"FBC" (space) message & send to 7575

وضاحت طلب ابواب

اگر آپ اس سرزمین پر زندگی کی کہانی پڑھیں‘ تو اس میں بہت سے ابواب وضاحت طلب ہیں ۔ ٹھیک ہے‘پہلا زندہ خلیہ پیدا ہو گیا۔ ٹھیک ہے کہ وہ تولید کے قابل تھا۔ مرنے سے پہلے اپنے جیسے دو پیدا کرگیا۔ ٹھیک ہے کہ یہ خوردبینی جاندار وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ پیچیدہ ‘ ہزاروں ‘ لاکھوں اور کروڑوں خلیات پہ مشتمل جانداروں میں تبدیل ہوئے ۔ زندگی رنگ بدلتی رہی ۔یہ رینگنے والے جانداروں (Reptiles)میں بدلی ۔ میملز بھاگنے لگے ‘ پرائمیٹس سیدھے کھڑے ہو گئے ‘ پرندے اڑنے لگے ۔ زندگی رنگا رنگ قسموں میں رینگنے لگی‘ چلنے اور اڑنے لگی ۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ آنکھ‘ گردہ ‘ پھیپھڑے‘ جگراور دل جیسے اعضا بن گئے‘ لیکن اس کے بعد بھی جلد(Skin) کی تو سمجھ ہی نہیں آتی۔
جلد کیا ہے ؟ جسم کا سب سے بڑا عضو۔ یہ سر سے لے کر پیر تک جسم پہ چڑھی ہوئی ہے ۔ اس جلد میں بہت ساری protectionsہیں ۔ اس کے بہت سارے functionsہیں ۔اس میں خوبصورتی رکھی گئی ہے ۔ جلد کا رنگ خوبصورتی کا باعث بنتا ہے ۔ ایشینز سفید جلد کو پسند کرتے ہیں ۔ یورپ والے اپنی جلد کی رنگت سورج کی روشنی میں قدرے مدھم کردینا چاہتے ہیں ۔ اس جلد کے پیچ و خم ‘ چہرے کے نقوش میں انتہائی خوبصورتی کی وجہ بنتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ خوبصورتی تو صرف skin deepہوتی ہے۔ جلد اتار دیجیے‘ نیچے گوشت کے لوتھڑوں ‘ ہڈیوں اور آنتوں کو دیکھ کر تو گھن آتی ہے ۔ 
یہ جلد خدا کی رحمت ہے ۔ جلد میں جو لمس اور درد محسوس کرنے کا نظام رکھا گیا ہے ۔ لمس محسوس کرنے پر وصل کی ساری داستان استوار ہے ۔ اسی طرح اس جلد میں درد محسوس کرنے کی صلاحیت رکھی گئی ہے ۔ درد ہمیں کتنا برا لگتاہے‘ لیکن اگر جلد میں درد محسوس کرنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو جاندار کبھی بھی اپنی زندگی کی حفاظت نہ کر سکتے ‘ اسی درد کی وجہ سے زخمی جانور چھپ کر بیٹھ جاتے اور اپنے زخم چاٹتے رہتے ہیں ۔تخلیق کرنے والے کی کاریگری دیکھیے کہ سر سے پائون تک‘ جسم کا ایک انچ بھی ایسا نہیں ‘ جس پہ یہ جلد نہ چڑھادی گئی ہو ۔اب تو ماہرین روبوٹس پر بھی جلد چڑھا رہے ہیں کہ اس کے بغیر انہیں انسان جیسا نہیں بنایا جاسکتا۔ 
یہی حساب بالوں کا ہے ۔ آپ ہالی وڈ کی ایک ہیروئن کے بال اتار دیں ‘ پھر دیکھیں نیچے سے کیا نکلتاہے ‘بلکہ سر کے بال تو دور کی بات‘ اس کی صرف بھنویں ہی مونڈ دیجیے ۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ بال کی صورت میں کس قسم کی خوبصورتی خدا نے تخلیق کی ہے ‘ پھر اگر ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ جب خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے خدا جلد اور بال پیدا کر رہا تھا ‘تو کتنا بڑا آرٹسٹ کیا تخلیق کر رہا تھا ۔کس طرح عورتوں کے سر کے بال لمبے رکھے گئے اور کیسے مردوں کے چہروں پہ ڈاڑھی مونچھیں پیدا کر دی گئیں ۔ اندازہ اس سے لگائیے کہ خواتین خوبصورت لگنے کے لیے میک اپ کرتے ہوئے مصنوعی ‘ بڑی اور گھنی پلکیں لگاتی ہیں۔ جلد میں سے لمس اور دردکا احساس نکل جائے‘ آپ خود کو ایک زندہ لاش پائیں گے ۔
اسی طر ح اگر آپ انسانوں سمیت ہر جاندار میں نر اور مادہ کی تقسیم دیکھیں‘ تو اور زیادہ حیرت ہوتی ہے ۔ عورت کی خاطر کیسی کیسی جنگ ہوتی ہے ۔اب آپ اس سارے پروسیجر کو شروع سے آخر تک دیکھیں۔ خدا نے جانداروں کو بنایا تو زندگی کی حفاظت کے لیے ان میں درد کا احساس رکھا۔ درد سے بچنے کے لیے وہ اپنے جسم اور اپنی زندگی کی حفاظت کرتا رہتا ہے ۔ یوں نفس میں اپنی جان کی حفاظت کا جذبہ اس قدر بڑھ گیا کہ وہ کبھی بھی کسی دوسرے کے لیے ایثار نہ کر سکتا‘ لیکن پھر زندگی آگے کیسے بڑھتی ؟ خدا نے ( اس عظیم منصوبہ ساز نے) عورت اور مرد کی صورت میں دو اصناف تخلیق کیں اور ان میں ایک دوسرے کے لیے محبت پیدا کی۔ اس محبت کی وجہ سے یہ نر اور مادہ ایک دوسرے کا بوجھ برداشت کرنے پہ راضی ہوئے ۔ اس کے بعداولاد کی صورت میں انتہائی خوبصورت چیز پیدا کی کہ جس کی وجہ سے ہنی مون پیریڈ ختم ہونے کے بعد بھی نر اور مادہ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مجبورہو گئے ۔ 
اس سب کے باوجود اگر نر اور مادہ کی صورت میںجب انسان جانداروں کو دو میں منقسم دیکھتا ہے ‘تو حیرت زدہ رہ جاتاہے ۔ عورت اور مرد کی صورت میں ‘ کیا اشیا ء خدا نے تخلیق کر دی ہیں ۔ 
پھر بچوں پہ غور کریں ۔یہ کائنا ت کی حسین ترین مخلوق ہیں ۔ خصوصاً ایک سے لے کر تین سال تک کے بچے میں اس قدر خوبصورتی ہوتی ہے کہ جو بیان سے باہر ہے ۔ دنیا کی خوبصورت ترین مسکراہٹ بچوں کی ہوتی ہے ۔ ان کی جلد بڑوں سے کہیں زیادہ خوبصورت ہوتی ہے ‘پھر ان کی معصومیت میں ایک خوبصورتی ہوتی ہے ۔اپنے بچے کے چہرے پر ایک مسکراہٹ دیکھنے کے لیے انسان لاکھ پاپڑ بیلتا ہے ۔ اس کے لیے کھلونے لے کر آتا ہے ۔ اسے جھولے دلاتا ہے ۔ کہانیاں سناتا ہے ۔ اس کے الٹے سیدھے کھیل میں اس کا ساتھ دیتا ہے ۔ اسے ہنسانے کے لیے دلچسپ آوازیں نکالتا ہے ۔ یہ بچہ آپ کو گہری نیند سے بیدار کردے‘ آپ کو برا نہیں لگتا؛ اگر بچوں میں خوبصورتی نہ ہوتی ‘تو ان کی تنگ کردینے والی حرکتوں پر انسان انہیں گھر سے نکال باہر کرتا ۔ یہی بچہ جب بڑا ہوجاتا ہے‘ تو اب اسے الٹی سیدھی حرکتیں کرنے پر چھترول سے گزرنا پڑتا ہے۔ 
زندگی ان گنت حفاظتی تہوں میں محفوظ کر دی گئی ہے ۔ اس زمین کو life sustainingبنانا کوئی چھوٹی موٹی سائنس نہیں تھی ۔ اسے سمندروں سے بھر دیا گیا کہ درجہ ٔ حرارت کم رہے ۔ اس کے اوپر فضا میں آکسیجن اور مناسب گیسز رکھی گئیں۔ اس کی سطح پر جنگلات اگائے گئے کہ جاندار اپنی خوراک حاصل کریں ۔ اس کے نیچے پگھلا ہوا لوہا رکھا گیا کہ مقناطیسی میدان پیدا ہوں اور سورج کی تابکاری سے جانداروں کو بچائیں ۔ مخلوقات کے لیے پینے کا میٹھا پانی پیدا کیا۔ بارش رکھی گئی ۔ زمین کے نیچے پانی کو محفوظ کر دیا گیا کہ وہ زیادہ نیچے نہ جانے پائے ۔ اسی طرح بادلوں کی صورت میں پانی کو محفوظ رکھا گیا‘ مبادا وہ زمین کی حدود سے باہر نہ نکل جائے ۔ یہ سب تو بیرونی حفاظتیں تھیں۔ انسانوں اور مخلوقات کے اندر بھی کئی قسم کی protectionرکھی گئی۔ 
یہ سب کچھ خدا نے پیدا کیا۔ اس لیے کہ پانچ ارب قسم کی مخلوقات میں سے ایک خود پہ نازل ہونے والی شریعت کی پابند رہے ۔ اس لیے کہ ان پانچ ارب قسم کی مخلوقات میں سے ایک غور و فکر کرے ۔ ہم انسانوں کو غور و فکر کے لیے پیدا کیا گیا تھا‘ تاہم اگر ہماری تمام تر زندگی پیزے ‘ برگر اور انٹر نیٹ تک محدود ہو جائے ؛ اگر اس پوری زندگی میں چند لمحات کا غور و فکر بھی میسر نہ آئے‘ تو انسان کو دو ٹانگوں والا جانور ہی کہاجا سکتا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں