"FBC" (space) message & send to 7575

دنیا میں اور کیا چاہیے ؟

بعض اوقات انسان کو اس قدر دلچسپ مشاہدات میسر آتے ہیں ‘ جو زندگی بھر کے لیے اس کے ذہن پہ نقش ہو جاتے ہیں ۔ ان میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہوتاہے ۔ خاص طور پر جب یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ بظاہر ایک پسے ہوئے آدم زاد کو اس کی زندگی میں کیا چیز Motivate کرتی ہے ۔ ایسا ہی ایک انتہائی حیرت انگیز واقعہ آپ کی نذر کرتا ہوں ۔ نفسیات کے طالب علموں کے لیے یہ بہت دلچسپ ہوگا ۔ ہم دوست اس وقت میٹرک میں تھے ۔ ہم ہاسٹل میں رہتے تھے۔ اس نجی سکول میں فوج سے سبکدوش اساتذہ بچوں کوپڑھاتے اور تربیت دیتے ۔ باقاعدہ فوجی یونیفارم ‘ باقاعدہ ڈرل ۔یہ سکول اور ہاسٹل آبادی سے دور تھا۔ حجام اور موچی ہفتے دس دن میں ایک مرتبہ وہاں آیا کرتے ۔ یہ واقعہ ایک موچی سے متعلق ہے‘ ظاہر ہے کہ جس کا شمار غریب ترین لوگوں میں ہوتا ہے ۔ ادھیڑ عمر کا یہ شخص تنکے کی طرح دبلا پتلا تھا ۔ 
ایک روز ہم کچھ دوست قریبی بازار تک جا رہے تھے ۔ہم وین میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ اسی وقت یہ موچی صاحب بھی اپنے کام سے فارغ ہو کر باہر نکلے۔ وہ وین کے قریب آیا ‘ پھر اس نے کنڈکٹر سے پنجابی میں پوچھا : بوچھال تک کا کتنا کرایہ ۔ کنڈکٹر نے چند روپے کرایہ بتایا ۔ موچی صاحب گردن اکڑا کر ذرا عجیب سے انداز میں مسکرائے ‘ سر ہلایا اور پھر یہ کہا : کی خیال اے‘ فیر پیدل ای مارچ کریے ؟ اس نے کنڈکٹر کے جواب کا انتظار بھی نہیں کیا اور بوچھا ل کی طرف منہ کر کے باقاعدہ فوجیوں کے انداز میں مارچ شروع کر دیا ۔ 
وین چلتی رہی ‘ رکتی رہی۔ سواریوں کا انتظار کرتی رہی ۔ قریبی آبادی تک پہنچتے پہنچتے ہمیں پندرہ بیس منٹ لگ گئے ۔ جب وین سے اترے اور سامنے دیکھا تو دور سے وہ مارچ کرتا ہوا چلا آرہا تھا ۔ اس کا چہرہ جوش و جذبے سے تمتما رہا تھا ۔ وہ اس قدر پرجوش تھا کہ مارچ کرتے ہوئے اس کا بازو کندھے سے اوپر تک جا رہا تھا ۔اس وقت تو ہم یہ ماجرا دیکھ کر ہنس ہی سکتے تھے ۔ آج میں اس کی نفسیاتی تشریح بھی کر سکتا ہوں ۔وہ نیم فوجی اکیڈمی میں میٹرک کے نوجوانوں کو ڈرل کرتا ہوا دیکھتا رہتا تھا۔ وہ انہیں بتانا چاہتا تھا کہ ادھیڑ عمر ہونے کے باوجود جسمانی طور پر وہ ان نوجوانوں سے کہیں زیادہ طاقت رکھتا ہے ۔ اس قدر کہ سفر کرنے کے لیے اسے گاڑی کی ضرورت ہی نہیں ۔جتنی دیر میں لوگ گاڑی میں ایک سفر طے کرتے ہیں ‘ وہ پیدل ہی کر لیتاہے ۔ حب ِجاہ کی جبلت اسے بھرپور قوت فراہم کر رہی تھی ۔ وہ کانٹے کی طرح دبلا پتلا تھا‘ دیر تک پیدل چلنا اس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں تھا ۔ظاہر ہے کہ وہ بچپن سے پیدل چلنے کا عادی ہوگا ۔یہ بات صاف ظاہر ہے کہ بوچھا ل کا کرایہ بھی پہلے سے اسے بخوبی معلوم تھا ۔غالباً وہ ہر ہفتے اپنی اس قوت اور صلاحیت کا مظاہرہ کرتا ہوگا ۔ یہ جسمانی مشقت اسے بھرپور ذہنی آسودگی مہیا کر رہی تھی ۔ 
اسی زمانے کا ایک دوست تھا، جسے اپنے آپ کو غیر معمولی ثابت کرنے کا شوق تھا۔ ہم میس میں کھانا کھایا کرتے ۔وہ سالن میں اس قدر زیادہ نمک ڈال کر کھایا کرتا کہ ایک عام شخص کے لیے اس کا ایک نوالہ لینا بھی مشکل ہو تا ۔نمک زیادہ کھانے کی اُس کی اس خاصیت کی تشہیر ہو چکی تھی ۔یہ بات بھی مشہور تھی کہ وہ اس قدر گرم پانی سے نہاتاہے ‘ جسے کوئی چھو بھی نہیں سکتا۔
بعد ازاں اس طرح کے ایک دو لوگ اور دیکھے ۔ دوسروں کی آنکھوں سے چھلکتی ہوئی ستائش اور حیرت انہیں بھرپور جسمانی اذیت برداشت کرنے کی قوت عطا کرتی ‘بلکہ سکون پہنچاتی ۔ یہ لوگ تکلیفیں برداشت کر رہے تھے ۔ صرف اور صرف اس لیے کہ دوسروں کو اپنے غیر معمولی ہونے کا یقین دلا سکیں ۔دوسرے لوگ جب حیرت سے انہیں یہ ''کارنامے‘‘ انجام دیتے ہوئے دیکھتے ‘تو غالباً حب ِ جاہ اور غلبے کی جبلتوں کو تسکین ملتی ہوگی ۔یہ جبلتیں اس قدر لذت پیدا کر رہی تھیں اور دماغ میں غالباً ایسے کیمیکلز خارج ہو رہے تھے کہ وہ ان کے لیے ہر تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار تھے ۔ 
اگر انسان اس طرح کے دعووں سے نکل جائے ‘تو اس کی زندگی آسان ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس راستہ اختیار کرنے پر زندگی انتہائی مشکل ہو جاتی ہے ۔ میں ایک جگہ بیٹھ کر کچھ ڈینگیں مارتا ہوں کہ میں توکشتوں کے پشتے لگا سکتا ہوں ۔ اب اگر کسی دن اچانک لڑائی والا ماحول پیدا ہو جائے‘ تو اپنی ڈینگوں کی وجہ سے مجھے بہت کچھ کر کے دکھانا پڑے گا ورنہ میرا مذاق اڑے گا ۔ 
بطورِ اخبار نویس ہماری کام یہ ہوتاہے کہ مفادِ عامہ کی وہ باتیں لوگوں تک پہنچائیں ، جن کے بارے میں لوگ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ لکھنے والے کو ماہرین سے مشورہ کرکے ہر موضوع پر اظہارِ خیال کرنا ہوتاہے۔جب ''انجینئر‘‘ آغا وقار پانی سے چلنے والی گاڑی ایجاد کرتاہے‘ تو اسے سائنس پر مضمون لکھنا پڑتا ہے کہ فلاں فلاں ملک میں پانی سے گاڑی چلانے والا فراڈ پہلے ہی ہو چکا ۔یہ اس کے لیے مشکل موضوع ہے ۔ پہلے وہ سمجھے گا ‘ پھر لوگوں کو سمجھائے گا‘ لیکن سائنس پر لکھنے سے وہ سائنسدان نہیں بن جاتا۔ دہشت گردی کے شکار ملک میں بہت سے لکھنے والے دنیا بھر میں دہشت گردتحریکوں کا مطالعہ کر کے عسکری معاملات پر لکھتے ہیں ۔ فوج سے متعلق لکھنے پر صحافی جنرل نہیں بن جاتے ۔ سیاست پر رو ز لکھنے والا سیاستدان نہیں بن جاتا۔ اسی طرح تصوف بھی زندگی کا اہم ترین موضوع ہے ۔ انسان کا خدا سے تعلق پیدا ہوجائے‘ تو باقی سب اس کے لیے آسان ہو سکتاہے ‘لیکن تصوف پر لکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ اخبار نویس صوفی ہونے کا دعویدار ہے۔ رہی علم کی بات‘ تو جیسے جیسے انسان علم حاصل کرتا چلا جاتاہے ‘ ویسے ویسے اسے اپنی کم علمی کا اندازہ ہوتا چلا جاتاہے ۔زیادہ سے زیادہ انسان یہی جان سکتاہے کہ وہ کتنا کم جانتاہے ۔ اب کون ہے‘ جو اپنی کم علمی پر ناز کرسکے ؟ظاہر ہے کہ جاہل۔
میرا ایک ہی دعویٰ ہے اوروہ یہ کہ میں مسلمان ہوں ۔ ہاں ! البتہ علم حاصل کرنے کی اہمیت اور تلقین ایک الگ بات ہے ۔ مسلمانوں علم سے ہاتھ دھو بیٹھے اور برباد ہوئے ۔انشاء اللہ جب وہ دوبارہ اٹھیں گے‘ تو احیائے علم کی ایک تحریک کے بل پر ہی ۔
نفس سے متعلق میں جو کچھ لکھتا ہوں ‘ وہ ایک طالب ِ علم کا اظہارِ خیال ہے ‘ استاد کا نہیں ۔ اپنے استاد پروفیسر احمد رفیق اختر کا میں بہت محبت اور عقیدت سے ذکر کر تا ہوں ۔ ہر ایک سے وہ انس اور شفقت کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ میں ان کے خاص الخاص شاگردوں میں شمار نہیں ہوتا‘لیکن ایک طالب ِ علم کے طور پرپروفیسر صاحب کی رہنمائی میں دنیا کا مشاہدہ کرنا انتہائی دلچسپ ہے ۔ قدم قدم پر سیکھنے کی چیزیں ملتی رہتی ہیں ۔ ایسے استاد کا سایہ انسان کو نصیب ہو تو دنیا میں اور کیا چاہیے ؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں