"FBC" (space) message & send to 7575

درد ‘ ذائقہ اور خدا

یہ دنیا جن اصولوں پر چل رہی ہے ‘ اس میں ایک انتہائی دلچسپ چیز یہ ہے کہ جاندار چیزیں اپنا خیال کیسے رکھتی ہیں ۔ اپنے جسم و جان کی حفاظت کرتی ہیں ۔ بچے جب گاڑی یا موٹر سائیکل چلانا سیکھتے ہیں اور جب وہ لاابالی پن کی عمر میں ہوتے ہیں تو کئی بار ایسا ہوتاہے کہ ایندھن ڈالنا بھول جاتے ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلتاہے کہ اچانک گاڑی کھڑی ہو جاتی ہے ۔ اس کے بعد پیدل چل کر بوتلوں میں ایندھن بھر کے لانا پڑتاہے ‘لیکن ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ ایک بچّہ کھانا یا پانی پینا بھول جائے ۔بھوک اور پیاس کی صورت میں ایسانظام خدا نے تشکیل دیاہے ‘ جو انتہائی سست بچوں کو بھی کھانے پینے پر مجبور کر دیتاہے ۔ اگر بھوک کا یہ نظام نہ ہوتا‘ تو لوگ کھانا بھول جاتے ۔ اس طرح اچانک سڑک پہ گرتے ‘ جیسے پیٹرول کا آخری قطرہ ختم ہونے کے بعد گاڑی کا انجن بند ہو جاتاہے ‘لیکن ایسا کبھی ہوتا نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے جسم اور بالخصوص دماغ میں بہت سے نظام کام کر رہے ہیں ‘ جو چیخنا شروع کر دیتے ہیں ‘ چکر آنے لگتے ہیں اور بندہ فوراً کچھ نہ کچھ کھا پی لیتاہے ۔ 
جسم اور دماغ کو ہر وقت توانائی چاہیے ۔ ہم جو کچھ بھی کھاتے پیتے ہیں ‘ اسے جسم گلوکوز میں بدل دیتاہے ‘ پھر خون کے ذریعے جسم کے ایک ایک خلیے تک یہ گلوکوز پہنچایاجاتاہے ۔ اسی دوران فاضل مادے اسی خون کے ذریعے واپس کھینچ لیے جاتے ہیں ۔ گردے انہیں فلٹر کر کے جسم سے خارج کر دیتے ہیں ۔ جب بھی کسی شخص کے یہ نظام خراب ہوتے ہیں ‘ تووہ بدترین تکلیف کا شکار ہو جاتاہے ۔ یقین نہیں آتا‘ تو جو لوگ ڈائلسز پر ہیں ‘ ان سے پوچھ لیجیے ۔
یہی نہیں ‘جسم پھیپھڑوں کے ذریعے ہو ا سے آکسیجن لیتاہے ۔ یہ آکسیجن ہمارے جسم میں توانائی پیدا کرنے کے کام آتی ہے ۔ دماغ اور جسم کے باہمی تناسب کا ‘اگر اندازہ کیا جائے ‘تو انسانوں کا دماغ دنیا کے سب جانداروں میں سب سے بڑا ہے۔ یہ اس قدر بڑا ہے کہ آکسیجن اور خوراک سے حاصل شدہ گلوکوز سے جتنی بھی توانائی پیدا ہوتی ہے ‘ اس کا بیس فیصد دماغ کھا جاتا ہے ۔ 
ذائقے کی سائنس کو اگر انسان پڑھے‘ تو اس میں بے شمار نشانیاں ہیں ۔ صرف اگر ہم میٹھے ذائقے پر ہی کام کریں تو بھی دماغ ششدر رہ جاتاہے ۔ ایک مٹھاس انگور میںہے۔ انار کی مٹھاس اس سے مختلف ہے ۔ خربوزے اور تربوز کی اس سے مختلف ۔ کیلے میں ایک اور طرح کی مٹھاس ہے ۔اور چیری کے کیا کہنے ۔۔۔! لیچی توکمال ہے ۔ آم قیامت ہے ۔ چیری کھانے والے کو کبھی ٹماٹر کھلا کر دکھائیں ۔گنّے کا ذکر تو رہ ہی گیا ۔ ایک لمحے کے لیے انسان سوچنے لگتاہے کہ کس طرح خدا نے یہ ذائقے پیدا کیے ۔ پھلوں میں مٹھاس پیدا کی‘ دماغ اور زبان میں اس ذائقے کو چکھنے ‘ اس کا جائزہ لینے کی صلاحیت رکھی ۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اعلیٰ ترین ذائقہ پھلوں میں ہے اوراگر دیکھنے والی آنکھ ہوتو ان پھلوں اور ذائقوں کے اندرانسان خدا کو دیکھ سکتاہے ۔
انتہائی خوشگوار ذائقوں کے حامل یہ پھل ‘ وٹامنز‘ توانائی سے بھرپور ہیں‘ مگر وزن نہیں بڑھاتے ۔ اس کے مقابل اگر بیکری آئٹمز‘ فاسٹ فوڈ ‘ کولڈ ڈرنکس اور تلی ہوئی چیزوں کو دیکھا جائے‘ تو اس processed foodکو کھانا ایک بہت بڑی سزا ہی لگتاہے ۔چند سالوں میں یہ سزا بڑھنے لگتی ہے ؛حتیٰ کہ چالیس پچاس کلو تک اضافی بوجھ انسان کو اٹھانا پڑتاہے ۔ کچھ لوگوں میں تو پیدائشی طور پر موٹاپے کا رجحان ہوتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے لیے وزن کم کرنا انتہائی حد تک مشکل ہوتاہے ‘ پھر بھی کرنے والے کر ہی لیتے ہیں ۔ زیادہ تر لوگوں میں یہ ہوتاہے کہ چھبیس ستائیس سال کی عمر کے بعد ‘ جب قد بڑھنے کا دور ختم ہوجاتاہے ‘تو پھر وزن بڑھنے کا دور شروع ہوتاہے ۔ یہ وہ وقت ہوتاہے ‘ جب خوراک کو بدل دینے کی ضرورت ہوتی ہے ‘لیکن ہمیں اس بارے میں کوئی علم ہی نہیں ہوتا۔ 
اور اگر یہ ذائقے نہ ہوتے ؟ تو ایک صاحب ِعلم نے یہ تعلیم دی کہ انسان کبھی بھی ایک چیز کھانے کے قابل نہ ہوتا۔ ذائقے کے بغیر کسی چیز کو کھانا ایک سزا بن جاتا ہے ۔ جن مریضوں کا منہ کا ذائقہ خراب ہو جاتاہے ‘ ان کے لیے کوئی بھی چیز کھانا ممکن نہیں رہتا ۔ اس طرح یہ ذائقے کی سائنس ہماری زندگی کو قائم رکھنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے ۔
انسانوں میں ذائقے کی حس اعلیٰ ترین معیار پر قائم ہے ۔ انسان وہ جاندار ہے ‘ جو خوراک کو گرم کر کے ‘ پکا کر اور ٹھنڈا کر کے بھی اس کی لذت بڑھا لیتاہے ۔ پھل ٹھنڈے کر کے کھاتا ہے اور اناج گرم کر کے ۔ ٹھنڈے پھل کھانے والا گرم نہیں کھا سکتا۔ گرم روٹی کھانے والا ٹھنڈی نہیں کھا سکتا ۔ انسان عمدہ ذائقے والی چیز ہی کھا سکتاہے ‘ماسوائے مجبوری کے ۔ انسان صاف چیز ہی کھا سکتاہے ماسوائے مجبوری کے ۔ اس کے برعکس اگر آپ جانوروں کو دیکھیں ‘تو انہیں چیز ٹھنڈی اور گرم کر کے کھانے کی عقل ہی نہیں ہے ۔ اسی طرح جانوروں میں صفائی کا کوئی ذوق ہی نہیں ہے ۔ اسے آپ خوراک مٹی پر ڈال دیں ‘ ریت پر ڈال دیں ‘ گندے برتن میں دے دیں ۔ وہ خوشی سے کھا جائے گا۔اسی لیے تو وہ کچرے کے ڈھیر سے بدبو اور ڈائپرز کے درمیان سے اپنی خوراک ڈھونڈ لیتے ہیں ۔ کوڑے کے اندر گھس جاتے ہیں ۔جو لوگ نشے کے عادی ہو جاتے ہیں ‘ وہ بھی کچرے کے ڈھیر سے خوراک اٹھا کر کھالیتے ہیں ۔ ان کے اندر صفائی کی حس ختم ہوجاتی ہے ۔ انہیں اس میں کوئی بھی کراہت محسوس نہیں ہوتی ۔ 
اسی طرح انسان جب انتہائی شدید بھوک کا شکار ہو اور کچھ بھی کھانے کو میسر نہ ہو تو اس وقت بقا کی جبلت کچرے اور بدبو سے اس کی کراہت کو ختم کر دیتی ہے ۔ 
اب ذرا سوچیں کہ اگر جانوروں کو بھی چیزیں آگ پر پکانے اور ٹھنڈی گرم کرنے اور میز پر صاف پلیٹ میں کھانے کا شعور ہوتا ‘تو اس دنیا کا نظام کیسے چلتا؟
مزید یہ کہ گوشت خور جانور کبھی سبزی نہیں کھا سکتے اور نہ ہی سبزی خور گوشت کھا سکتے ہیں ۔ ایک جاندار کے جسم میں دوسرے جاندار کی خوراک موجود ہونا؛حتیٰ کہ وہ خوردبینی جاندار ‘ جو کہ کسی بھی جانور کے مرنے پر اس کا جسم کھا جاتے ہیں ‘ ان کی خوراک اور ذائقے کا بھی بندوبست کرنا ‘ یہ سب کیسی کیسی عجیب باتیں ہیں ۔ اگر یہ سسٹم موجود نہ ہوتا تو مردہ جسم کبھی گل سڑ کر ختم نہ ہوتے ۔ کرۂ ارض مردہ جانداروں سے بھرا ہوتا ۔اسی طرح انسان کے اپنے جسم کے اندر‘ اس کی جلد‘ زبان اور آنتوں میں کتنے ہی جاندار اپنی زندگی بسر کر تے ہیں ۔ 
اسی طرح درد کا نظام ہے ۔ اگر یہ نظام نہ ہوتا تو جانداروں کا خون بہتا رہتا‘ اور وہ اپنے زخم نہ چاٹتے اور زمین پر لیٹ نہ جاتے ‘ بلکہ چلتے چلتے گر کے مر جاتے ۔درد کا یہ نظام پورے جسم میں ڈالی گئی تاروں (Nerves)پر منحصر ہے ۔ اگر ان تاروں کو منقطع کر دیا جائے توآپ ایک انسان کا جسم آرے سے دو ٹکڑے کر دیں ‘ اسے درد محسوس نہیں ہوگا ۔ 
درد‘ ذائقے اور بھوک میں خدا کی نشانیاں موجود ہیں ۔ یہ نشانیاں ہر کہیں ہیں ‘ ہمارے اندر اور ہمارے باہر !

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں