چھٹی ساتویں جماعت میں میڈم شازیہ نامی ایک استانی ہمیں پڑھایا کرتی تھیں۔ آج ان کا پیغام موصول ہوا ہے ۔ ایک ٹرسٹ ہے ‘ جس کے زیر نگرانی ملک بھر میں سکولوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے ۔ یہاں ایک نیا تجربہ کیا جا رہا ہے ۔ انتظامیہ کی طرف سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جب پندرہ بیس ہزار روپے میں آسانی سے ایک استاد مل سکتاہے‘ تو چالیس پچاس ہزار روپے دینے کی کیا ضرورت ہے ۔ اساتذہ کو جبری ریٹائرمنٹ کے پروانے تھمائے جا رہے ہیں ۔مجبوراً اب وہ سڑکوں پہ مارے مارے پھر رہے ہیں ‘ جس کسی نے بھی قوم کے معماروں کا دماغ ٹھیک کرنے کی یہ پالیسی بنائی ہے ‘ اسے سرخ سلام ۔آئندہ کسی کالم میں اس پر تفصیل عرض کروں گا۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا تھا‘ پنجاب میں تحریکِ انصاف کی حکومت بننے کے امکانات زیادہ ہیں ۔ لازماً انہیں حکومت بنانی چاہئے‘ تاکہ اگلے پانچ سال میں اس بات کا فیصلہ ہوسکے کہ تحریک ِانصاف پاکستان کے مسائل حل کر سکتی ہے یا نہیں ۔
آپ دیکھ لیجیے گا کہ نون لیگ ‘ پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمن وغیرہ اپنا سارا زور لگا کر بھی عمران خان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ اس لیے کہ یہ کپتان تھا‘ جو تیس پینتیس سیٹوں کے ساتھ انہیں تنگ کیے رکھتا تھا۔ نون لیگ والوں میں اگر دم ہوتا تو پرویز مشرف 1999ء سے 2007ء تک کوس لمن الملک بجایا کرتا؟ خواجہ سعد رفیق نجی محفلوں میں نواز شریف کو صلواتیں سنایا کرتے تھے ۔ باقیوں کا دم خم بھی بناوٹی ہے ۔ اب جبکہ سب کو یقین ہو چکا ہے کہ نواز شریف کا سورج غروب ہو چکا ہے‘ تو دکھاوے کی یہ بہادری بھی ختم ہو جائے گی ‘ پھر یہ کہ اب یہ وہ الیکشن کمیشن نہیں ‘ جو حکمرانوں کے پائوں میں بیٹھا کرتا تھا۔ ملک بھر سے 83ہزار فارم 45الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کا دلیرانہ فیصلہ کیا گیا ہے ۔
رہی نون لیگ تو اس کے ساتھ دھاندلی بالکل نہیں ہوئی ۔ ہوا صرف یہ کہ پنامہ لیکس کے نتیجے میں نا اہلی اور پھر سزا کے نتیجے میں ان کا رعب ختم ہوا ۔یہ تاثر ختم ہوا کہ شریف خاندان کا کبھی احتساب نہیں ہو سکے گا۔ نون لیگ کے الیکشن جیتنے کا تاثر ختم ہوا۔پہلے جن حربوں سے نون لیگ الیکشن مینج کیا کرتی تھی‘ ان کی اجازت نہیں دی گئی ۔ حضور‘ یہ ہیں وہ اقدامات ‘ جنہیں نون لیگ دھاندلی سمجھتی ہے ۔
چند برس قبل مرحوم جنرل حمید گل صاحب سے ملاقات ہوئی ۔بھٹو کے مقابلے میں ایک سیاسی لیڈر پیدا کرنے کے لیے نواز شریف کا انتخاب انہوں نے کیا۔ میرے تایا مقبول احمد جب بھی اسلام آباد آتے‘ تو لازماً جنرل صاحب سے ملا کرتے ۔ ایسی ہی ایک ملاقات میں حمید گل صاحب سے ‘انہوں نے کہا : جنرل صاحب!یہ جو نواز شریف کا انتخاب آپ نے کیا ‘ یہ ٹھیک شخص کا انتخاب نہیں تھا ۔ جنرل صاحب نے کہا :ہم نے سوچا تھا کہ بھولا بھالا آدمی ہے ۔...یہ تھی ان کی وجہ ٔ انتخاب ۔
ایک بھولا بھالا آدمی جب سیاسی طاقت حاصل کر لیتا ہے‘ تو وہ اپنے آقائوں کی سننے سے انکار کر دیتاہے۔ یہ طاقت کی نفسیات ہیں ۔ اس کے باوجود ہمیشہ وہ آرمی چیف سے وفاداری اور سیاسی مشکلات میں امداد کی توقع رکھا کرتے تھے ۔ان کی یہ خواہش تھی کہ پنامہ لیکس کے پس منظر میں تمام قومی ادارے اپنا وزن ان کے پلڑے میں ڈالے ‘ تاکہ ان کا احتساب نہ ہو سکے ۔
نواز شریف کی اصل قوت یہ تھی کہ وہ ضیاء الحق کے سیاسی جانشین تھے ‘جو قوتیں جینئس‘ لیکن منتقم بھٹو سے نفرت کرتی تھیں ‘ وہ ضیاء الحق کی چھتری تلے‘ ان کے چُنے ہوئے نواز شریف کے گرد اکھٹی ہو گئیں ۔ ایک دوست پوچھنے لگا کہ کیا نواز شریف صاحب کی اصل خوبی یہ تھی کہ وہ بہت بڑے صنعتکار تھے ؟ میں نے بتایا کہ وہ صنعت کار بھی کہا ں تھے ‘یہ توان کے والد کی محنت تھی ‘ وہ تو اتفاق فائونڈری پر قرض لے کر واپس نہ کر سکے ۔ ادارہ ڈوب گیا ۔ سترہ سال بعد فروخت ہوا‘ تو بمشکل قرض ادا ہوا۔ دبئی‘ جدہ ‘ برطانیہ ‘ جہاں جہاں انہوں نے کاروبار کیا‘ وہاں سے کسی ایک بینک کی بینک سٹیٹمنٹ لا کر سپریم کورٹ میں دے نہ سکے کہ ہم بہت بڑی سطح پر کاروبار کر رہے تھے اور یہ تھا‘ ہمارا ذریعہ ٔ آمدن ۔
ہاں البتہ نواز شریف صاحب میں ایک خوبی واقعی موجود تھی ‘ جس کے بل پر وہ بار بار حکومت میں آئے۔ وہ ان لوگوں کی بخوبی شناخت کر لیتے تھے‘ جو طاقت‘ رشوت‘ دھونس‘ ہر حربہ استعمال کر کے اپنے حلقے کا الیکشن جیت سکیں ۔ ان سب کو اپنی پارٹی میں شامل کر لیتے ۔ انہوں نے پولیس‘ افسر شاہی اورپٹوار کو استعمال کرنا سیکھ لیا تھا۔ اب آخری دورِ حکومت میں تو نواز شریف اس قدر غیر حاضر دماغ ہو چکے تھے کہ کاغذ سے دیکھے بغیر ایک لفظ بول نہیں سکتے تھے ۔ ایک دفعہ چین میں چینی لیڈروں کے سامنے بیٹھ کر انہوں نے کہا Pak China friendship is sweeter than۔پھرشہباز شریف صاحب کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھنے لگے ۔ شہباز شریف نے کہا Honey۔ پھر دوسری دفعہ اس دوستی کی بلندی بتانے لگے‘ تو انہیں ہمالیہ کا نام بھول گیا ۔ پھر شہباز شریف صاحب نے لقمہ دیا ۔ صدر اوبامہ کے سامنے بیٹھ کر وہ پرچی سے دیکھ کر اٹک اٹک کر الفاظ ادا کرتے۔ صدر اوبامہ افسوس بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھ رہے ہوتے ۔
آخری بار نواز شریف دو عشرے قبل ضیاء الحق کی قبر پر گئے تھے ۔جب سے ضیاء الحق کو گالی دینا اور اسے پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ قرار دینا فیشن ہوا ‘ انہوں نے اپنے سیاسی آقا کا ذکر کرنا بھی چھوڑ دیا ۔ چند برس قبل جن دنوں یمن میں سعودی جنگ شروع ہونے والی تھی اور سعودی عرب والے پاکستان سے فوجی امداد چاہتے تھے‘ ایک دن میرے والد کی ہوائی اڈے پر حسین نواز سے اتفاقیہ ملاقات ہوئی ۔ حسین نواز نے سعودی شاہی خاندان کے خلاف ایسی گفتگو کی کہ سننے والے دنگ رہ گئے ۔ یہ سعودی شاہی خاندان تھا‘ جس نے انہیں مشرف کی قید سے آزاد کرایا ۔ سالہا سال تک ان کی مہمان نوازی کی ۔ وہ سلوک کیا‘ جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے کرتاہے ۔
نواز شریف صاحب کے اندر ایک خوبی اور بھی موجود تھی اور وہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کے جذباتی ابال سے بخوبی کھیل لیتے تھے ۔ ''شیر ‘ اک واری فیرر‘‘ ان کے گھر میں بھس بھرے شیر نصب کیے گئے تھے ۔ ان کے جلسوں میں شیر ( درحقیقت ٹائیگر ) لائے جاتے ۔
نواز شریف صاحب کبھی بھی دبائو برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کے مقابلے میں بے نظیر اور مریم نواز جیسی خواتین سیاستدان بہت زیادہ دبائو سہنے کی صلاحیت رکھتی تھیں ۔مریم نواز نہ ہوتیں‘ تو وہ پاکستان واپس ہی نہ آتے ۔ یہ جو بار بار نواز شریف صاحب کو طبیعت خراب ہونے پر ہسپتال لے جایا جا رہا ہے ‘ یہ کوئی ڈھونگ نہیں ہے ۔وہ اٹھارہ سال پہلے مشرف کی جیل نہیں کاٹ سکے تھے ۔ آج تو وہ عمر رسیدہ ہیں ‘ پھر دو ریفرنسز میں سزا باقی ہے۔ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ جیل میں انہیں کچھ ہو نہ جائے ۔ اس لیے کہ شدید ذہنی دبائو گردے‘ دل‘ دماغ سمیت ہر عضو کو بھرپور نقصان پہنچا سکتاہے ۔ انتہائی بلڈ پریشر اور شوگر لیول خطرناک سطح پر پہنچنے سے جسم کوئی بھی اہم عضو ناکارہ ہو سکتاہے ۔ زیادہ بلڈ پریشر تو دماغ کی رگیں پھاڑ سکتاہے ۔ اس مسئلے کا کوئی حل نکالنا ہوگا ‘ورنہ اس جذباتی قوم نے تین چار دہائیاں ایک نئے سیاسی بت کی پوجا میں گزار دینی ہیں ۔
نواز شریف کا مستقبل یہ ہے کہ انہوں نے برطانیہ میں گمنامی کی زندگی گزارنی ہے ۔