"FBC" (space) message & send to 7575

اختیار

اس دنیا کو جب آپ پڑھتے ہیں ‘ studyکرتے ہیں ‘تو بہت سی حیرت والی باتیں انسان کو نظر آتی ہیں ۔ انسانی دماغ میں اللہ نے بے تحاشا تجسس رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے پورے کرہ ٔ ارض کا چپہ چپہ کھنگال ڈالا ہے ۔ اوپر خلا میں زمین کے مدار تک وہ پہنچ گیا ہے۔ وہاں زمین کے گرد گردش کرنے والی دوربینیں اس نے چھوڑ دی ہیں ۔ ان دوربینوں میں planet Earthپہ موجود ایسے عدسے اس نے ڈھونڈ کر لگائے ہیں ‘ جو ہمیں دور دراز کے مناظر دکھاتے رہتے ہیں ۔ انسان دیکھتا رہتاہے۔ جب اسے کوئی نئی چیز معلوم ہوتی ہے تو وہ خوش ہو جاتا ہے ۔ کوئی نئی چیز جان لینے میں ایک بہت بڑی مسرت پوشیدہ ہوتی ہے ۔انسان جان چکا کہ سورج میں کیا ہو رہا ہے ۔ روشنی کیسے پیدا ہو رہی ہے ۔ فیوژن کا عمل کیا ہے ۔ چاند میں کوئی فیوژن نہیں ہو رہا ۔ وہ اپنی چاندنی سورج سے مستعار لیتا ہے ۔ ہم آسمان پہ جتنے بھی ستارے دیکھتے ہیں ‘ وہ سب اپنی اپنی جگہ مکمل سورج ہیں ۔ صرف فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمیں وہ چھوٹے نظر آتے ہیں ۔ ان ستاروں کے گرد بھی اسی طرح سیارے گردش کرتے ہیں ‘ جس طرح ہماری زمین ہمارے اپنے سورج کے گرد گھوم رہی ہے ۔ ہمارا سورج ہماری زمین پر توانائی اور روشنی کا منبع و ماخذ ہے ۔ ستاروں میں سے کچھ بہت بڑے ہیں ۔ اتنے بڑے کہ ہمارا سورج ان کے مقابل ایک نقطے سے بھی چھوٹا ہو جاتاہے لیکن ان سب چیزوں سے زیادہ عجیب وغریب شے کچھ اور ہے ۔ 
دنیا میں موجود حیرت انگیز چیزوں میں شاید سب سے زیادہ حیرت ناک شے یا حقیقت کیا ہے ؟ یہ شے ‘ یہ phenomenon ہے اختیار ۔ نیکی اور بدی میں سے ‘ گناہ اور ثواب میں سے ‘ صحیح اور غلط راہ میں سے ایک کے انتخاب کا اختیار ۔کائنات میں جو کچھ ہمیں نظر آتاہے ‘ چاہے وہ سورج ہو‘ چاند ہو‘ زمین ہو‘ مٹی‘ پانی‘ انسان ‘ جاندار‘ بے جان ‘ پتھر ‘ کوئلہ‘ تیل ‘ گیس‘ ہاتھی‘ شیر ‘ عورت‘ مرد‘ پھول ‘ لکڑی‘ لوہا‘ یہ سب 92عناصر سے مل کر بنے ہیں ۔ ہر چیز میں ان 92عناصر میں سے ایک یا دو یا تین یا چار یا دس یا پندرہ عناصر استعمال ہوئے ہیں ۔ آپ انسان کی مثال لیں ۔ 99.9فیصد انسانی جسم صرف چھ عناصر ہائیڈروجن‘ نائٹروجن‘ کاربن‘ کیلشیم‘ فاسفورس اور آکسیجن سے بنا ہے ۔ انسانی جسم میں بہت معمولی سی مقدار میں لوہا اورزنک جیسے عناصر بھی استعمال ہوئے ہیں۔ یہ لوہا ہمارے خون میں ہے ۔ اگر جسم میں خون کی کمی ہو جائے تو ڈاکٹر ٹیسٹس کا رزلٹ دیکھ کر بتاتا ہے کہ بھائی صاحب!آپ کے جسم میں آئرن کم ہو گیا ہے ۔ آپ کو فلاں چیز اور فلاں دوا کھانی پڑے گی ۔ اسی طرح انگور سارا پانی ہے اور گلوکوز۔یہ پانی بنا ہے ہائیڈروجن اور آکسیجن سے ۔ انگور کی طرح انار بھی شوگر اور پانی ہے ۔ سبزیاں اور سلاد تقریباً مکمل طور پر پانی پہ مشتمل ہوتے ہیں ۔ لکڑی کاربن ہے ۔ تیل‘ کوئلہ‘ گیس بھی کاربن ہیں ۔ 
ان 92عناصر میں سے ہر ایک کی مخصوص خصوصیات ہیں ۔ لوہا مضبوط ہے ‘ بہت زیادہ درجہ ٔ حرارت سے پہلے پگھلتا نہیں ۔ اسی طرح ہائیڈروجن کا ایک مزاج ہے ۔ یہ بھڑک کر جل اٹھتی ہے ۔ اسی طرح آکسیجن ہے ۔ یہ جلنے میں مدد دیتی ہے اور یہ واقعتاً ہمارے دماغ میں ‘ ہمارے جسم میں جل کر توانائی پیدا کرتی ہے ۔ اسی طرح کاربن میں توانائی پوشیدہ ہوتی ہے ۔ آپ آکسیجن کی مدد سے اسے جلائیے اور اس سے توانائی پیدا کر کے بے شک اپنے گھروں کو گرم کیجیے یا کارخانوں میں مشینوں کو چلائیے یا آپ اسی کاربن کو جلا کر پیدا ہونے والی توانائی سے بجلی بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ تانبے (کاپر ) کی ایک خصوصیت ہے کہ یہ بجلی کو فوراً اپنے اندر سے گزار دیتی ہے ۔ ہمارے گھروں اور کارخانوں میں بجلی کی تاروں میں یہ کاپر استعمال ہوا ہے ۔ لکڑی کے ایٹم ایک دوسرے سے بہت دور ہوتے ہیں اور ان کے درمیان فاصلہ ہوتاہے ۔ اس میں سے بجلی نہیں گزر سکتی ۔ کوئلے‘ تیل اور گیس سے چلنے والے بجلی گھروں میں کاربن کو جلا کر توائی پیدا کی جاتی ہے ۔ لوہے کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ پانی سے فوراً تعامل کر کے زنگ پکڑ لیتی ہے ‘ اسی وجہ سے لوہے کو پینٹ کیا جاتاہے کہ یہ زنگ آلود نہ ہو ۔لوہا بہت مضبوط ہوتاہے‘ لیکن یہ وزنی بھی ہوتاہے ۔ یہ ہتھیار بنانے میں استعمال ہوتاہے ۔ایلو مینیم لوہے سے کئی گنا زیادہ مضبوط مگر ہلکی ہوتی ہے ۔ اسی لیے مہنگی بھی ہے ۔ سونے میں یہ خاصیت ہے کہ یہ بہت مضبوط ہے ۔ لوہے کے برعکس ‘ یہ پانی یا دوسرے عناصر سے تعامل نہیں کرتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے سالہا سال میں بھی کوئی زنگ نہیں لگتا ۔یہ بہت کم لیبارٹری کے تجربات میں استعمال کیاجاتاہے ۔ اس لیے کہ یہ دوسرے عناصر سے تعامل تو کرتا نہیں ۔ 
اسی طرح سے ہر عنصر کی اپنی خصوصیات ہیں ۔ پیٹرول جو کہ کاربن سے بنتا ہے ‘ اس کی خصوصیت سب کو پتہ ہے کہ وہ فوراً آگ پکڑ لیتا ہے ۔ آپ کسی بھی عنصر کو لے لیجیے ۔ آپ اس کی خصوصیات کو بدل نہیں سکتے۔آپ کاربن والے پیٹرول کو ایک ہزار سال تک سمجھاتے رہیں کہ آگ نہیں پکڑنی ۔ پھر بھی جیسے ہی اس قریب شعلہ پیدا ہوگا‘ وہ بھڑ کر جل اٹھے گا ۔ 
اب آجائیے کائنات کے سب سے عجیب وغریب phenomenon کی طرف‘ جو کہ انسانی عقل کو حیرت زدہ کر دیتاہے ۔ وہ phenomenonیہ ہے کہ خدا نے انسان کو 92عناصر میں سے کچھ سے بنایا ۔ صرف چھ عناصر سے اس کا 99.9فیصد جسم اور دماغ بنایا ۔ اب ان چھ عناصر میں سے ہر ایک کی اپنی مخصوص خصوصیات ہیں لیکن خدا نے ان میں لچک پیدا کی ۔ اختیار دے دیا ۔ خواہش گناہ کی رکھ دی اور عقل کو نیکی پر چلنے کی ہدایت کی۔ اب یہ ایسا ہی ہے ‘ جیسا کہ آپ پیٹرول کو یہ بات سمجھا دیں کہ جتنا مرضی شعلہ پیدا ہو‘ تم نے آگ نہیں پکڑنی۔ اب آگ جل رہی ہو‘ پیٹرول (کاربن )کا بری طرح سے دل کر رہا ہو کہ وہ آگ پکڑے لیکن پھر وہ صبر کیے بیٹھا ہو کہ میرے مالک نے منع کیا ہے ۔ میں نے آگ نہیں پکڑنی ۔یہ کیسے ہو سکتاہے ؟ لیکن ہمارے جسموں اور دماغوں میں یہ روزانہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے ۔ 
خد انے انسا ن میں tendencyپیدا کی ۔ گناہ کی خواہش (رجحان ) پیدا کیا ۔ پھر اس کے ساتھ ہدایت کی تعلیم دی اور منع کر دیا خواہش کی تکمیل سے ۔ یہ اختیار اس قدر حیرت ناک چیز ہے کہ انسان جس قدر اس پہ سوچتا جائے ‘ اتنا ہی حیران ہو تا چلا جاتا ہے ۔ بھلا لوہے کو بھی کوئی منع کر سکتاہے کہ پانی کی موجودگی میں زنگ نہ پکڑے ۔ خواہش کی طرف رجحان اور نیکی کی ہدایت ‘ 92عناصر میں سے چھ عناصرکو یہ اختیار دینا کہ وہ دونوں میں سے جوراستہ چاہے اختیار کر سکتے ہیں ‘ یہ ایک بہت ہی عظیم کیمیا دان کا کارنامہ ہے ۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ آپ ایک عنصر کو اپنی tendencyکی مخالف سمت میں جانے کا اختیار بھی دے دیں ۔
92عناصر میں سے کچھ کا مل کر زندگی میں ڈھل جانا اور پھر ایک زندہ جاندار کا دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا۔ سوچتے جائیے ‘ حیران ہوتے جائیے !

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں