دنیا میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں ‘ جنہیں انسان کوشش کے باوجود سمجھ نہیں سکتا۔ ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ سُر (Rhythm)والی آواز انسانی دماغ کو لذت کیوں بخشتی ہے ۔آپ صرف ایک لفظ '' من آمدہ ام‘‘ سر میں سنیں ‘ یہ لوگوں کو بدمست کر دیتا ہے ۔ جب ردھم کے ساتھ ایک چھوٹا سالفظ بھی بولا جائے‘ تو یہ انسانی دماغ کو سرور بخشتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ موسیقی سننے کے عادی ہیں ۔ مغرب کے بڑے گانے والوں کے دنیا بھر میںہزاروں اور لاکھوں نہیں‘ بلکہ کروڑوں مداح ہیں ۔
آپ پٹھانے خان کا صوفیانہ کلام سنیں : میڈا عشق وی تو‘ میڈا یار وی توں‘ انسان اس کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے ۔دوسری طرف خدا اور اس کے رسولﷺ کی تعریف جب میوزک کے بغیر بھی ردھم میں بیان کی جاتی ہے‘ تویہ انسان کی روح پہ سیکنت نازل کرتی ہے ۔
قرآن کی قرات سننے والے پہ جو اثر ڈالتی ہے ‘ وہ آپ کو معلوم ہی ہے ۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ حفظ کرنے والے زیادہ تر بچوں کی آواز اچھی لگتی ہے۔ ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں ‘ جو اگر گانا گائیں تو بے سرے نکلتے ہیں ؛اگر آپ اس چیز کا مشاہدہ کرنا چاہیں‘ تو کبھی کسی مدرسے جائیں ‘ جہاں حفظ کرایا جاتا ہو۔ ایک ایک بچّے کی آواز سنتے جائیں ‘ آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گاکہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔
انسان جب تیز میوزک کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے‘ تو وہ بدمست ہو جاتا ہے ۔ بانسری کی آواز خاص انتہائی دل موہ لینے والی ہوتی ہے ۔ اگر آپ نے نیراج شریدھر کا گانا Twistسنا ہو‘ جس میں بانسری کی آواز استعمال کی گئی ہے‘ تو آپ اس کا اندازہ کر سکتے ہیں ‘ اسی طرح صنم ماروی کے کلام'' منزلِ صوفی ‘‘میں ایک اسٹرومنٹ استعمال ہوا ہے ۔ اسے شاید وائلن یا ستار کہتے ہیں ‘ جس کی شکل گٹار سے ملتی ہے ۔ اس کی آواز انتہائی دل آویزہے۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ سُر انسانی ذہن کو لذت کیوں بخشتا ہے ۔ دوسری طرف سوال یہ بھی ہے کہ اسلام آلاتِ موسیقی سے منع کیوں کرتا ہے ؟ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ‘ سریلی آواز اور تیز رفتار انسان کو اس ذہنی کیفیت میں لے جاتی ہے ‘ جہاں جبلتوں کا تعامل تیز ہوجاتاہے ۔ یہ کوئی عام بات نہیں‘ بلکہ بہت بڑا phenomenonہے ۔ ایک دفعہ جب جبلتوں کایہ تعامل تیز ہو جاتا ہے‘ تو یہ دماغ کو ایسی imaginatioý ایسی فرضی صورتحال سوچنے پر مجبور کرتاہے ‘ جس میں وہ اپنے آپ کو دوسرے انسانوں پر غالب (Dominant)دیکھتا ہے ۔ خواہ اصل زندگی میں وہ سب سے زیادہ مسکین ہو۔ خاص طور پر تیز ڈرائیونگ کرتے اور ہوئے اور تیز میوزک سنتے ہوئے انسان بہت تیزی سے تخیلاتی Dominanceکی طرف جاتا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی عقل اس کے جذبات /خواہشات کے سامنے سرنگوں ہو جاتی ہے ۔ تصورات میں خود کو Dominantدیکھنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان حقیقت کی دنیا سے دور ہوتا چلا جاتاہے ۔ وہ جذبات کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے ۔ اس کی چال ڈھال میں تبدیلی آجاتی ہے ۔ اس تصوراتی دنیا میں وہ خود کو طاقتور‘ خوبصورت ‘ طرح دار اور غالب دیکھتا ہے ۔ اس کا ایک اور خوفناک نقصان یہ ہے کہ انسان جب تخیلاتی طور پر خود کو سب پہ غالب دیکھنے لگتا ہے تو حقیقی دنیا میں وہ اپنے مسائل کے خلاف جدوجہد ختم کر دیتا ہے ۔
انسان اس تخیلاتی دلدل میں کیسے اور کن اصولوں کی بنیاد پر دھنستا چلا جاتاہے ؟ ایک عجیب بات یہ ہے کہ انسان ان تخیلات میں خود کو ان لوگوں کے سامنے dominantدیکھتا ہے ‘ جو حقیقت کی دنیا میں بہت خوبصورت ‘ طاقتور ‘اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ طرح دار اور غالب ہوتے ہیں‘ جبکہ انسان کبھی بھی تخیل میں خود کو مسکین‘ کمزور ‘ ان پڑھ اور بدصورت لوگوں کے سامنے لاشیں گراتااور چھکے مارتا ہوا نہیں دیکھتا۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ کیا یہ کہ جبلتوں کے اس تعامل میں اس کا احساسِ کمتری بھی شامل ہو جاتا ہے ؟ اس کے علاوہ اس تصوراتی دنیا میں وہ خود کو انتہائی مظلومیت اور انتہائی برے حالات میں بھی لوگوں کے سامنے خود کو انتہائی صابر دیکھتا ہے ۔ اس سے بھی اسے لذت حاصل ہوتی ہے ‘ جس کی وجہ خودترحمی ‘ حبِ جاہ اور جنسِ مخالف کی محبت کا تعامل ہو سکتا ہے ۔
مجھے پہلے تو آواز کی سمجھ ہی نہیں آتی ۔پہلے تو یہ بات ہی انتہائی حیرت انگیز ہے کہ ایک جاندار کے منہ سے نکلنے والی آواز سے اس کے دماغ کے خیالات دوسرا جاندار جان لے ۔ اس کے ہونٹوں کی حرکت سے ہوا میں پیدا ہونے والا ارتعاش مکمل درستگی اور حتیٰ کہ درست گرائمر کے ساتھ اس کے خیالات اورکیفیت دوسرے جاندار کو سمجھا دے۔ کس طرح ایک جاندار کے گلے میں آلہ ٔ صوت‘ منہ میں زبان اور دماغ میں speech centerپیدا ہو گئے اور دوسرے کے کانوں میں ایسی ہڈیاں اور پھر ان ہڈیوں سے ایسی تاریں (Nerves)جو اس آواز کو دماغ تک لے جاتی ہیں ۔ خیر ‘ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترنم‘ ردھم میں پیدا ہونے والی آواز اسے اتنا لطف کیوں دیتی ہے کہ موسیقی ایک باقاعدہ پیشہ بن گئی ۔
تیز رفتار بھی انسان کو نشے میں لے جاتی ہے ۔ یہ تیز رفتار مٹی کے جسم کو طاقت کا احساس دلاتی ہے ۔ آپ کبھی ڈرفٹنگ اور ویلنگ کرتے ہوئے لڑکوں کو دیکھیں ۔ انسان اس نشے میں اپنی جان کے خوف سے بھی گزر جاتا ہے ۔ جنگ لڑنے والا ایک مسلمان خدا کی محبت میں اپنی جان کے خوف پر قابو پائے‘ تو شہید کہلاتا ہے ۔ وہی انسان جب اپنی قوت اور غلبے کے اظہار میں ‘ دوسرے الفاظ میں اپنے نفس کی محبت میں خطرات سے کھیلتا ہوا مر جائے‘ تو اسے آپ کیا کہیں گے ؟ خدا نے تو اس نفس کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرا ردے رکھا ہے ۔ یہ بہت طاقتور ہے ۔استاد کے الفاظ میں کروڑوں سالوں کے تجربات کا حامل ہونے کی وجہ سے نفس ایسی ہولناک مجموعی طاقت کا مالک ہے کہ خدا کی مدد کے بغیر کوئی بھی اس پر غالب نہیں آسکتا۔
کچھ عناصر سے بنا ہوا ایک انسان سو کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار اور کچھ تیز میوزک پر آپے سے اس قدر باہر ہو جاتا ہے کہ جھوٹی تصوراتی صورتِ حال میں اپنی طاقت کے مزے لے رہا ہوتا ہے ۔ اگر یہ انسان لاکھوں کلومیٹر کی رفتار پہ سفر کرنے لگے تو کیا ہوگا؟ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ انسان اپنے سر پہ ایک عینک پہن کر جھوٹی ‘ خیالی اور تصوراتی دنیا میں تلوار اٹھائے دشمن سے لڑ رہا ہوتا ہے۔ اسے سب کچھ حقیقت معلوم ہوتا ہے ؛ حالانکہ حقیقت میں وہ گیمنگ زون میں کھڑا ہوتا ہے ۔ 3 D effectsکی اس دنیا میں وہ خود کو جنگل میں شیر سے لڑتا ہوا دیکھتا ہے ۔ لاشعوری طور پر اسے یہ اطمینان بھی حاصل ہوتا ہے کہ شیر اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ وہ جب چاہے‘ عینک اتار کے اس تصوراتی دنیا سے باہر نکل سکتا ہے ۔ آگے ایک اور پیشکش آرہی ہے کہ شادی کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ تھری ڈی والا ہیلمٹ/عینک پہنو اور عیاشی کرو۔
عقل اور جبلت کی اس جنگ میں انسان خدا ہی سے مدد مانگ سکتا ہے ‘ورنہ تو نفس اسے چاروں شانے چت کر دیتا ہے ۔