"FBC" (space) message & send to 7575

لیکس کی دنیا

''گوجر خان سے پاک پتن تک ‘‘ کالم نگار نے بظاہر پروفیسر احمد رفیق اختر کی مدح کی ہے ‘مگردرحقیقت یہ پروفیسر صاحب کے کندھوں پر سوا رہو کر عمران خان پر حملہ کرنے کی کوشش ہے ۔ مفہوم یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کی معیت میں عمران خان دینی و دنیاوی بلندیوں کو چھو سکتا تھا‘ لیکن اس نے پاک پتن تک کا سفر طے کیا ۔ توہم پرستی کا شکار ہوا ۔ اقتدار کا فیصلہ حالات کرتے ہیں ۔ یہ حالات خد اکے ہاتھ میں ہیں ‘ پروفیسر صاحب کے نہیں ۔ حالات کا رخ ایسا ہے کہ اقتدار عمران خان کو ملتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ پروفیسر صاحب کو اس پہ کوئی اعتراض ہے اور نہ انہیں 2013ء کے الیکشن میں عمران خان کے وزیر اعظم نہ بننے سے کوئی نقصان ہوا تھا ۔ 
ایک طویل عرصے تک پروفیسر صاحب کی کوشش یہ تھی کہ عمران خان کو ایک متبادل کے طور پر پاکستانی سیاست میں پیش کیا جائے ۔ 30 اکتوبر 2011 ء کے جلسے میں جب مخلوق عمران خان پہ ٹوٹ پڑی ‘تو بتدریج اپنے سب پرانے دوستوں ‘ ساتھیوں اور مددگاروں سے عمران خان کے راستے الگ ہوتے چلے گئے ۔ان میں فوزیہ قصوری بھی شامل تھیں ‘ جن کے ساتھ بہت سفاکانہ سلوک کیا گیا۔بہرحال ان لوگوں کو کپتان سے کوئی ذاتی فائدہ درکار نہیں تھا۔ یو ٹیوب پہ موجود پروفیسر صاحب کے جن بیانات کا کالم نگار نے حوالہ دیا ہے ‘ ان کا پسِ منظر یہ تھا کہ سی پیک کا اعلان ہونے کے ایک سال بعد پانامہ لیکس سامنے آئی تھیں ۔ پروفیسر صاحب مضطرب تھے کہ پانامہ لیکس کے پسِ منظر میں یہ سارا منصوبہ کہیں لپیٹ نہ دیا جائے۔ انہی دنوںایک افطاری پر رئوف کلاسرا صاحب سے انہوں نے یہ کہا تھا کہ نواز شریف کی حکومت کو وقت پورا کرنے دیا جائے ۔ یہ چند سال مشکل ہیں ۔ اس کے بعد پاکستان کے عروج کا زمانہ شروع ہونے والا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ پروفیسر صاحب نے آزاد ذہن پیدا کیے ہیں ‘ جو کہ کسی بھی غلط statementکو تسلیم نہیں کرتے ‘ خواہ وہ پروفیسر صاحب کی اپنی ہی کیوں نہ ہو۔ کوئی مرکزی ہدایات جاری نہیں کی جاتیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے شاگردوں میں سے بہت سے کب سے عمران خان کے اقتدارکی راہ تک رہے ہیں ۔ 
میاں محمد نواز شریف کو ملنے والی سزامتوقع (Expected)تھی کہ اپنی بیرونِ ملک جائیدادوں اور سرمایے کی منتقلی سے متعلق کوئی ایک بھی ثبوت پیش کرنے میں وہ ناکام رہے تھے ۔جے آئی ٹی کے سامنے بھی نہیں‘ جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے انہیں نا اہل کیا ۔ بعد ازاں احتساب عدالت میں بھی ان کے پاس کوئی بینک اکائونٹ نمبر‘ چیک ‘ تاریخ ‘ بینک سٹیٹمنٹ ‘کچھ بھی نہیں تھا ۔قطری خط تھااور زبانی باتیںکون مانتا‘نیز یہ کہ ابھی ایک ریفرنس کا فیصلہ ہو اہے ‘ دیگر باقی ہیں ۔سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ سڑکوں پہ ٹریفک رواں دواں ہے ۔ کہیں کوئی ہنگامہ نہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات میں یہ بات پوری طرح واضح ہوتی چلی گئی تھی کہ بیرونِ ملک اثاثوں اور ان کے لیے رقوم کی منتقلی کا کوئی بھی ثبوت لیگی قیادت کے پاس موجود نہیں ۔ 
لیگی قیادت کو ہونے والی سزائوں میں فوجی قیادت نہیں‘ بلکہ عمران خان کا کردار اہمیت کا حامل ہے اور اس سے بھی زیادہ حالات ۔ فوج اگر نواز شریف کو رخصت کرنا چاہتی‘ تو پانامہ لیکس سے پہلے ہونے والا دھرنا اس کا بہترین موقع تھا ۔ عمران خان اس دھرنے میں بری طرح ناکامی کے بعد تھک چکے تھے ۔ جوڈیشل کمیشن نے یہ قرار دیا تھاکہ 2013ء کے عام انتخابات میں نون لیگ کے حق میں منظم دھاندلی نہیں ہوئی ۔فوج آرام سے یہ سارا ماجرا دیکھتی رہی ۔ اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھتا تھا ‘لیکن پھر پانامہ لیکس سامنے آئیں ۔ آئس لینڈ کے وزیر اعظم مستعفی ہوئے ۔ پاکستان میں توخیریہ لیکس دب جاتیں‘ اگر عمران خان سڑکوں پہ نہ آتے ۔ اگر رائیونڈ میں ایک بہت بڑا جلسہ نہ ہوتا ۔ اگر اسلام آباد لاک ڈائون کرنے کا اعلان نہ ہوتا ۔ہنگامے نہ ہوتے اور چیف جسٹس اگر بالآخراس معاملے کو ٹیک اَپ نہ کرتے ۔جے آئی ٹی بنی تو ڈاکٹر شعیب سڈل اور جنرل احسن محمود صاحب سے سوال کیا کہ واجد ضیا کیا کریں گے ؟ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے ‘حکومت‘ ریاست اور اداروں کو سمجھنے والے ان حضرات کا کہنا یہ تھا کہ ایک سرکاری افسر کی کل متاع اس کے باس کی خوشنودی ہوتی ہے ! 
انہی دنوں گوجر خان میں پروفیسر احمد رفیق اختر سے ملاقات ہوئی ۔ کہنے لگے کہ چوہدری نثار نے واجد ضیا کو فون کیا ہے۔ پوچھا کہ اب آپ کا کیا ارادہ ہے ۔ واجد ضیا نے کہا کہ قانون کے مطابق اپنی ذمہ داری پوری کروں گا۔ چوہدری صاحب نے اس پر کسی بھی قسم کا دبائو اپنے ماتحت پہ نہیں ڈالا۔ استاد کہنے لگے کہ جب ایک سرپھرا افسر اپنی آئی پہ آ جائے اور قانون کے دائرے میں اپنے فرائض پورے کرنے پہ تل جائے‘ تو اسے کون روک سکتاہے ؟ دوسری طرف یہ بات لیگی قیادت کے وہم و گمان سے بھی باہر تھی کہ ایک سرکاری افسر وزیر اعظم کو بے گناہ قرار دینے سے انکار کر دے گا۔ 
تیسری طرف چوہدری نثار علی خان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ جب پورا ملک ‘ بشمول آزاد میڈیا اور اعلیٰ عدلیہ ایک سرکاری افسر پہ فوکس کیے بیٹھی ہو تو اس افسر کو کوئی بھی غیر قانونی احکامات ماننے پہ مجبور نہیں کر سکتا۔ ایس ای سی پی کے سربراہ ظفر حجازی نے ایسا کیا بھی تو اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ چوہدری نثار جب وزیر داخلہ تھے‘ تو انہوں نے اسلام آباد میں دو انتہائی طاقتور شخصیات پہ ہاتھ ڈالا‘ جن پہ کبھی کسی نے ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں کی۔ ان میں سے ایک جیل میں سڑتا رہا اور دوسراسندھ کی طرف بھاگ نکلا۔ پرویز رشید اور دوسرے لیگی لیڈروں نے نواز شریف کو خوب بھڑکایا کہ چوہدری نثار ایف آئی اے کے افسر واجد ضیا کو دبا سکتے تھے ۔ چوہدری نثار بخوبی سمجھ چکے تھے کہ نواز شریف اب نہیں بچ سکتے ۔صاف صاف وہ یہ کہہ رہے تھے کہ عدلیہ اور اداروں سے محاذآرائی نہ کریں (بلکہ کسی سمجھوتے کی کوشش کریں ) نواز شریف اور بالخصوص مریم نواز کا خیال یہ تھا کہ ہم ووٹ کی طاقت سے برسرِ اقتدار آئے ہیں۔ ہم فوج اور عدلیہ سمیت تمام اداروں کو دبا سکتے ہیں ۔ ان کی خواہش تویہ تھی کہ فوجی قیادت عدلیہ پر دبائو ڈالے کہ لیگی قیادت کو کلین چٹ دی جائے۔ فوج بھلا ایسا کیوں کرتی ؟
پچھلے دو عشروںمیں دنیا کے حالات تیزی سے بدلے ہیں ۔ کبھی عالمی لیڈر پچا س پچاس سال تک بیرونِ ملک اپنی جائیدادیں چھپائے رکھتے تھے ‘ جیسے ایک طویل عرصے تک شریف خاندان نے چھپائے رکھی ۔ انٹر نیٹ ‘ ہر چیز کمپیوٹرائزڈ ہونے اور عالمی صحافتی تنظیموں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں اب کسی بھی وقت کوئی بھی لیکس سامنے آسکتی ہیں ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پیپلزپارٹی کے دور میں وکی لیکس سامنے آئی تھیں‘ جوپوری دنیا پہ اثر انداز ہوئیں۔ یہ لیکس کا زمانہ ہے ‘راز افشا ہونے کا۔ دنیا میں اب کچھ بھی مستقل طور پر راز نہیں رہ سکتا۔ ہر شخص کے ہاتھ میں موبائل ہے ۔ ہر موبائل میں کیمرہ نصب ہے ۔ ہر شخص اپنے پاس موجود راز انٹر نیٹ پہ ڈال کر ‘ دنیا کو پیش کر کے داد وصول کرنا چاہتاہے ۔ اس دور میں ہر شخص کو اپنے اثاثہ جات اور ان کے ذرائع ظاہر کرنا پڑ رہے ہیں ‘ جن لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت زیادہ کرپٹ تھی اور اسے سزا نہیں ہوئی‘ ا ن کی خدمت میں عرض ہے کہ ایک نہ ایک دن دبئی لیکس سامنے آئیں گی ۔ہو سکتا ہے کہ دس سال بعد ۔ پانامہ لیکس کی صورت میں شریف خاندان اگر پہلے پکڑ میں آگیا ‘تو یہ تقدیر کا فیصلہ ہے ‘ پاکستانی فوج کا نہیں ‘نیز یہ کہ نواز شریف کے دورِ اقتدار میں پروفیسر احمد رفیق اختر گوجر خان میں چین کی نیند سوتے رہے ۔ عمران خان کے اقتدار سے بھی انہیں کوئی فکر لاحق نہیں ۔ کالم نگار کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ جیسے چند برس پہلے کشف المحبوب جیسی تصنیف میں انہوں نے کیڑے برآمد کر لیے تھے‘ اسی طرح عمران خان پہ بھی بذاتِ خود تیر برسالیتے ۔ پروفیسر صاحب کے سر چڑھنے کی کیا ضرور ت تھی ؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں