"FBC" (space) message & send to 7575

فوج نہیں ، حالات !

بے نظیر بھٹو او رنواز شریف پاکستانی سیاست کے دو لازم و ملزوم جزو تھے ۔حریفوں کی طرف سے انہیں سیاست سے نکال باہر کرنے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی ۔ یہی ملک میں ہونے والے بڑے واقعات کے محرک تھے مثلاً بے نظیر نے افتخار محمد چوہدری کی معزولی کے خلاف تحریک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پرویزمشرف کو وردی اتارنے پر مجبور کر دیا۔بے نظیر قتل ہوئیں تو کئی دن تک ریاست کی رِٹ ختم ہو کر رہ گئی ۔ آصف علی زرداری کو ان کی تمام تر بدنامی کے باوجود اقتدار نصیب ہوا۔ اسی طرح میاں محمد نواز شریف بھی پاکستانی سیاست کے اٹوٹ انگ تھے ۔ جب مشرف کے بعد زرداری صاحب نے بھی افتخار محمد چوہدری کو بحال کرنے سے انکا رکر دیا۔ جب دوسرے لانگ مارچ میں نواز شریف اپنے گھر سے نکلے تو اس قد ر مخلوق اکھٹی ہوئی کہ بڑے بڑے کنٹینرز پھینک دیے گئے ۔ نواز شریف گوجرانوالہ پہنچے تو زرداری صاحب کی بس ہو گئی ۔ سپہ سالار سے مشورہ کر کے آخر انہیں ججوں کو بحال کرنا پڑا ۔ یہ حالات کا دبائو تھا‘ جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نواز شریف کامیاب ہوئے ۔ آج وہی نواز شریف اپنی بیٹی سمیت جیل میں پڑے ہیں ۔ ہمدردی کی کوئی ایسی بڑی لہر نہیں ‘ جس پہ سوار ہو کر وہ عدالتی فیصلوں کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک سکیں ۔ آخر کیوں ؟
چار پانچ سال پہلے کوئی مائی کا لال نواز شریف کوجیل میں ڈالنا تو درکنار انہیں سیاست سے نکا ل کر دکھاتا ۔ کسی میں اتنی جرأت نہیں تھی ۔ پھر چند سالوں میں یہ کیا ہوگیا۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب فوج کر رہی ہے ۔ ان سے میرا سوال یہ ہے کہ جب جنرل پرویز مشرف نے دس سال کا ایک معاہدہ نواز شریف سے سائن کروایا تو کیانواز شریف کے اپنے دستخطوں کے باوجود وہ انہیں سیاست سے باہر نکال سکا ؟ وہ واپس آئے اور دوبارہ اقتدار پہ براجمان ہوئے ۔ الٹا مشرف کو رخصت ہو نا پڑا ۔فوج سب کچھ نہیں کر سکتی ۔ فوج نے ججوں کی بحالی میں رکاوٹ ڈالی ۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف اس وقت صدر بھی تھا۔ قاف لیگ میں وہ سارے بڑے سیاستدان شامل ہو چکے تھے جو اس وقت تحریکِ انصاف‘ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے ٹکٹوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ کیا وہ سب مل کر بھی ججوں کی بحالی روک سکے یا نواز شریف کو واپس آنے سے روک سکے ؟ عمران خان نے اتنا طویل دھرنا دیا‘ کیا وہ نواز شریف کو رخصت کر سکے ؟ وہ تو ناکام و نامراد واپس ہوئے ۔ سول نافرمانی سمیت بہت سے اعلانات پر شرمندگی اٹھانا پڑی ۔ 
آج یہ صورتحال ہے کہ نہ صرف یہ کہ نواز شریف کو جیل میں ڈال دیا گیا بلکہ ایک عظیم منصوبہ ساز نے اس فیصلے کو عوام کی ایک بڑی تعداد کے لیے قابلِ قبول بھی بنایا۔ وہ ایسے کہ پہلے تو پانامہ لیکس عمران خان یا کسی پاکستانی سیاستدان کا کارنامہ نہیں تھیں بلکہ صحافیوں کی ایک عالمی تنظیم کی طرف سے سامنے لائے گئے انکشافات تھے اور اس پر آئس لینڈ کے وزیرِ اعظم سمیت کئی عالمی عہدیدار فارغ ہو ئے۔اس میں عمران خان یا کسی پاکستانی سیاست دان یا فوج کا ہاتھ نہیں تھا۔ پھر یہ کہ نواز شریف کئی برس تک حکومت کر چکے تھے ۔ اس حکومت کی کارکردگی انتہائی معمو لی تھی ۔ اگراس میں چین کے سرمائے سے بننے والے سی پیک اور بجلی کے منصوبے نکال دیں تو شاید یہ زرداری حکومت سے بھی گئی گزری ثابت ہوتی۔ ملکی قرضہ زرداری صاحب نے چھ ہزار ارب روپے سے بڑھا کر چودہ ہزار ارب روپے کر دیا تھا۔ آج یہ قرض 26ہزار ارب روپے تک جا پہنچا ہے ۔ 
آپ کسی ریڑھی والے سے پوچھ لیں کہ مشرف ‘ زرداری او رنواز شریف میں سے کس کی حکومت بہتر تھی ۔ مشرف کے دور میں اقتصادی ترقی کی شرح آٹھ فیصد تک جا پہنچی تھی ۔ نواز شریف صاحب سی پیک کے باجود اور پورا زور لگانے کے باوجود چھ فیصد کو نہیں چھو سکے ۔ قصہ مختصر یہ کہ صورتحال ایسی نہیں تھی کہ جیسے ترک عوام طیب اردوان کی محبت میں سڑکوں پر نکل آئے ‘ اس طرح ایک عام پاکستانی ان کے لیے ٹینکوں کے سامنے لیٹ جاتا۔ پھر ٹینک تو آئے ہی نہیں ۔ سپریم کورٹ نے ایک جے آئی ٹی بنائی‘ جس پر لیگیوں نے مٹھائیاں بانٹیں ۔ بعد میں جب روز ایک سوال پوچھا جاتا کہ آپ کے پاس پاکستان میں کتنی رقم تھی اور اسے آپ نے بیرونِ ملک برطانیہ تک کیسے منتقل کیا تو اس کے جواب میں کوئی ایک بھی اکائونٹ نمبر تو لیگی قیادت دے نہیں سکی ۔ صاف صاف بات یہ تھی کہ ناجائز طریقے سے پاکستان سے سرمایہ باہر منتقل کیا گیا تھا۔ اس منتقلی کا کوئی بھی ثبوت ان کے پاس نہیں تھا۔ ان کے پاس اثاثے بہت بڑے تھے‘ ذرائع آمدن نہیں تھے ۔ پاکستان میں اتفاق فائونڈری تو آخر کار گروی رکھ کر قرض لے لیا گیا تھا اور یہ قرض 17سال بعد بمشکل ادا ہوا۔ اس عرصے میں فائونڈری بند پڑی تھی۔ آپ سعودی عرب ‘دبئی ‘یا لندن میں سے کوئی تو ریکارڈ فراہم کریں کہ ہم نے یہ کاروباری ادارہ بنایا ہے ‘ یہ اس کا بینک اکائونٹ نمبر ہے‘ اس میں اتنی ٹرانزیکشنز سالانہ ہوتی ہیں ‘ اتنا نفع ہے ‘ فلاں آڈیٹر آڈٹ کرتا ہے ۔یقین کریں کہ کچھ بھی نہیں تھا ۔ ایک ٹکے کی بھی کوئی وضاحت نہیں تھی ۔قطری خط جیسے لطیفے پیش ہوئے اور آخر میں ‘ میں نے دیکھا کہ مسلم لیگ نون کے اپنے عہدیدار بھی بالکل ڈھیلے پڑ گئے تھے ۔ سچی اور کھری بات یہ ہے کہ شریف خاندان نے اپنے اقتدار کو دولت کمانے کے لیے استعمال کیا ۔ جس وقت بیرونِ ملک جائیدادیں بنا ئی گئیں ، اس وقت ان کے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں تھا کہ ایک دن صحافیوں کی عالمی تنظیم سارا بھانڈہ پھوڑ دے گی ۔ 
پاکستانی فوج کے ہاتھ میں اگر حالات ہوتے تو نواز شریف جدہ جانے کے بعد کبھی واپس ہی نہ آ سکتے ۔ نہ کبھی جج بحال ہوتے۔ نہ زرداری صاحب صدر بنتے ۔ ہاں البتہ فوج چوکس رہتی ہے ۔ جب حالات موافق ہوں تو وہ فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کرتی ہے ۔ اس خطے میں ‘ بالخصوص افغانستان اور بھارت میں ایسے ایسے کھیل کھیلے جا رہے ہیں ‘جہاں سویت یونین اور اورامریکہ جیسی عالمی طاقتیں ملوث ہوتی ہیں ‘ بھارت جیسی علاقائی طاقتیں اور برطانیہ میں تو آپ الطاف حسین سے لے کر براہداغ بگٹی سمیت باغی بلوچ سردار زادوں کو پناہ لیتے ہوئے دیکھتے ہی ہیں ۔ 
ہاں ، البتہ یہ ایک الگ بات ہے کہ الیکشن لڑنے والے لوگ وہی ہیں ۔ وہ نواز شریف کو طاقتور دیکھتے ہیں تو اس کے پائوں میں بیٹھ جاتے ہیں ۔ مشرف آتا ہے تو اس کی چھتری تلے پناہ لیتے ہیں ۔ پھر نواز شریف آتا ہے تو اس سے معافی مانگ لیتے ہیں ۔ پھر عمرا ن خان پہ قسمت مہربان دکھائی دیتی ہے توتحریکِ انصاف میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ ایک دن یہ کھیل بھی ختم ہو جائے گا ، یہ بات آپ لکھ لیں ۔بہرحال قصہ مختصر یہ کہ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ پاکستانی فوج جو چاہے، وہ ہوتا چلا جائے ۔ سب کچھ حالات پہ منحصر ہوتا ہے اور حالات خدا کے ہاتھ میں ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں