"FBC" (space) message & send to 7575

حیرت والی باتیں

دنیا میں انسان کو بہت سی حیرت انگیز چیزوں سے واسطہ پڑتاہے‘ لیکن یہ چیزیں روزانہ کی بنیاد پر ہمارے سامنے وقوع پذیر ہور ہی ہوتی ہیں ۔ اس لیے ہمیں ان پر کوئی حیرت نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ ایک مادہ کا حاملہ ہونا اور اولاد پیدا کرنا۔ سائنسدانوں کے لیے یہ بات بہت حیرت انگیز ہے ۔ بچہ دانی میں نر اور مادہ خلیات کا ملنا‘ ایک خلیے کا بڑھتے بڑھتے اربوں خلیات میں بدلنا ‘پھر ایک جیسے خلیات (Stem Cells)سے مختلف اعضا کے مخصوص خلیات کا پیدا ہونا ‘ جو لوگ ان چیزوں کو گہرائی میں جانتے ہیں ‘ انہیں ان پر ہمیشہ حیرت رہتی ہے ۔
بات کرنے اور سننے کی سماعت حیرتوں کے انہی عجوبوں میں سے ایک ہیں ۔ ایک لمحے کے لیے آپ ذرا سوچیں کہ بول کر کوئی بات کرنا کیا ہے ؟ اس دوران کیا ہوتاہے۔ انسان دماغ میں speech center اپنی زبان‘ اپنے آلہ ٔ صوت ‘کو حرکت میں لاتے ہوئے ‘ اپنی زبان کے مسلز کو حرکت دیتے ہوئے لہروں کی صورت میں ایک آواز پیدا کرتاہے ۔ یہ آواز لہروں کی صورت میں سامنے موجود شخص کے کانوں میں سے مخصوص تاروں (Nerves)میں کرنٹ کی صورت میں دماغ تک جاتی ہے ۔ دماغ اس کی interpretationکرتاہے‘ وہ سمجھ جاتاہے کہ سامنے موجود شخص نے کیا کہا ہے ۔ یہ سب کچھ ہمارے سامنے روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں اربوں دفعہ وقوع پذیر ہوتاہے ۔ہمیں اس پر حیرت نہیں ہوتی ‘لیکن اگر آپ اس پر دوبارہ غور کریں‘ تو آپ کو بے حد حیرانی ہوگی۔ ایک شخص کے ذہن میں کیا ہے ‘ وہ ہوا کے ذریعے دوسرے شخص تک منتقل ہو جاتاہے ۔ یہ ناقابلِ یقین ہے ۔ This is simply unbelievable ‘اگر ہوا نہ ہوتی‘ تو یہ لہریں اور یہ آواز سامنے موجود شخص تک منتقل نہ ہو سکتی ۔ ہم اس ہوا کو for grantedلیتے ہیں ؛ حالانکہ یہ دوسرے سیاروں پر اس فراوانی کے ساتھ موجود نہیں ۔ 
ایک شخص ‘ ایک جاندار اپنے دماغ میں موجود اشیا کے نام ہی نہیں‘ بلکہ اپنی کیفیت اور اپنا نظریہ تک دوسروں کو آواز کی لہروں کی صورت میں سمجھا دیتاہے ۔ اس دوران وہ گرائمر تک کا خیال رکھتاہے ۔ روزانہ ان گنت دفعہ وقوع پذیر ہونے کی وجہ سے یہ بات ہمیں عجیب نہیں لگتی ‘لیکن درحقیقت ایک انتہائی حیرت انگیز چیز ہے ۔ 
جانوروں میں اس طرح کی زبان تو نہیں ہوتی‘ لیکن وہ بھی اپنے جذبات اپنی آواز اور باڈی لینگوئج کے ذریعے دوسرے کو واضح طور پر بتا دیتے ہیں ۔جانورو ں کے ایک گروہ میں ہر جانور کا ایک رینک ہوتا ہے ۔ اس کے مطابق اسے ٹریٹ کیا جاتاہے ۔ اکثر اوقات ان میں ایک الفا میل اور ایک الفا فی میل ہوتے ہیں ‘ جو کہ گروہ کے سردار مانے جاتے ہیں ۔ باقی سب جانور ان کے سامنے اپنی دم اور اپنا سر نیچا رکھتے ہیں ۔ ذرا کسی نے بدتمیزی کی کوشش کی‘ ادھر موقعے پر ہی اس کی ٹھکائی کر دی جائے گی ‘ اگر تو کوئی خود کو سردار سے زیادہ طاقتور سمجھ رہا ہے‘ تو فورا ً ہی اس کی یہ غلط فہمی رفع کر دی جاتی ہے اور زندگی بھر کے لیے اسے سبق بھی سکھا دیا جاتاہے ۔ ان لڑائیوں میں دانت ٹوٹ جاتے ہیں ‘ زخم لگتے ہیں اور بعد میں بگڑ جاتے ہیں ‘ موت ہو سکتی ہے ۔life longمعذوری ہو سکتی ہے ۔اس لیے کوئی بھی اپنے سے زیادہ طاقتور اور چست جانور سے لڑنے کی جرأت نہیں کرتا ۔
ویسے جانور بھی باتیں کرتے ہیں ‘لیکن ہمارے اور ان کے درمیان کچھ پردے حائل کر دیے گئے ہیں ۔ ہم انہیں ایسا کرتے ہوئے دیکھ نہیں سکتے ۔انسان کا99فیصد جسم ہائیڈروجن‘ آکسیجن‘ نائٹروجن ‘ کیلشیم‘ فاسفورس اور کاربن سے بنا ہے ۔ اب اگر کوئی کہے کہ انسان کے جسم کی کاربن اور ہائیڈروجن تو اتنی عقل رکھتی ہیں کہ بات چیت کر سکیں‘ لیکن جانوروں کے اجسام میں استعمال ہونے والی یہی کاربن اور ہائیڈروجن اتنی عقل نہیں رکھتی تو یہ بات منطق کے خلاف ہے ۔ 
تحریری زبان اس سے بھی زیادہ حیرت کی چیز ہے ۔ انسان کاغذ/ریت یا کسی بھی چیز پرایسے نشان بنا دیتاہے ‘ جس سے دیکھنے والے کو اس کے ذہن میں موجود خیالات کی سمجھ آجاتی ہے ۔ دنیا کے ہر خطے میں ‘ ہرانسانی گروہ نے یہ تحریری زبان تشکیل دی ہے ۔ ساری دنیا میں موجود انسان ایک دوسرے کو اپنے نظریات ‘ خیالات ‘ عجیب اور حیرت انگیز چیزوں سے آگاہ کر رہے ہیں ۔ اخبارات وجود میں آئے ہیں ‘ کتابیں ‘ پریس اور انٹرنیٹ تشکیل پایا ہے ۔کیا یہ ایک انتہائی عجیب بات نہیں کہ میں اپنے نظریات بیان کر رہا ہوں اور آپ لوگ انہیں پڑھ کر میری بات سمجھ رہے ہیں ؟ 
سائنسدان تو بہت حیران ہوتے ہیں ۔ جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کائنات ‘ سورج اور زمین پر92عناصر میں سے کچھ آپس میں مل کر زندگی /زندہ چیز کی صورت اختیار کر لیتے ہیں ۔سائنسدان بیچارے پکار اٹھتے ہیں کہ اگر کائنات زندگی پیدا کر سکتی ہے‘ تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہے ۔ یہاں ''خدا‘‘ کی جگہ وہ''کائنات‘‘ کا لفظ اس لیے استعمال کرتے ہیں کہ مغرب میں خدا پرست ہونا شرمندگی کی بات سمجھی جاتی ہے ۔ ان کے مولوی ہمارے اس ملّا سے بھی زیادہ جاہل تھے‘ جس پر اقبالؔ نے تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ ان بیچاروں کی الہامی کتابیں ہی اپنی اصل حالت میں موجود نہیں ۔تحریف شدہ کتب غلطیوں سے بھرپور ہیں۔ مشرق کے ملّا کی جہالت اپنی جگہ ‘لیکن ہمارے پاس خدا کا مستند کلام بغیر کسی غلطی کے موجود ہے اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ۔ 
ہم جب جانداروں کو بولتے اور سنتے ہوئے دیکھتے ہیں تو پھر ایک بہت بڑے منصوبہ ساز کا وجود سمجھ میں آنے لگتاہے ۔ اس لیے کہ 92عناصر میں سے کچھ نے اگر اتفاقاًمل کر زندگی پیدا کر دی تو پھر اس میں اس قدر ترتیب کہاں سے آئی ؟آپ اپنے سر سے لے کر پائوں تک غور کریں ۔ کوئی اضافی چیز نہیں ملے گی ۔ جسم میں نروز کے جال بچھے ہوئے ہیں اور خون کی نالیوں کے بھی ۔دماغ‘ جگر‘ دل ‘ گردے ‘ ہڈیاں ‘ immune system ٹانگیں ‘ جلد ۔ یہ سب چیزیں وہ ہیں کہ انسان انہیں دیکھتا جائے اور اس عظیم منصوبہ ساز کی محبت میں گم ہوتا جائے ۔
اسی طرح حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی انسان اکھٹے ہوتے ہیں ‘ وہ تصورِ خدا کے بارے میں بات کرنے لگتے ہیں ‘ جسے ان میں سے کسی نے دیکھا نہیں‘ لیکن جس کی نشانیاں ہر کہیں موجود ہیں ۔ یہ عظیم منصوبہ ساز فرماتاہے کہ جسے میں ہدایت دوں ‘ اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے میں گمراہ کر دوں ‘ اس کے لیے کوئی ہدایت نہیں ۔ بڑے بڑے سائنسدان ‘ بڑے بڑے دماغ اپنے جسم کے اندر اور کائنات میں سب نشانیاں دیکھنے کے باوجود خدا کا انکار کرتے ہیں ۔اس لیے کہ یہ خدا اس کی آزادیوں میں روڑے اٹکاتا ہے ۔ وہ کہتاہے : حلال کھائو‘ لباس پہنو‘ جھوٹ مت بولو‘ ہم جنس پرستی مت اختیار کرو۔ تو اگر انسان اس خدا پر ایمان لے آئے‘ تو اسے بے شمار پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ خدا تو اسے اپنی سوچ میں بھی محتاط ہونے کا حکم دیتاہے ۔ بدگمانی تک سے بچنے کا حکم دیتاہے ۔ نظریں نیچی کرنے کا حکم دیتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ آپ خدا کا انکار کرنے والوں کی اکثریت کو کوئی علمی اعتراض کرتے ہوئے نہیں دیکھیں گے بلکہ زندگی کی محرومیوں‘ صدمات اور انسانی آزادیوں کا ماتم کرتے ہی دیکھیں گے ۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں