کبھی کبھار ماں اور بالخصوص باپ جب اولاد کو کسی نعمت کی بے قدری کرتا ہوا دیکھتا ہے‘ تو وہ آزردہ ہوجاتا ہے ۔ وہ سوچنے لگتاہے کہ کاش! اسے معلوم ہوتا کہ کس قدر محنت سے ‘ کتنی بڑی قیمت ادا کر کے میں نے یہ عافیت کدہ تعمیر کیا ہے اور کتنے آرام سے یہ اس نعمت کو ضائع کر رہا ہے ۔ یہی حال انسانوں کا ہے ۔ خدا رنج و غم میں مبتلا نہیں ہوتا‘ پھر بھی جب ایک بڑا دماغ ایک چھوٹے دماغ کو کم عقلی کا کام کرتے دیکھتا ہے ‘تو افسوس ضرور ہوتاہے ۔ قرآن میں بھی یہ الفاظ موجود ہیں '' یااسفیٰ علی العباد‘‘ بندوں پر افسوس...!
اگر انسان زندگی کی نعمتوں کا شمار کرے تو touch(لمس)کا احساس شایدعظیم ترین نعمتوں میں سے ایک ہے۔ زندگی کچھ بھی نہ ہوتی ‘ اگر انسان کی جلد میں لمس کا احساس (Feeling of touch)نہ ہوتا۔ انسان اپنی اولاد سے محبت کرتاہے ۔ اسے اٹھاتا اور چومتا ہے ۔ اگر جلد میں لمس کا احساس نہ ہوتا ‘تو کبھی بھی وہ اسے اٹھانے اور چومنے سے لطف حاصل نہ کر سکتا‘ بلکہ بچّے کو اٹھانا اور چومنا ایک بورکردینے والی مشق بن کے رہ جاتی ۔ ماں کے دل میں بچّے کے لیے پیدا ہونے والی محبت میں سب سے اہم کردار بھی لمس کا ہی ہے ؛ اگر لمس کا احساس نہ ہوتا ‘تو ماں کے لیے بچّے کو دودھ پلانا بھی ایک بور کر دینے والی مشق ہی ہوتی ۔ انسان جب اپنے بچّے کو چھوتا ہے ‘ اسے چومتا ہے‘ تو اس کے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نوزائیدہ اور شیر خوار بچوں کے لمس کا احساس کس قدر فرحت انگیز ہوتاہے ۔ اتنی ہی زیادہ حیرت ہوتی ہے‘ انسان کو اس ذات پہ جس نے یہ لطیف احساس بچے کی جلد میں پیدا کیا ۔
اسی طرح عورت اور مرد میں ایک دوسرے کی محبت ‘ شادی اور اولاد پیدا کرنا‘ جس پہ انسانی نسل کا بقا منحصر ہے ‘ اسی لمس کے احساس کی محتاج ہے ۔ اس جلد کے ایک ایک ذرے میں لمس کا احساس کس نے پیدا کیا اور کیوں پیدا کیا؟ ہم کبھی یہ نہیں سوچتے ‘بلکہ ان سب چیزوں کو for grantedلیتے ہیں ۔
انسان چل نہ سکتا ‘ اگر لمس کا احساس نہ ہوتا ۔ جب ہم اپنا پائوں زمین پر رکھتے ہیں‘ تو لمس کے احساس ہی سے سب کچھ نارمل ہونے کا احساس ہوتاہے ؛ اگر زمین گرم ہو تو پائوں جلنے لگتے ہیں ۔ ہومو سیپین کی تین لاکھ سالہ تاریخ میں جوتے تو ابھی کل استعمال ہونا شروع ہوئے ہیں ۔ اس سے قبل بھی انسان ننگے پائوں جنگلات اور پہاڑوں میں چلتا پھرتا تھا۔ کانٹا چبھ جانے کا احساس ‘ زمین گیلی یا ٹھنڈی ہونے کا احساس ‘ یہ سب جلد کے اس جادوئی کمال‘ لمس (Touch)کا کمال ہے ۔
اس لمس تلے چھپے ہوئے ‘اللہ کے احسانات لا محدود ہیں ۔ انسان کھانا نہ کھا سکتا؛ اگر اس کا ہاتھ چپاتی کو چھو کر محسوس نہ کر سکتا۔ اگر وہ چمچ کا لمس محسوس نہ کر سکتا ‘تو کبھی درستگی کے ساتھ چاول اپنے منہ تک نہ لے جا سکتا ۔ لمس کا یہ جادو زبان تک پہنچ کے اپنے عروج پہ پہنچ جاتاہے ۔ یہ ذائقے میں بدل جاتا ہے ۔ میٹھا ذائقہ‘ ترش‘ کڑوا اور نمکین۔ انسان ایک ایک چیز کو چکھتا چلا جاتا ہے اور اپنی Dietترتیب دیتا چلا جاتاہے ۔ زبان میں لمس اور ذائقے کے احساسات نہ رکھے جاتے تو کھانا کھانا ایک بور کردینے والا دقت آمیز کام بن جاتا ‘ جس سے جاندارجان چھڑانے لگتے اور کمزور ہو کر مر جاتے ۔
دوسری حسیات بھی ساتھ ساتھ مدد کرتی ہیں ۔ انسان اور سب جانداروں میں حسن و عشق صرف لمس ہی نہیں‘ بلکہ دیکھنے کی حس پر بھی انحصار کرتاہے ‘ اسی طرح ذائقے کے علاوہ معدے سے بھوک کا احساس دماغ تک لے جانے والی نروز بھی انتہائی اہم ہیں‘ اسی طرح جب انسان کھانا کھا لیتاہے ‘تو بھوک ختم ہونے کا احساس اورنئی توانائی پیدا ہونے کا احساس جیسے خون اور نروز کے ذریعے دماغ تک جاتا ہے ‘ وہ بھی انتہائی اہم ہے ۔ یہ سب اپنی جگہ‘ لیکن جب انسان ضرورت کے تحت یا شوقیہ طور پر کوئی بھی کام کرتا ہے‘ تو لمس کے احساس ہی کی مدد سے اسے انجام تک پہنچایا جاتاہے ۔ لمس نہ ہوتا تو انسان کبھی ڈرائیونگ نہ کر سکتا ۔
آخر انسان بھی اسی نتیجے پر پہنچا کہ اسے touchوالے سمارٹ موبائل فونز اور touchوالے روبوٹس بنانا ہوں گے‘ اگر زیادہ سے زیادہ featuresرکھنے ہیں ‘تو لیکن یہاں ایک مخمصہ پیدا ہوتاہے ۔ جتنے کسی روبوٹ یا موبائل فون میں زیادہ فیچرز رکھے جاتے ہیں ‘ اتنی ہی جلدی وہ اپنی توانائی ختم کر دیتاہے ۔ سمارٹ فونز ایک ہی دن میں اپنی توانائی خرچ کر لیتے ہیں ‘ جس کے بعد انہیں دوبارہ چارج کرنا پڑتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں بٹنوں والے موبائل فون کئی دن نکال جاتے ہیں۔ صدقے جائیے ‘ اس پروردگار کے ‘ جس نے انسان میں اَن گنت featuresرکھے او ر توانائی؟ناقابلِ یقین حد تک کم توانائی پہ اس کے جسم کو کام کرنے کے قابل بنایا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ انسان کا جسم کام کرنے کے لیے اسی طرح سے کرنٹ کا محتاج ہوتاہے؟جیسا کہ ایک روبوٹ اور موبائل فون بیٹری کی توانائی کا ۔ جہاں تک انسان کی سوچ کام کرتی ہے ۔ جہاں تک وہ زمین کی تہوں اور آسمانوں کی وسعتوں تک غور کر سکتاہے ‘ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک لمحے میں اس کی ساری توانائی خرچ ہو جاتی ۔ ویسے سب مخلوقات میں سے انسان میں ہی دماغ سب سے زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے ‘ جو کچھ بھی انسان کھاتا ہے اور جتنی آکسیجن بھی اس کے اندر جا کر توانائی پیدا کرتی ہے ‘ اس کا بیس فیصد دماغ کھاجاتا ہے ۔ دوسرے جانوروںمیں یہ شرح کافی کم ہے ۔ بہرحال انسان یا کسی بھی جاندار کا جسم اور دماغ کس طرح کم از کم توانائی پہ کام کرتا رہتاہے ‘ اس کے بارے میں تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے ۔
انسان کے جسم میں آنکھ‘ کان‘ لمس اور ذائقے کی مدد سے ڈیٹا دماغ تک جاتا ہے۔ ایک ایک سیکنڈ میں ان گنت معلومات دماغ تک منتقل ہوتی ہیں ۔ دماغ ان پر فیصلے کرتاہے ‘ تو انسان گاڑی چلانے اور کرکٹ کھیلنے کے قابل ہوتاہے ۔ جلد میں لمس کے احساس کی اہمیت ان سے پوچھئے ‘ جن کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے ۔ لمس کے احساس کے بغیر انسان ایک زندہ لاش بن کے رہ جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ لوگ‘ جنہیں تکلیف دہ جلدی بیماریاں لاحق ہیں ‘ اگر آپ ان کو دیکھیں ‘توآپ کو احساس ہو کہ ہم کن نعمتوں کو for grantedلیتے رہتے ہیں۔
کبھی انسان سوچتا ہے کہ کیا خدا میری بچگانہ حرکتیں دیکھ کر کہہ رہاہوگا: یاسفیٰ علی العباد۔ بندوں پر افسوس ! جی ہاں ‘ دماغ کے لیے decision makingکبھی بھی اس قدر آسان نہ ہوتی ‘ اگر جلد میں لمس کا احساس نہ ہوتا ۔ ہماری زندگی زندہ لاشوں کی طرح گزرتی‘ جلد میں اگر لمس کا احساس نہ ہوتا ۔ہمارے اندر جذبات نہ ہوتے‘ محبت نہ ہوتی اگر جلد میں لمس کا احسا س نہ ہوتا اور تو اور ‘ مائیں بچوں کو دودھ نہ پلاتیں ‘ جلد میں اگر لمس کا احساس نہ ہوتا ۔
وہ خدا محبت اور عبادت کے لائق ہے ‘ جس نے جلد میں لمس کا احساس پیدا کیا !