"FBC" (space) message & send to 7575

آگ اور پانی

تخلیق کرنے والے نے کیا کچھ تخلیق کر دیا ۔ عقل دیکھتی رہتی ہے ‘ حیران ہوتی رہتی ہے ۔آگ اور پانی ہی کو دیکھ لیجیے ۔ آگ زندگی کو جلا کر خاک کر دیتی ہے‘ لیکن آگ ہی زندگی کو زندہ رکھتی ہے ۔سورج میںجو آگ ہے ‘ وہ آگ نہیں‘ بلکہ سب آگوں کی ماں ہے ۔ یہ ماں آگ ہمیں زندہ رہنے کے لیے درکار حرارت بخشتی ہے ۔ اسی کی روشنی سے پودے اپنی خوراک پیدا کرتے ہیں ۔ سب جانداروں کے لیے آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ ہم ان پودوں کو کھاتے ہیں ‘ ان پودوں کو کھانے والوں کو کھاتے ہیں ۔ یوں سورج کی یہ آگ ان گنت انداز میں زمین کی زندگی کو زندہ رکھتی ہے ۔ 
اس کے بعد نمبر آتاہے پانی کا۔ یہ پانی اس قدر زیادہ ہے ‘ اس قدر زیادہ کہ زمین کا دو تہائی حصہ اس پانی سے ڈھکا ہوا ہے ۔ یہ پانی زندگی کے لیے اس قدر اہم ہے کہ خدا فرماتاہے : اور ہم نے پانی سے ہر زندہ شے پیدا کی ۔ یہ پانی ہمارے اندر اور باہر ہے ۔ ہماری نسوں میں ہے ۔ ہمارے خون میں ہے ۔ ہمارے خلیات میں ہے ۔ہمارے اعضا میں ہے ۔ ہماری جلد ہے میں ہے ۔ ہماری آنتوں میں ہے ۔زمین کا دو تہائی حصہ اس پانی سے ڈھکا ہوا ہے ۔ یہ پانی زمین کے نیچے موجود ہے ۔ یہ پانی زمین کے اوپر بادلوں میں موجود ہے ۔ یہ پانی زمین کی سطح پہ موجود ہے ۔ سائنسدان جب بھی اس بے کراں کائنات میں زندگی ڈھونڈنے نکلتے ہیں ‘ وہ سب سے پہلے کسی بھی سیارے پر پانی ہی کو کھوجتے ہیں ۔ انہیں یقین ہے کہ جہاں پانی ہوگا‘ وہاں زندگی بھی ضرور ہوگی ۔ 
زمین کے پانی پر جنگیں ہوتی رہی ہیں ۔ قبائل پانی والی سرزمینوں کے لیے آپس میں جھگڑتے رہے ہیں ۔ پاکستان اور بھارت میں پانی کا تنازع بہت مشکل سے سلجھا تھا۔اب ایک بار پھر یہ سر اٹھا رہا ہے ۔یزید خصلت دشمن ہمیں پیاسا مارنا چاہتاہے ۔ 
اوپر سے آگ برساتا‘ پودے اگاتا ہوا سورج ‘ زمین پانی سے لبالب بھری ہوئی اور قریب ہی ایک بڑا چاندجو کہ زمین کے پانی کو حرکت دیتا رہتا ہے ۔ سبحان تیری قدرت‘ سبحان تیری قدرت!
ایک آگ ہمارے جسموں کے اندر جل رہی ہے ۔ ہمارے معدوں میں ‘ تیزاب اگلتے ہوئے خلیات ۔ اگر یہ تیزاب نہ ہوتا تو خوراک کیسے ہضم ہوتی ۔ خدا کے مقدس ہاتھ نے کس طرح ہمارے جسموں میں بہتے ہوئے پانی (خون ) کے پاس ہی تیزاب کی یہ آگ بھڑکا دی ہے ۔ نہ ہی تو پانی اس آگ کو بجھاتا ہے اور نہ آگ اس پانی کو ختم کر پاتی ہے ۔
ایک آگ ہماری گاڑی کے انجن کے اندر دہکتی ہے ۔ جب ایندھن کو جلایا جاتاہے اور پیدا شدہ توانائی سے ہماری سواری بھاگتی ہے ۔ ہم اب صرف جانوروں پہ سواری کے محتاج نہیں رہے ۔ 
ایک آگ زمین کے نیچے ہے ۔ ذرا سی گہرائی میں اتریں درجہ ء حرارت بڑھ جاتا ہے ۔ اس سے نیچے جائیں تو آگ کے دریا بہہ رہے ہیں ۔ پگھلے ہوا لاوا‘ پگھلی ہوئی چٹانیں ‘ پگھلا ہوا لوہا اور اس پگھلے ہوئے لوہے سے پیدا ہونے والا مقناطیسی میدان ‘ جو سورج کی آگ سے پید اہونے والی خطرناک شعاعوں سے ہماری حفاظت کرتاہے ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو اکثر جاندار کینسر کا شکار ہو جاتے ۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ زمین کی سطح پہ پانی بہہ رہا ہے ۔ سطح سے ذرا نیچے پچاس سو فٹ پہ پانی اکھٹا ہے ۔ اس سے نیچے چلتے چلے جائیں تو پھر آگ ہے ۔ نہ ہی تو آگ پانی کو بھسم کرتی ہے اور نہ پانی اس آگ کو بجھا پاتا ہے ۔ عجیب رشتہ ہے اس آگ اور پانی میں ۔ 
روز ہم آگ پہ خوراک پکا کر کھاتے ہیں اور روز ہم پانی پیتے ہیں ۔خدا کی عنایت کردہ عقل نے کیا کرشمے کر دکھائے ہیں کہ انسان مختلف گیسز‘ آگ اور پانی کو استعمال کرتے ہوئے درجہ ٔ حرارت کو بڑھانے اور گھٹانے پہ قادر ہو گیا ہے ۔ گرمیوں میں گھٹاتا ہے ‘ سردیوں میں بڑھاتا ہے ۔ 
پہلے انسان نے جب آگ استعمال کرنی سیکھی ہوگی تو وہ کس قدر حیرت اورمسرت سے گزرا ہوگا ۔ بات ہی حیرت کی ہے کہ موسموں کے بدلنے کا انتظار کرنے کی بجائے انسان ایندھن میں موجود کاربن کو جلا کر چیزیں پکا لیتاہے ۔ یوں ان چیزوں کو ٹھنڈا اور گرم کر کے ان کی لذت میں اضافہ کیا جا سکتاہے ۔ سردیوں میں ٹھٹرنے اور گرمیوں میں جلنے سے انسان بچ جاتاہے ۔ 
اگر کبھی سائنسدان گہرائی میں غور کریں گے کہ زمین میں یہ کوئلہ‘ تیل‘ اورلوہا کس پیٹرن سے رکھا گیا ہے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ یہ انسانی ضروریات ‘ انہیں زمین کے اندر سے نکالنے کی انسانی استعداد کو مدنظر رکھ کر دفنائے گئے ہیں ۔ 
ان سب حیرتوں سے گزرنے کے بعد ‘ انسان جب بمشکل تمام نارمل ہونے لگتاہے تو ایک اور ناقابلِ یقین سچائی اس کی منتظر ہوتی ہے ۔ یہ کہ آگ اور پانی دراصل ایک ہیں ۔ وہ اس طرح کہ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مل کر بنا ہے ۔ ہائیڈروجن بھڑک کر جلنے والی گیس اور ایندھن ہے ۔ جب کہ آکسیجن جلنے میں مدد کرنے والی گیس ہے ۔ آپ زمین کے کسی بھی حصے سے ہائیڈروجن لے کر اسے صرف ایک تیلی دکھائیں ‘ پھر دیکھیں کیسے وہ دھماکے سے جل اٹھتی ہے اور جلتی چلی جاتی ہے ۔ آکسیجن جلنے میں اس قدر ضروری عنصر ہے کہ آگ بجھانے کے عمل کے دوران کوشش یہ ہوتی ہے کہ آگ تک آکسیجن کو نہ پہنچنے دیا جائے ۔ یوں یہ آگ خودبخود بجھ جاتی ہے ۔ 
یوں جب انسان غور کرتاہے کہ کس قدر نازک توازنوں پہ اس کی زندگی منحصر ہے تو وہ ششدر رہ جاتاہے ۔ ہم اور ہمارے جیسے کچھ جاندار تو پانی میں سانس نہیں لے سکتے ۔ کچھ گھنٹوں پانی کے نیچے رہتے ہوئے سانس روک سکتے ہیں ۔ کچھ میں ایک خاص عضو (Organ) کی صورت میں رکھا گیا ہے اور وہ پانی میں سانس لے سکتے ہیں ۔
سانس لینے میں ہوتا کیا ہے ‘ یہ بتانا تو میں بھول ہی گیا۔ آکسیجن ہماری سانس سے ‘ ہمارے پھیپھڑوں سے خون میں جاتی ہے ۔ خون سے یہ پورے جسم ‘ بشمول دماغ تک جاتی ہے ۔ دماغ کے اندر ہی آکسیجن جل کر توانائی پیدا کرتی ہے ۔ صرف چند سیکنڈ کا کھیل ہوتاہے ۔ صرف چند سیکنڈ خون اور خون کے ذریعے آکسیجن اور گلوکوز کی سپلائی معطل ہوئی۔ ادھر انسان فالج ‘ کومے اور موت کا شکار ہو گیا ۔ 
ان حیرتوں کے نتیجے میں لے دے کر آخر میں ایک ہی بات رہ جاتی ہے۔ وہی آکسیجن ہے ‘ وہی کاربن‘ وہی نائٹروجن ‘ ہائیڈروجن‘ کیلشیم اور فاسفورس ۔ جن سے ہمارے جسم میں بنے ہیں اور جن سے باقی سب جاندار بنے ہیں ۔ فرق صرف اتنا سا تھا کہ ہماری آکسیجن کو عقل دے دی گئی اور حکم دیا گیا کہ اب ڈھونڈو ہماری نشانیاں اور لے آئو ایمان ہم پر اور اطاعت کرو ہمارے پیغمبرؐ کی ۔ انسان نے چیلنج قبول کر لیا اور اب مصیبت میں پڑا ہوا ہے ۔ باقی سب نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی اورگوشہ ء عافیت میں پڑے رہے ۔ 
لیکن پھر بھی جب انسان اس آخری حد تک خوبصورت ذات (خدا) کو دیکھتاہے ‘ جس کے وجود سے علم کے سرچشمے پھوٹ رہے ہیں تو عقل کے بدلے احتساب کے اس خوفناک عمل کو بھی مسکرا کر خوشی سے قبول کر لیتا ہے اور پکار اٹھتا ہے سبحان تیری قدرت‘ سبحان تیری قدرت!

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں