کائنات کا نظام بخیر و خوبی چل رہا تھا ۔ ہر آسمان پہ نوری مخلوقات خدا کی تسبیح میں مصروف تھیں کہ خدا نے ایک سیارے پر ایک مخلوق تخلیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک کمزور مخلوق تھی ۔ کبھی اس کی خواہشات غالب آجاتیں اور کبھی ہدایت ۔ یہ کائنات کی واحد مخلوق تھی‘ جسے نیکی اور بدی میں سے ایک کو چننے کا اختیار دیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ فرشتوں نے اپنی کم علمی کی وجہ سے اس پر اعتراض کیا کہ اس زمین پر تو جو مخلوقات زندگی گزار رہی ہیں ‘ وہ ایک دوسرے کا خون بہانے والی ہیں ۔ ایک دوسرے کو وہ چیر پھاڑ دیتی ہیں ۔بھلا ان میں سے کوئی خدا کا نائب کیسے بن سکتا ہے ۔ ان کو کیا پتا تھا کہ آگے ہونے کیا جا رہا ہے ‘ جو کمزور لوگ ہوتے ہیں ‘ وہ اپنے غلاموں کوکسی قسم کا اختیار نہیں دیتے ‘بلکہ جبر اً ان سے ہر کام کرواتے ہیں ۔ طاقت کی انتہا یہ تھی کہ خدا نے آدم کی اولاد کو اختیار دیا کہ وہ گناہ اور نیکی میں سے جسے چاہے اختیار کرے ۔بے شمار انسان ایسے ہیں ‘جو روزانہ خدا کے وجود (Existence of God)ہی کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں ۔ انہیں بھی عمر بھر کی مہلت دی جاتی ہے ۔
آدم علیہ السلام سے ایک غلطی ہو گئی ۔ انہیں زمین پر اتار دیا گیا۔ وہ غمزدہ ہوئے ۔ ان پر توبہ نازل ہوئی ۔خدا نے انہیں معاف کر دیا ۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات طے ہو گئی کہ آدم کی اولاد ہمیشہ غلطیاں کرتی رہے گی ‘ پھر ان میں سے جو نادم ہوں گے اور معافی کی درخواست کریں گے‘ تو خدا ان کو معاف کر دے گا۔
زمین پر انسانوں کا قیام طویل سے طویل تر ہو تا چلا گیا۔ایجادات ہوتی رہیں؛حتیٰ کہ انسان اس قابل ہو گیا کہ ایک دوسرے کی آواز ریکارڈ کر سکے ۔ سکرین شاٹ لے سکے اور ویڈیو بنا سکے ۔ یوں انسان اس قابل ہو گیا کہ کسی کمزور لمحے میں ہونے والی انسان کی ایک لغزش کو دوسروں کے سامنے پیش کر سکے ۔سکرین شاٹ اس بات کا اعلان ہوتاہے کہ یہ شخص ‘جسے ملزم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے ‘ فلاں وقت پر ایک نازیبا بات کرتا ہوا پایا گیا ہے ؛چنانچہ یہ قابلِ نفرت ہے اور سارے معاشرے کو اس سے نفرت کرنی چاہیے ۔ دوسری طرف یہ بات پہلے ہی سے طے شدہ ہے کہ ہر انسان زندگی میں کبھی نہ کبھی ٹھوکر ضرور کھائے گا‘ بلکہ روزانہ کی بنیاد پر غلطیاں کرے گا۔ اس لیے کہ اس کی فطرت میں گناہ کی خواہش موجود ہے ۔ اس کے دماغ میں غصے کی جبلت موجود ہے ۔ بعض اوقات ایسا ہوتاہے کہ ایک اچھا بھلا انسان صرف نیند کی کمی یا بلڈ پریشر اوپر نیچے ہونے کی وجہ سے چڑچڑا ہو جاتا ہے ۔ایسے موقع پر وہ کوئی نازیبا بات کر دیتاہے ۔ اس کے ساتھ ہی اپنے اپنے کیمرے اور دوربینیں اٹھائے ہمارے صالح بھائی درختوں سے نیچے اترآتے ہیں اور بنی نوع آدم کو اس ذلیل انسان کی کارستانیوں سے با خبر کرنے کا فریضہ انجام دینے لگتے ہیں ؛حالانکہ یہ بات پیدائشی طور پر طے شدہ ہے کہ انسان ساری زندگیوں غلطیوں پہ غلطیاں کرتا رہے گا۔ ہاں؛ البتہ‘ اگر وہ معاشرے کے خلاف کسی گھنائونے جرم میں شریک ہے‘ تو پھر اس کی وڈیو بھی بننی چاہیے اور یہ ویڈیو قانون اور عدالت کے سامنے پیش بھی ہونی چاہیے ۔
سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو لتاڑنے کا کلچر دو بڑی سیاسی جماعتوں نون لیگ اور تحریکِ انصاف کی کشمکش میں پھلا پھولا ۔ پڑھے لکھے طبقات کی اکثریت پے درپے حکومتوں اور بے کارکار کردگی کی وجہ سے نون لیگ سے تنگ آچکی تھی ۔ یوں انہیں سوشل میڈیا پر اپنے مخالفین کو لتاڑکر اپنے کتھارسز کا موقع ملا ۔ بعد ازاں انہیں ایک دوسرے کی چھترول کی عادت پڑ گئی ۔ 2007ء کی وکلا تحریک کے نتیجے میں بھی ایسے عناصر پیدا ہوئے تھے‘ جو طاقت کے نشے میں بے لگام پھرنے لگے ۔
میرا اشارہ سب کی طرف نہیں ۔ بہت سے لوگ صرف اس لیے دن رات وزیر اعظم عمران خان صاحب کی حمایت میں لڑتے بھڑتے رہتے ہیں کہ ان کے خیال میں شریف خاندان پاکستان کی موجودہ حالت کا ذمہ دار ہے اور صرف کپتان ہی پاکستان کے حالات بدل سکتا ہے ۔ سوشل میڈیا کو آپ کیا کہیں گے کہ اسے ریگولرائز تو نہیں کیا جا سکتا ۔ معاشرے کے ہر فرد کی تربیت نہیں کی جا سکتی ‘لیکن قومی الیکٹرانک میڈیا میں بھی معمولی غلطی کرنے والوں کی شکلیں ٹی وی پر دکھا کرکم عمر لوگوں کو ساری زندگی کے لیے بدنام کر دیا جاتاہے ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر خدا ہمارے سکرین شاٹ بنا کر معاشرے کے سامنے Displayکردے تو کیسا ہو ؟ کیسا ہو اگر ایک بندہ جب توبہ کرنے لگے توخدا کی طرف سے اسے کورا سا جواب ملے اور ساتھ ہی لوگوں کے سامنے اس کے سکرین شاٹس چلنے لگیں ۔انسان کی ایک عجیب بات یہ ہے کہ وہ اپنے گناہوں کے بارے میں تو ہمیشہ یہ سوچتا ہے کہ خدا معاف کر دے گا‘ لیکن دوسروں کے بارے میں اس فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کرپاتا۔ ایک طرف تو ہمارا رب ہے جو کہ بدترین گناہوں کو بھی معاف کرنے‘ بلکہ گناہ کے بعد توبہ کرنے والوں سے بھی محبت کا اعلان کرتاہے۔ادھرانسان ہے کہ اپنے جیسوں کا کوئی عیب ہاتھ آجائے‘ تو ساری زندگی کے لیے اسے بلیک میل کرنے اور ساری زندگی اسے طعنے دینے کا فرض نبھاتا رہتاہے ۔ کہاں خدا ہے جو کہتاہے کہ میں تمہیں اس طرح پاک کر دوں گا ‘ جیسے تم ماں کے پیٹ سے آج ہی پیدا ہوئے ہو۔ کہاں یہ نیکی کے ''فرشتے‘‘ جن کا کہنا یہ ہے کہ ہم تمہارا گناہ پورے معاشرے کے سامنے ساری زندگی کے لیے آویزاں کر دیں گے ۔ ایک طرف خدا ہے ‘ جس نے عیبوں کو ڈھکنے کی اپنی صفت ستار العیوب تھام رکھی ہے اور دوسری طرف ہمارے یہ دوست ہیں ‘ جوہر فرد کو عریاں کر دینا چاہتے ہیں ۔ایک طرف خدا ہے ‘ جو ہمیشہ معاف کر دینے پہ تلا ہوا ہے اورد وسری طرف یہ ''نیکو کار‘‘ ہیں ‘ جو کسی قیمت پر آپ کو معاف کردینے پر آمادہ نہیں ۔
سچ یہ ہے کہ جو بھی دائمی نیکی اور پارسائی کا دعویٰ کرے ‘ وہ جھوٹا ہے ۔ اگر وہ گناہ نہیں کرتا‘ تو بھی اپنی نیکی کا تکبر ہی اس کی تباہی کے لیے کافی ہے ۔ اس کے برعکس ایک شرمسار گناہ گار اس سے بہت بہتر ہے ؛اگر انسان پلٹ کر اپنی زندگی کو دیکھے تو ہزاروں لمحات ایسے ہوں گے ‘ جن کا وہ پردہ چاہے گا اور خدا ساری زندگی ان پر پردہ ڈالے رکھتاہے ۔ اگرکسی کا دعویٰ یہ ہے کہ اس کی ساری زندگی گناہ اور خطا سے پاک ہے تو اندازہ ہی کیا جا سکتاہے کہ وہ کس قدر بڑا کذاب ہے ۔
سکرین شاٹ والا کلچر سرے سے ہی غلط ہے ۔ جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں ‘ وہ خدا کی صفت ''ستار العیوب ‘‘ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں ‘ جس کا انجام بھیانک ہے ۔ خدا کی طرف سے سکرین شاٹس ‘بلکہ وڈیوز اور اعضا کی گواہی صرف ان کے لیے ہوگی‘ جنہوں نے اپنی پوری زندگی غفلت کی نذر کر دی ۔ جو لوگ پلٹتے رہے اور توبہ کرتے رہے ‘ ان کے ساتھ رحم و کرم والا معاملہ ہی ہوگا ۔ اس لیے سکرین شاٹ والی کہانیاں ‘ ان پہ بیوائوں والے ماتم اور غیبت کی محفلوں سے پرہیز کیجیے ؛ اگرآپ کو کوئی کہتا بھی ہے کہ اس کے پاس آپ کے خلاف سکرین شاٹس موجود ہیں ‘تو اسے کہیے کہ بھائی میرے سکرین شاٹس جاری کر کے تو اپنے دل کے ارمان ایک دفعہ پورے کر لے۔ یقین کیجیے ‘ کوئی پہاڑ نہیں ٹوٹے گا‘ لیکن کبھی کسی سے بلیک میل نہ ہوں‘ورنہ یہ سلسلہ ساری زندگی چلتا رہے گا۔