بوڑھے بچّوں کی سی باتیں اور ضد کرنے لگتے ہیں۔ سننے والے مسکراتے رہتے ہیں۔
موت کا ذکر رہ گیا تھا۔ موت کوئی معمولی تکلیف نہیں۔ جس نے کسی جاندار کو مرتے دیکھا ہو، وہی اس کا اندازہ کر سکتا ہے۔ بکرے ذبح ہوتے آپ سب نے دیکھے ہوں گے۔ ان پر آپ کو ترس بھی آیا ہوگا؛ حالانکہ ان کو تو شاید کم از کم تکلیف سے موت نصیب ہوتی ہے۔ بہت سے انسان کئی کئی سال بیماری اور بڑھاپے کی تکلیف سہتے ہیں۔ دور کیوں جاتے ہیں، ہمارے مرحوم بھائی باکسر محمد علی نے قریب چار عشرے بیماری میں گزارے۔ وہ شخص، جس کا ایک گھونسہ طاقتور شخص کو زمین چٹا دیتا تھا، بولنے میں بھی دقت محسوس کرتا تھا۔ کئی عشروں کی بیماری کوئی معمولی تکلیف نہیں۔ ہمیں ان بکروں پر تو ترس آتا ہے لیکن ہیں تو ہم بھی جاندار۔ موت تو ہمیں بھی آنی ہے اور کون جانے کتنی تکلیف کے ساتھ آتی ہے۔ یہ موت بھی غریب اور امیر کو ایک برابر کر دیتی ہے!
Bottom Line یہی ہے کہ جو مرضی کر لیں، آزمائش سے تو گزرنا ہی پڑے گا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں