"FBC" (space) message & send to 7575

لکھنے والا کیا لکھے… ؟

زیادہ تر لکھنے والے سیاست پہ کیوں لکھتے ہیں ؟ اس لیے کہ ایک عام شخص کوسیاست میں دلچسپی ہوتی ہے ۔بڑے بوڑھوں سے لے کر ٹین ایجرز تک ‘ ہر شخص یہ جاننا چاہتا ہے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے ۔ وطن کی محبت کو انسانی فطرت کا کبھی الگ نہ ہونے والا جزو بنا دیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سادہ لوح مائیں ‘ جن کی تمام تر مصروفیات اپنے کچن اور اپنے گھر تک محدود ہوتی ہیں ‘ وہ بھی سیاسی صورتِ حال پر تبادلہ ٔ خیال کرتی پائی جاتی ہیں ۔ میرا ایک دوست ہے ‘ جس کے والد عمران خان کے حامی ہیں اور بیٹا نون لیگ کا ۔ باپ بیٹے میں اکثر بحث ہوتی رہتی ہے ۔ ایک اور دوست ہے۔ یہ سب گھر والے عمران خان کے سپورٹر ہیں اور ان کے والد نواز شریف کے حامی ہیں ۔ الیکشن ہوئے کافی وقت ہو چکا‘ لیکن گھر والوں کی طرف سے عمران خان کو ووٹ دیے جانے پر تلخی اب تک ختم نہیں ہوئی۔ سیاسی بحثیں‘ جن کامآخذ وطن کی محبت ہوتی ہے ‘ بہت تلخ ہوجاتی ہیں ۔ سالا بہنوئی‘ سسر داماداور ساس بہو ‘جیسے حساس رشتے بھی ان سے متاثر ہوتے ہیں ۔ ایک جگہ کام کرنے والوں میں رنجشیں پیدا ہوتی ہیں ۔ 
جب بھی کوئی رنجش پیدا ہوتی ہے‘ تو ابتدا میں وہ کسی چیز پر متضاد موقف کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔ بعد میں سرِ عام اپنے موقف پر قائم ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف اپنی طاقتور انا اور ضد انسان کو اپنی غلطی تسلیم کرنے سے روک لیتی ہے ۔ خیر سیاست عام دلچسپی کا سب سے اہم موضوع ہے ۔ ہر انسان کسی نہ کسی سیاسی لیڈر یا کسی نہ کسی سیاسی جماعت کو ملکی مسائل کے حل کے لیے ایک نجات دہندہ کے طور پر دیکھتاہے ۔ وہ اس کے برسرِ اقتدار آنے کی خواہش کرتا ہے۔ سرِ عام اس خواہش کا وہ اظہار کرتاہے ۔ دوسروں سے بحث کرتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اخبارات اور ٹی وی چینلز فروغ پاتے ہیں ۔ سیاست پر انسان لکھ سکتاہے ؛بشرطیکہ جو وہ لکھ رہا ہے ‘ وہ شائع بھی ہوسکے ۔ اگر تو الفاظ بدل کے جملوں کے کس بل نکال دیے جائیں‘ تو پھر سیاسی کالم لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ 
لکھنے والا مزاح نگار بن سکتاہے ۔ سب سے اہم اور عام دلچسپی کا موضوع مذہب ہے ۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ مذہب پر لکھنے والے کئی حضرات بوریت پھیلاتے ہیں ۔انسانی ذہن کا ایک رجحان ہے کہ وہ ایک جیسے جملے بار بار نہیں سن سکتا۔ اس پر بوریت کا حملہ ہوتاہے ‘ جبکہ لوگوں کو خدا کی طرف بلانا ایک پوری سائنس ہے ‘ جس کے لیے بلانے والے کو بھی صاحبِ علم ہونا چاہیے ۔ میرا آپ سے ایک سوال ہے کہ کششِ ثقل اور سورجوں میں فیوژن کا عمل پیدا کرنے والا‘ 92عناصر سے پوری کائنات تخلیق کرنے والا ‘ہائیڈروجن اور آکسیجن جیسی جلتی اور بھڑکتی ہوئی چیزوں کو ملا کر پانی تخلیق کرنے والے رب کی طرف کیا ‘انہی چند گھسے پٹے الفاظ سے بلایا جائے؟ وعظ کرنے والوں سے کئی دفعہ واسطہ پڑا ‘ ان کا کل موقف یہ ہوتاہے : ہمیں خدا نے پیدا کیا‘ لیکن ہم اس کی عبادت نہیں کرتے‘ جبکہ جانا قبر میں ہی ہے ۔اس لیے ہمارے ساتھ چلو ‘جبکہ کوئی خدا کا تعارف نہیں کراتا۔ ایک دفعہ انسان کو معلوم ہوجائے کہ خدا ہے کیا‘ اس کی ذرا سی شناخت ہو جائے ‘تو پھر کون ہے کہ جو خوبصورتی‘ علم اور عقل کے اس اصل مآخذ کو چھوڑ کر دوسری طرف متوجہ ہو سکے ۔ 
مجھے سب سے زیادہ حیرت ان لوگوںپر ہوتی ہے ‘ جن کی فرمائش یہ ہوتی ہے کہ مذہب میں سائنس کو بالکل بھی نہ گھسنے دیا جائے ‘ جبکہ مذہب درحقیقت ہے کیا؟ مذہب خدا کی طرف سے ہدایات کا مجموعہ ہے کہ ایسے زندگی گزارو اور ایسے نہ گزارو۔ یہ ہدایت وہی دے رہا ہے ‘ جس نے کششِ ثقل تخلیق کی ۔ سورج بنایا اور یہ خدا فرما رہا ہے کہ زمین اور آسمان ملے ہوئے تھے اور ہم نے انہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔وہ فرماتاہے کہ ایک دن سورج اور چاند یکجا کر دیے جائیں گے ۔ سورج گہنا جائے گا۔ زمین پر موجود پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑا دیے جائیں گے ۔ زمین اپنے اندرکے بوجھ نکال پھینکے گی ۔ اور سورۃ دہر میں وہ فرماتاہے کہ ایک طویل عرصے تک انسان کوئی قابلِ ذکر شے ہی نہ تھا۔ اور یہ خدا مطالبہ کرتاہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں غور کرو ۔ جب بندہ یہ سب کچھ دیکھتاہے اور پھر جب ان لوگوں کو دیکھتا ہے‘ تو صاف نظر آتاہے کہ خدا کوتو کوئی ڈر نہیں ۔وہ تو اپنی کتاب میں جہاں چاہتاہے ‘ ایک بہت بڑی سائنسی سٹیٹمنٹ دے دیتاہے ۔ ڈر اُن لوگوں کے اپنے ذہنوں میں ہے ۔ بالکل یہی ڈر اُن لوگوں کے ذہن میں تھا‘ جنہوں نے یہ سمجھا کہ نظریہ ٔ ارتقا کو ماننے کا مطلب خدا کا انکار ہے ۔ وہ اس نظریے کو رد کرتے رہے ۔ انہوں نے فاسلز کی سائنس نہیں پڑھی ۔انہوں نے جینز اور ڈی این اے کو پڑھنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے ڈائنا سارز کو مان لیا ‘ نی اینڈرتھل مین کو نہیں مانا۔ جو لوگ پڑھنا چاہتے ہیں ‘ وہ میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ آف ایولوشنری اینتھروپالوجی کی طرف سے ڈی کوڈ کیے گئے نی اینڈرتھل کے ڈین این اے کو پڑھیں ۔ سورۃ الاعراف آیت 189: وہی ہے ‘ جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا ‘ تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے ۔ اب آدم علیہ السلام سے تخلیق فرمانا ‘حوا علیہ السلام کا ‘ کیا یہ اس آیت میں ساری کہانی اللہ نے بیان نہیں کر دی ؟ 
زمین و آسمان کی تخلیق پر لکھا جا سکتاہے ‘ جسے پڑھنے والے کم ہوتے ہیں‘ لیکن کسی کی عقل کو خدا کی طرف موڑنا ایک بہت بڑا کارِ ثواب ہے ۔ تخلیقات پر لکھنے والی یہ چیزیں انسانی عقل اور انسانی دماغ میں موجود ذہانت اور تجسس کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ذہانت‘ تجسس‘ عقل کے ساتھ ساتھ جذبات بھی کم اہمیت کے حامل نہیں ۔ انسان اور سب جانداروں کی پوری کی پوری زندگی ہی جذبات پہ منحصر ہے۔ مائیں‘ اگر نوزائیدہ بچوں سے محبت نہ کریں‘ توسیارہ ٔ ارض سے زندگی ختم ہو جائے۔ یہ سب محبتیں جذبات سے پھوٹتی ہیں ۔ ویسے یہ افسانے لکھنے میں کافی محنت کرنا پڑتی ہے۔ سب سے زیادہ دقت جگہ کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ تیرہ چودہ سو الفاظ میں ساری کہانی بیان کرنا اور اسے کلائمیکس تک لے کر جانا بہت مشکل ہے ۔ ایسے ایک ایک افسانے پر پورا ناول اور پوری فلم بنائی جا سکتی ہے ۔ اکثرفلموں کا مرکزی خیال ایسے ہی کسی ایک نکتے کے گرد گھومتا ہے اور ان کی کہانی بہت مختصر ہوتی ہے ۔ اگر بندہ ناول لکھے اورجگہ کی کمی کا مسئلہ نہ ہو تو شاندار چیزیں لکھی جا سکتی ہیں ۔ ویسے ان افسانوں کو ہر عمر کے لوگ پڑھتے ہیں ۔ان افسانوں کو بہت بوڑھے لوگ بھی پڑھتے ہیں ۔عبدالصبور صاحب کی/90 95سالہ والدہ بھی میرے کالم پڑھتی ہیں ‘ یہ جان کر مجھے دلی مسرت ہوئی۔ 
لکھنے کو بندہ بہت کچھ لکھ سکتاہے ۔ میں بہت سے uniqueآئیڈیاز اپنے پاس نوٹ کرتا رہتا ہوں ‘ جن پر مستقبل میں لکھنے کا ارادہ ہے ۔ اللہ کے فضل و کرم سے میری پٹاری میں بہت کچھ ہے ‘ جن پر آنے والے مہینوں میں لکھنے کا ارادہ ہے ۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں